سردار عبد القیوم خان نیازی نے آزاد جموں و کشمیر کا
13ویں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔حلف
برداری کے بعد انہیں روایتی انداز میں سلامی دی گئی ۔ وہ آزاد کشمیر میں
کرپشن سے پاک ریاست اور پاکستان جیسا احتساب کا نظام رائج کرنے کا عزم
رکھتے ہیں۔ عوام کا معیار زندگی بلند کرنا،پن بجلی کے منصوبے، صحت، تعلیم،
مواصلات ان کی ترجیحات ہیں۔ وہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کا اعلان کر
رہے ہیں۔بے داغ سیاست کے لئے معروف نیازی صاحب وزارت عظمیٰ کے دوڑ میں شامل
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، سردار تنویر الیاس ، خواجہ فاروق احمد سمیت کئی
شخصیات سے آگے نکل گئے۔یہ سب ان کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہیں۔وزیر اعظم
پاکستان عمران خان نے’’ نیازی ‘‘کی وجہ سے ان کوتوجہ اور اہمیت دی۔ گو کہ
نیازی آپ کا تخلص ہے اور نیازی تخلص انہیں سردار عبدالقیوم خان مرحوم نے
اپنا ہم نام ہونے کی وجہ سے دیا۔کیوں کہ ایک جماعت اور ایک حکومت میں ہونے
کے باعث’’ ہم نام ‘‘ سے لوگ اور سرکاری اہلکاردھوکہ کھا جاتے تھے۔اس وقت
کسی کے خواب میں بھی نہ ہو گا کہ یہی تخلص انہیں دہائیوں بعد ریاست کی
وزارت عظمیٰ تک پہنچا دے گا۔ عمران خان نے بھی چونک کر اس کا خود اعتراف
یوں کیا کہ ’’ہم نیازی سب جگہ پھیل چکے ہیں‘‘۔جی او سی مری آپ کے قریبی
عزیز ہیں۔
سردار عبد القیوم خان نیازی نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1982 میں ضلع
کونسلرپونچھ آزاد کشمیر سے کیا۔مسلم کانفرنس سے خاندانی تعلق رکھتے ہیں۔
2006 میں پہلی بار مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی منتخب ہوکرپارلیمانی
سیاست کا آغاز کیا۔ 2006 سے 2011 تک وزیر مال، جیل خانہ جات، جنگلات و
دیگروزارتیں سنبھالیں۔ 2011 اور 2016 میں انتخابات میں حصہ لیا۔ 2016 میں
انتخابات میں شکست تسلیم نہ کی اور یہ معاملہ پارٹی قیادت سے اعلیٰ سطح پر
اٹھانے کا مطالبہ کیا ۔ قیادت نے خاموشی اختیار کی تو سردار عبد القیوم
نیازی نے احتجاج کیا۔ ایک سال تک مسلم کانفرنس کے ساتھ ناراض رہے۔ پھر
تحریک انصاف آزاد کشمیرمیں شامل ہو گئے۔ انہیں مرکزی جوائنٹ سیکرٹری مقرر
کیاگیا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی پارلیمانی بورڈ کے ممبر بنے۔ کشمیر الیکشن
کمپین کے رکن بھی رہے۔
سردار عبد القیوم نیازی کا تعلق مقبوضہ پونچھ کے درہ شیر خان سے ہے۔ہجرت کر
کے آزاد کشمیر آئے۔ دولی خاندان، مغل قبیلے سے تعلق ہے۔سیز فائر لائن پر
آباد ہونے کی وجہ سے کئی بار بھارتی گولہ باری سے بال بال بچ نکلے۔ ہمیشہ
اپنے حلقے کے لوگوں کا ساتھ دیا اور فائرنگ کے دوران زخمیوں کی عیادت کیلئے
پہنچتے رہے۔ کبھی بھی اپنا گاؤں نہ چھوڑا ۔ ان کا پورا حلقہ سیز فائر لائن
پر واقع ہے۔ سمجھتے تھے کہ گاؤں چھوڑ ا یا وہاں سے ہجرت کی تو ان کے حلقے
کے عوام کا مورال کم ہو گا۔ بھارتی توپوں اور گولوں کے سامنے کھڑے رہے۔
اسلام آباد میں تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی سب سے پہلا مطالبہ یہی کیا کہ
سیز فائر لائن پر آباد عوام کے لئے بینکر زتعمیر کئے جائیں ۔ انہیں تعلیم
اورصحت کی جدیدسہولیات مہیا کی جائیں۔وفاقی حکومت سے سیز فائر پر آباد عوام
کو صحت کارڈ کی سہولت فراہم کی۔ اب امید ہے کہ نیلم ، جہلم، نکیال، پونچھ
سیکٹرز اور دیگر علاقوں کے عوام کے لئے مورچوں کی فوری تعمیر پر توجہ دیں
گے اور عوام کے تحفظ کے لئے دیگر اہم اقدامات کریں گے۔
سردار عبد القیوم نیازی نے ہمیشہ دیگر قبائل کو ساتھ ملایا اور برادری ازم
کی حوصلہ شکنی کی۔ اپنے حلقے کے اقلیتی برادری سے تعلق کے باوجود ہمیشہ
دیگر قبائل کے ہزاروں ووٹرز کا اعتماد لینے میں کامیاب رہے۔ 2016 کے الیکشن
میں 20 ہزار کے قریب ووٹ لئے۔ 2021 کے الیکشن میں سردار عبد القیوم نیازی
نے 24 ہزار 500 سے زائد ووٹ لئے۔ انہیں تمام برادریوں کا بھرپور اعتمادحاصل
رہا۔ان سے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کے دکھ کو ہمیشہ
اپنا دکھ سمجھتے ہیں اورہر خوشی اور غمی میں سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ سردار
عبد القیوم نیازی کے بڑے بھائی سردار غلام مصطفیٰ دو بار آزاد کشمیر اسمبلی
کے ممبر اور وزیر رہ چکے ہیں۔ ایک چھوٹے بھائی سردار حبیب ضیاء سپریم کورٹ
آزاد کشمیر کے منجھے ہوئے وکیل ہیں۔ تیسرے بھائی امریکا میں مقیم ہیں۔ ایک
بیٹا برطانیہ میں قونصلر ہے۔ سردار عبد القیوم نیازی آزاد کشمیر یونیورسٹی
کے گریجویٹ ہیں۔ والد گرامی سردار فضل داد بھی 1979 میں ڈسٹرکٹ کونسلر
منتخب ہوے۔ وہ جموں یونیورسٹی سے 1947 سے پہلے کے گریجویٹ تھے۔ مجاہد اول
کے پونچھ کالج میں میٹرک تک ہم جماعت تھے۔ والد کی وفات پر ڈسٹرکٹ کونسلر
بنے ۔
سردار عبد القیوم نیازی انتہائی شریف النفس، درویش صفت انسان ہیں۔ پانچ وقت
کے نمازی ہیں۔امید ہے کہ ان کا دور آزاد کشمیر میں تعمیر و ترقی کا نیا
دورثابت ہو گا۔ علاقہ پرستی یا برادری ازم کے بجائے میرٹ کی بالادستی قائم
ہو گی۔ مسلہ کشمیر پر توجہ دیں گے۔ آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ
بنانے میں کردار ادا کریں گے۔ امید ہے کہ وہ تقسیم کشمیرکے پروپگنڈہ کو غلط
ثابت کرتے ہوئے کشمیر کے تشخص ، عام آزادی کی عزت نفس کا خیال کریں گے۔
مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے کے لئے کشمیر کی پیداوار میں اضافہ پر توجہ
دی جائے تو کئی مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
|