نظریہ پاکستان ہے کیا

ستر سال سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود پاکستانی کی نظریاتی اثاث پرآج بھی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ ملک کیوں بنا اور اس کے مقصد کیا تھے؟ اس لئے ضروری ہے کہ امر کا جائیزہ لیا جائے کہ قیام پاکستان کامحرک کیا تھا اور کس بناد پر مطالبہ پاکستان کیا گیا۔ پاکستان کی بنیاد ایک نظریہ پر ہے۔ نظریہ یا آئیڈیالو جی وہ بنیادی تصورات ہوتے ہیں جن پرکسی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔آئیڈیالوجی اپنے اندر شدید قوت محرکہ رکھتی ہے۔اس میں بموں سے ذیادہ طاقت ہوتی ہے۔جب ہم نظریہ پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ تصورات اور آئیڈیالوجی ہے جس کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔حصول مملکت کے لیے جس نظام کو منتخب کیا گیا تھا اور نظریہ پاکستان کی وضاحت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مارچ 1944میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تقریر کرتے ہوئے یوں کی کہ پاکستان کی بنیاد تو اسی دن پڑ گئی تھی جس دن ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ظاہر ہے جو شخص مسلمان ہوا ہو گا وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اور اس پر ایمان لا کر اور دائرہء اسلام میں داخل ہو ا ہو گا۔چنانچہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کلمہ طیبہ ٹھہری یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے دنوں ہر طرف ایک ہی آواز گونجتی تھی کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ ۔ یہ کوئی بچوں کا نعرہ نہیں تھا بلکہ بانی پاکستان نے خود اس کی وضاحت کی تھی۔ پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے پھر کہا۔میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دیانتدار آدمی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ مسلمان بجائے خود ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہیں۔ہم دونوں میں صرف مذہب کا فرق نہیں بلکہ ہماری تاریخ اوثقافت بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے ولن ہیں۔مسلمان دیگر مذہب کے ماننے والوں سے الگ قوم ہیں۔اسی نظریہ کا اظہار جنگ بدر کے موقع پہ ہواکہ دنیا میں قوم کی بنیاد رنگ نسل اور کلچر پہ نہیں بلکہ مشترکہ نظریات تصور حیات اور دین پر ہے۔ اسی تصور کو سر سید احمد خان نے بر صغیر میں واضع کیا۔ برصضیر میں چوہدری رحمت علی پہلے شکص تھے جنہوں نے بزم شبلی میں 1915 میں اسلامیان ہند کے لئے ایک الگ ملک کا تصور دیا اور بعد ازاں انہوں نے اس مملکت کو پاکستان کا نام دیا۔ اسی نظریہ کی تشریح علامہ اقبال نے یوں کی
اپنی ملت سے قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ رسول پاک کی نسبت سے ہی قوم تشکیل پاتی ہے۔یہی نظریہ قیام پاکستان کی بنیاد بنا اور قرآن حکیم نے تو یہ اعلان کر دیا ہے کہ جب مومنین کو زمین پر اختیار ہوتا ہے تو نظام صلواۃ و زکواۃ قائم کرتے ہیں۔( 24 / 11)اس سے مراد وہ مملکت ہے جو اسلامی نظریہ سے تشکیل پاتی ہے۔ورنہ نماز ادا کرنے اور زکواۃ دا ہونے کی اجازت تو ہر غیر مسلم ملک میں بھی ہے۔اس لیے زمین پر اختیار کی ضرورت نہیں۔قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے بھی بہت سے مواقع پر یہ کہا کہ ہمیں قرآن حکیم سے رہنمائی لینی چاہیے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نظریہ کو پھر سے اجاگر کیا جائے تاکہ نوجوان نسل اس سے آگاہ ہو سکے کیونکہ بہت سے عناصر مملکت خداداد کی نظریاتی بنیادوں کو مسمار کرنے کے درپے ہیں۔اور بانی پاکستان کو سیکولر شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جسے وہ سیکولر جناح کہتے ہیں اور ان کی گیارہ اگست1947کی تقریر کی غلط تعبیر لیتے ہیں۔میں ان پر واضع کر دینا چاہتا ہوں کہ اس تقریر کے بعد قائد اعظم تیرہ ماہ زندہ رہے۔اس کے بعد کی تقریروں میں قائد بار بار قرآن سے رہنمائی اور نظریہ پاکستان کی وضاحت کرتے رہے لیکن قائد اعظم نے کسی ایک موقع پر بھی یہ نہیں کہا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی۔کوئی اس بارے میں ثبوت پیش نہیں کرسکتا۔

11 اگست 1947 میں انہوں نے اقلیتوں کے حقوق کا کرتے ہو ئے انکے تحفظ کایقین دلایا تھا مگر اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ اپنے اس نظریہ سے رو گردانی کر چکے تھے جس کے تحت انہوں نے جدو جہد کی۔بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے حصول پاکستان کی خاطر اس نظریے کو اپنایا اور بعد میں اسے ترک کر دیا۔یہ بھی حقائق کے منافی ہے۔ چودہ اگست 1948کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کہا۔پھر اس سے پہلے جو لائی 1948 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں قرآن سے رہنمائی لے کر مملکت کا نظام چلانے کی پالیسی بیان کی اور یہ تقریر آج بھی اپنے الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے۔ قائد اعظم نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ پاکستان میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔مختصر الفاظ میں نظریہ پاکستان اور قائد کے اقوال کے مطابق ایسی مملکت تھی جس میں آزادی اور پابندی کی حدود قرآن کی رو سے معین ہوں گی۔جس میں کوئی قانون قرآن کے منافی نہ ہو اور نہ ہی مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری ہوگی اور نہ ہی تھیا کریسی۔مملکت کا جمہوری اور معاشی نظام سچے اسلامی اصولوں اور اسوہء حسنہ ؐ کے مطابق ہوگا۔ قوم کے جس تصور کی تشریح سر سید ، اقبال، چوہدری رحمت علی اور جناح نے کی اس کے مطابق قوم کی بنیاد خطہ زمین کی نسبت سے نہیں بلکہ مشترکہ نظریہ ء حیات کی بنیاد پر بنتی ہے۔ لہٰذا پاکستانی قوم کی اصطلاح بھی دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کے منافی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے اس کے شہری ہونے والے اس کے حقوق اور مراعات تو لے سکتے ہیں۔وہ پاکستان کے شہری تو ہیں لیکن تمام پاکستانی ایک قوم کے فرد نہیں۔اگر ہم آج تمام پاکستانیوں کو ایک قوم مان لیں تو نظریہ پاکستان خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نوجوان نسل کو فکر اقبال کی روشنی میں قومیت کی بنیاد اور مملکت خداد کے نظریہ سے آگاہ کیا جائے تاکہ ان عناصر کا سد باب کیا جاسکے جو حقائق اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔
 

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264657 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More