آزادی کی قیمت


مہوش کرن (اسلام آباد)
’’یہ بھی حسنِ اتفاق تھا کہ گاؤں کے سارے مرد اور لڑکے شہر سے عید کرنے کے لیے گاؤں آئے ہوئے تھے ورنہ میں سوچتی ہوں کہ اس دن کیا ہوتا۔ ہماری عزت، جان، مال محفوظ رہتی بھی یا نہیں۔ پورا خاندان مٹ جاتا تو آج تم لوگ بھی نہ ہوتے مگر زندگی موت کے فیصلے تو اس بزرگ و برتر کے ہاتھ میں ہیں۔ کوئی بڑے سے بڑا منکرِ خدا بھی اس دن جو ہوا وہ دیکھ لیتا تو اﷲ کی وحدانیت پر ایمان لے آتا۔
اس دن حسبِ معمول صبح صادق کے بعد سے ہم سب کا دن شروع ہو چکا تھا۔ مگر عجیب بات یہ لگی تھی کہ کوئی دودھ والا، سبزی والا، تیل والا اب تک نہ آیا تھا۔ جب کہ مسلمانوں کے گاؤں کے ساتھ قبرستان کے پار ہی ہندوؤں کا گاؤں تھا اور وہاں سے سب سویرے ہی سامان لے کر آتے تھے۔ مگر آج ایک عجیب سا سناٹا تھا۔ ماحول میں گرما گرمی تو کئی روز سے چل رہی تھی۔ جب سے تحریک نے زور پکڑا تھا، ہر طرف الگ وطن کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ہم سب میں بڑا جوش و خروش تھا لیکن ہندوؤں کے تیور بدلے بدلے سے لگ رہے تھے۔ ان کی عورتیں بھی سامان بیچنے بالکل نہیں آ رہی تھیں تو ہم سب مسلمان بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے۔ مگر اس روز ایک الگ ہی احساس ہو رہا تھا، جس پر خوف غالب آتا جا رہا تھا۔ سامان وغیرہ جو گھر میں موجود تھا، اس سے افطاری کی چیزیں پک جاتی لیکن حالات کی وجہ سے ہر کسی کا دل بے چین تھا۔

ظہر کی نماز پڑھنے سب مرد مسجد چلے گئے اور ہم سب عورتیں اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگیں، کہ اچانک سب ہی مرد واپس آ گئے اور اطلاع دی کہ ہم پر حملہ ہونے والا ہے۔ کسی نے مخبری کر دی تھی کہ سامنے والے گاؤں کے ہندو ہم مسلمانوں کے گاؤں پر حملہ کرنے والے ہیں۔ اسی لیے صبح سے کوئی اس طرف سامان بیچنے نہیں آیا تھا۔ یہ سب سن کر پہلے تو اوسان خطا ہوئے لیکن جلدی سے دعا کی اور اوسان کو قابو کر کے یہ طے کیا گیا کہ تمام عورتوں، بچیوں اور بچوں کو چھتوں پر لٹا دیا جائے اور مرد گاؤں سے باہر حفاظتی دیوار بنا کر کھڑے ہو جائیں۔ عورتوں اور بچوں نے اپنے اپنے گھریلو اوزار اٹھائے اور چھتوں پر لیٹ کر درود پاک اور ساری دعاؤں کی تسبیح شروع کر دی۔ مردوں کے پاس بھی ہتھیار تو کوئی تھے نہیں سو جس کے ہاتھ جو آیا اُس نے وہ اٹھایا اور اپنے دین کی سرفرازی اور عورتوں کی حرمت کو پامال ہونے سے بچانے کی خاطر کمر بستہ ہو کر کھڑے ہو گئے۔

