یہ داغ داغ اجالا

تحریر حنظلہ عابد

اسلامی جمہوریہ پاکستان وہ مقدس دھرتی ہے جسے رمضان کی مقدس راتوں میں انسان کے مقدس خون سے غسل کرا کے آزاد کرایا گیا۔۔
اس سر زمین کی تاریخ آزادی کا حرف حرف لہو لہو ، ورق ورق اشک بار ہے۔۔
الفاظ کے دامن میں اتنی وسعت کہاں کہ ان دلخراش مناظر کو بیان کرسکیں۔۔ اس پاک خطے کی آزدی کی داستان کو لکھتے ہوئے مؤرخ کا قلم ہمیشہ نا انصافی کرے گا۔مؤرخ بے چارہ الفاظ کا سہارا لے کر" بکھری ہوئی لاشیں لکھ دے گا مگر ہر لاش کی پھٹی آنکھوں میں تو آزاد سر زمین میں جینے کے الگ الگ خواب تھے جو آنکھوں میں ہی چکنا چور ہو گئے ، ہر دل میں امنگیں تھیں جو زبان تک آنے سے پہلے ہی دم توڑ گئیں ، ان لاکھوں ادھورے خوابوں کا ذکر کئے بغیر مؤرخ صرف "بکھری لاشیں" لکھ دینے سے کیسے دستبردار ہو پائے گا۔۔ رشتے جو ٹوٹے ، عصمتیں جو لٹیں ، معصوم کلیاں جو مرجھائیں یہ سارے دکھ ایک قلم کیسے بے جان صفحے پر اتار سکتا ہے ؟؟؟
مگر بہرحال المیہ یہ ہے کہ جس گلشن کی آبیاری اتنے مقدس خون سے کی گئی وہ آج اتنا اجڑا ہوا کیوں ہے ؟؟
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر کیوں نہیں ہے۔۔

میں نے دیکھی ہیں ہر اک پھول کی آنکھیں پر نم
کیسے کہ دوں میں کہ گلشن میں بہار آئی ہے

اس گلشن کا اجڑا پن دیکھنا ہو ہو تو آئیے اس کا آج جشن آزادی دیکھئے کہ اسلام کے نام پر آزاد کرائے گئے ملک کی جشن آزادی کیسے غیر اسلامی طریقوں سے منائی جاتی ہے۔۔
دیکھئے آج جشن آزادی کے دن ملک دو حصوں میں بٹا نظر آتا ہے۔ ایک طرف ملک کا امیر طبقہ آزادی کا جشن منا رہا ہے تو دوسری طرف ملک کا غریب طبقہ اپنی غربت و بے چارگی کا سوگ منا رہا ہے۔۔
ایک طرف سربفلک بے جان عمارتوں کو پرچم کا لباس پہنا کر دلہن کی طرح آراستہ کیا جارہا ہے جبکہ انہی عمارتوں کے بیچ اندھیری گلیوں میں ایک جھونپڑی میں بیٹھی ماں اپنی بیٹی کی قمیص پر ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا پیوند پر پیوند لگارہی ہے۔۔
ایک رخ تو یہ ہے کہ اقبال کے" شاہین نوجوان" شاہراہوں پر بے ہنگم ہجوم لگائے ہارن ، سائرن ، باجوں اور پٹاخوں سے ملک کی آزاد فضاؤں کا تقدس پامال کر تے ہوئے آسمان سر پر اٹھا ئے ہوے ہیں جبکہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے کہ ایک گھر میں ایک بے چین ماں رات کے آخری پہر چارپائی پر بیٹھی دروازے کو تک رہی ہے کہ میرا بیٹا کب آزادی کا جشن منا کر لوٹے گا تو میں پر سکون نیند سو پاؤں گی اور ہسپتال کے بیڈ پر پڑے مریض باہر کے شور شرابے سے بچنے کیلئے اپنی انگلیاں کانوں میں دئے ہیں اور پھر تھک ہار کر ہاتھ نیچے کر کے دل ہی دل میں نم آنکھوں سے اپنے رب سے اپنی قوم کی بے حسی کی شکایت کر تے ہیں۔۔۔
ایک طرف امیر باپ کی اکلوتی اولاد وطن عزیز کے پرچم کو پیروں تلے روندتی ہوئی موسیقی کے سروں اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتی نظر آتی ہے تو دوسری طرف غریب کا بچہ آنکھوں میں دل چیر دینے والی بے بسی لئے ، چند جھنڈیاں ہاتھ میں تھامے انہیں بیچنا چاہتا ہے کہ جلدی سے چند روپے ملیں تو گھر میں بیٹھی اپنی بھوکی بہن کیلئے روٹی لے جاؤں۔۔
یہ دو رخی جشن آزادی چیخ چیخ کر پوچھتی ہے کہ بتائیے کیا اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ؟؟؟ ہم ایک ہیں ؟؟؟
کہاں ہیں اقبال کے وہ شاہین صفت نوجوان جو ستاروں پر کمند ڈالنے کا ہنر جانتے ہوں ؟؟ کہاں ہے محمد علی جناح کی وہ قوم جس نے تمام اسلامی ممالک کی سربراہی کا تاج اپنے سر پر سجانا تھا۔۔۔
آج ہمارے سامنے ملک کا جو نقشہ ہے یہ اگر تحریک آزادی کے رہنماؤں کے ذہن میں ہوتا تو شاید ان کے ہاتھ پاؤں سست ہو جاتے ،جوش وخروش سب ماند پڑ جاتا اور وہ کبھی اتنی بڑی قربانی کیلئے آمادہ نہ ہوتے۔۔۔
اور یہ ساری آگ اپنے ہی گھر کے چراغ سے ہی تو لگی ہے کیونکہ ہمارے اسلاف نے جو قربانیوں کے پہاڑ کھڑے کئے ان کو باہر کی کوئی طاقت رائیگاں کر ہی نہیں سکتی بلکہ ہمارے اپنے ہی کرتوت ہمارے لئے وبال جان بنے ہوئے ہیں۔
ہم کیسے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی ملک کا حلیہ بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں جیسے یہ ملک کسی دشمن کے ہاتھ لگ گیا ہو اور وہ اچھی طرح اس سے انتقام لینا چاہتا ہو۔۔ کسی بھی شعبے میں جاکر انصاف کی آنکھ سے آپ دیکھ لیجئے کہ جو جس شاخ پر بیٹھا ہے اسی کو
کاٹنے میں مصروف ہے،ایک ایسی انسانی پستی جسے بیان کرنے سے بھی شرمندگی محسوس ہو اور ایسی انسانی گراوٹ کہ ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھنے کے بجائے ایک شکار سمجھا جاتا ہو ،ہر قیمتی انسان سے ایک موذی جانور جیسا سلوک کیا جاتا ہو ، ایسا لگتا ہے کہ سارا ملک ایک منڈی اور جوا خانہ ہو جہاں ایک کی جیت ہزاروں کی ہار ہو۔۔
مگر اس سب کے باوجود اقبال کا ایک شعر اندھیری رات میں امید کی کرن ثابت ہوتا ہے ،