وہ بھی عجیب منظر تھا۔ میں چھت کی منڈیر کی دراڑ سے جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہندو آگے بڑھتے نظر آ رہے تھے اور ادھر سے میرے غیور باپ، بھائی اور بیٹے نعرہ تکبیر بلند کر رہے تھے۔ جب قبرستان عبور کر کے مخالف بالکل مسلمانوں کے سامنے پہنچ گئے، تو اچانک تیز ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آندھی کی شکل اختیار کر لی۔ گاؤں کی آخری حدود پر ایک بہت پرانی کوٹھی تھی، اب یاد نہیں وہ کس کی تھی لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ وہاں کوئی رہتا نہ تھا اور بڑا سا تالا پڑا رہتا تھا۔ جب آندھی بے انتہا تیز ہوگئی تو اس کوٹھی کے در و دیوار زور زور سے ہلنے لگے، لگتا تھا سب کچھ اُکھڑ جائے گا۔ پھر میں نے سامنے سے تیز روشنی اٹھتی دیکھی غور کیا تو لگا بہت سارے لوگ سفید لباس میں ہیں اور ہمارے مردوں کے آگے صف بنا کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ پھر میں نے تو آنکھیں بند کر لیں لیکن بعد میں بھائی صاحب نے زندگی بھر یہ واقعہ دہرایا۔ ایسا لگا تھا کہ اس مکان سے سفید لباس میں ملبوس لوگ نکل نکل کر آ رہے ہیں۔ اس منظر کی ہیبت سے ہی بیشتر ہندو بھاگ کھڑے ہوئے اور کچھ کا تو خوف سے ہی دم نکل گیا، یعنی لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی۔ چونکہ لوگوں نے اپنی واضح حکمتِ عملی سے اﷲ تعالیٰ تک اپنی نیتوں کا اخلاص پہنچا دیا تھا شاید اسی لیے ایسی شاندار مدد نازل ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ نصر من اﷲ و فتحً قریب۔

جب آندھی تھمی تو پتا چلا میدان صاف ہو چکا ہے۔ ہم سب چھتوں سے اتر کر ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے ہتھیار اٹھانے کے لیے لپکے تو دیکھا کہ ایک لاش اس سبزی فروش کی بھی تھی جو روز نہایت مہذب انداز میں ہمیں سبزی بیچ کر جاتا تھا جبکہ اس روز وہ ہم سے لڑنے آیا تھا۔ ہمارے لیے جو اﷲ کی مدد اتری وہ ہجرت کے سفر سے لے کر منزل پر پہنچنے تک شامل رہی، لیکن راستے میں ہم نے کئی دلدوز چیخیں سنیں۔ بے شمار آنچل تار تار ہوتے دیکھے، معصوم گلے کٹتے دیکھے، کنوؤں اور تالابوں میں عصمت بچانے کی خاطر جانیں ضائع ہوتی دیکھیں، کتنا مال و متاع قربان ہوتے دیکھا۔ خود ہم بھی بس اﷲ کا نام، اپنی جان و عزت بچا لائے باقی سب تو ختم ہو گیا۔ لیکن یہی بہت تھا کہ جس کو اﷲ کافی ہو جائے اسے اور کیا چاہیے۔ اُس وقت ہر کسی کی اپنی آزمائشیں تھیں۔ وہ منظر اور آوازیں آج بھی چین سے سونے نہیں دیتیں، وہ سب بھولنے نہیں دیتیں۔

حیرت ہوتی ہے کہ کیسے صرف دو قومی نظریے کی بنیاد پر وہ سب شروع سے ساتھ رہنے کے باوجود ہمارے جان لیوا دشمن بن گئے تھے اور کیسے آج ہم اسی نظریے کو بھول کر ان دشمنوں سے دوستی کرنے کے جواز پیش کرتے رہتے ہیں۔ آج ہم صرف کرکٹ کے میدان میں ان کے خلاف جہاد کرتے ہیں، جبکہ کشمیر اور اپنے ملک کے خارجی و داخلی معاملات میں دخل اندازی اور دہشت گردی پر ہم ان سے صرف مذاکرات اور ٹیبل ٹاک کی بات کرتے ہیں۔ آج لوگ بے حس ہو کر روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزادی کی ناقدری کرتے ہیں۔ لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ اُس نازک وقت میں نظریہ اور آزادی کی کتنی بھاری قیمت ادا کی گئی تھی۔‘‘

وہ اپنی بات مکمل کر کے خاموش اپنی سوچوں میں گم ہو چکی تھیں لیکن میں سوچتی رہ گئی کہ کیا واقعی ہم اپنی اس آزادی کی قیمت چکا سکتے ہیں؟ کیا ہم اُس درجے کرب اور آزمائشوں سے گزرنے کا سوچ بھی سکتے ہیں؟ جواب مجھے معلوم تھا لیکن خود شناسی کے باوجود خود اعترافی کی ہمت نہ ہوئی۔ کیا اتنی ہمت آپ میں ہے؟

 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.