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے۔۔۔۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔۔۔۔

اس قوم کے دلوں میں دبی چنگاری پر سے راکھ ہٹانے کی دیر ہی تو ہے اور پھر یہ چڑیوں کی طرح دانے پہ گرنے والے ، آسمان کی فضاؤں میں بلند پرواز رکھنے والے عقاب بن جائیں گے۔ آج وقت کی سب سے بڑی پکار یہی ہے کہ اس خواب خرگوش کے مزے لوٹنے والی قوم کو جگایاجائے اور اس کا شعور کو بیدار کیا جائے تاکہ اس ملک میں ایسا مثالی دور آئے جس میں تمام اعلی انسانی اقدار کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو ، ہر فرد ملت کا ستارہ اور اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہو کہ لوگ دور دور سے دیکھنے آئیں کہ قربانیوں سے سینچا ہوا درخت کیسے برگ وبار لاتا ہے۔۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ اس قوم کو خودغرضی ،ظلم ، بے ایمانی اور خیانت سے روکنے کیلئے ان کے دلوں میں سب سے پہلے خدا کا خوف اجاگر کیا جائے کہ آج کوئی نگران ہے جو کل میرا گریبان پکڑ کر میری تمام سرگرمیوں کا حساب لے گا۔اصلاح کیلئے اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ،یہی وہ طاقت ہے جو چوروں کو پاسباں بناتی ہے۔ اس کے بعد دوسرا احساس حب الوطنی کا ہے جس جذبے پہ آج کا سارا مغرب قائم ہے۔۔
یہ دونوں جذبے اگر کسی قوم میں ناپید ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت ،کوئی فلسفہ ، اعلی سے اعلی تعلیم ،تعمیری منصوبے اور مادی ترقیاں اس ملک کی ناؤ کو ڈوبنے سے نہیں روک سکتیں۔۔
خدارا اس قوم کا رخ درست سمت کیا جائے کہ یہ ملک مزید خساروں کا اب متحمل نہیں ہے۔
تلخ نوائی مری چمن میں گوارا کر۔۔۔۔
کہ زہر بھی کبھی دیتا ہے کار تریاقی۔۔۔۔

 

Sohail Azmi
About the Author: Sohail Azmi Read More Articles by Sohail Azmi: 183 Articles with 157540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.