دولت اسلامیہ کی جانب سے شام اور پھر عراق میں خود ساختہ
خلافت کے اعلان کے بعد ان کے لیے ہمدردوں کا رخ یورپ کے ساتھ بڑھتا ہوا
افغانستان اور پھر پاکستان تک بھی آ پہنچا ۔ کچھ عرصہ قبل داعش (دولت
اسلامیہ) کی جانب سے پاکستانی علاقوں میں پمفلٹ، بینرز اور اسٹیکر کی تقسیم
کی اطلاعات کے بعد بھی پاکستان میں اس بات کا سراغ نہیں لگایا جاسکا کہ
دولت اسلامیہ کے لیے کون سا مقامی نیٹ ورک فعال ہوا تھا۔پاکستان میں کالعدم
تحریک طالبان کے خلاف متواتر عسکری آپریشنز اور خود تحریک میں دھڑے بندیوں
کے سبب ایک وسیع میدان داعش کے لیے خالی پڑا ہے، اسی طرح افغانستان میں
امریکا اور نیٹو کے انخلا کے بعد افغانستان کی جہادی تنظیموں کی جانب سے
آہستہ آہستہ سابقہ علاقے واپس لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کنڑ اور نورستان
کے علاقے پاکستانی طالبان کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، جس کی
مبینہ طور پس پردہ سرپرستی افغان حکومت کی جانب سے کی جا تی رہی۔خدشہ اسی
بات کا ہے کہ داعش ان علاقوں میں اپنے لیے ہمدردوں کا وسیع ٹولہ بنانے میں
کامیاب ہوسکتی ہے۔ حساس اداروں کی جانب سے یہ رپورٹ سامنے آچکی تھی کہ داعش
کے اہم اراکین اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں اور
ان کے ساتھ سیکڑوں کی تعداد میں ہمدردوں کی پہلے ہی کثیر تعداد پاکستان میں
موجود ہیں، جس کا عملی مظاہرہ، جہاں افغان مہاجرین کے کیمپوں میں داعش کے
تحریری دعوت نامے کی تقسیم، تو کراچی کے مختلف علاقوں میں مبینہ وال چاکنگ
کی صورت میں سامنے آیا تھا، جب دیواروں پر ISIS کی چاکنگ کی گئی تھی، جس سے
شہریوں میں مزید سراسیمگی پھیل گئی۔
دیکھنا یہ ہے کہ آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ داعش کو اپنے ہمدردوں کی تعداد
میں اضافے کے لیے پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا۔ داعش میں نوجوانوں کے
شمولیت کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی ریاست ایک خیالی سیاسی
دنیا کا تصور پیش کرتی ہے، جس میں حکمرانوں کو رومانوی شخصیت بنا کر پیش
کیا جاتا ہے۔ دوسری اہم وجہ یورپ، امریکا میں اسلام کے خلاف شدید مذہبی
منافرت اور مباحثے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد معاشرے کے
مرکزی دھارے سے الگ تھلگ کردی گئی ۔جس سے ان کی مذہبی منافرت کا بھیانک
تصور سامنے آتا ہے کہ انھیں اسلام اور خود ساختہ مذاہب میں بھی تمیز نہیں
رہی ہے، بلکہ وہ ظاہری وضع قطع سے ملتے جلتے معاملات پر ہی خود ساختہ مذہبی
انتہا پسندی کرتے نظر آتے ہیں، اسی طرح کینیڈا سمیت مغربی ممالک میں
مسلمانوں پر جینا دشوار کردیا اور مذہبی آزادی پر شدید پابندیاں عائد کیے
جانے اور مختلف متشدد گروپوں کی جانب سے دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں کے
سبب اوپن ڈے بھی منایا جاتا رہا، جس میں مسجد میں داخلے کے لیے تمام مذہب
سے تعلق رکھنے والوں کے لیے دروازے کھولے گئے تاکہ وہ نزدیک سے اسلامی
عبادات کو دیکھیں اور اپنی غلط فہیماں دور کریں، اس سلسلے میں بعض مغربی
ممالک میں مسلمانوں میں شدید عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے، جس سے ان کی
گورنمنٹ کے لیے مذہبی رواداری قائم رکھنے میں ناکامی پر شدید تنقید کا
سامنا ہے۔
یورپ سے داعش میں شمولیت کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے جس میں بہت سے
مرد اور خواتین اجنبی ممالک میں جاکر وہاں کی تسخیر میں بھی بہت دلچسپی
رکھتے ہیں۔ اس کا موازنہ 75 سال قبل اسپین میں ہونے والی خانہ جنگی سے کیا
جاتا ہے کہ خواتین کسی نئی چیز کا حصہ بننا چاہتی ہیں، ملک و قوم کے ماں کی
حیثیت سے بھی اور جنگجوؤں کی بیویوں کی شکل میں بھی۔ جرمن صوبے نارتھ رائن
ویسٹ فیلیا میں تحفظ آئین کے ملکی ادارے کی علاقائی شاخ کے سربراہ برک ہارڈ
فرائیر کے مطابق صرف ایک جرمن صوبے سے شام کا سفر کرنیوالی خواتین کی تعداد
25 تھی، ان کے بقول یہ بہت کم عمر ہیں، مردوں سے کہیں زیادہ جوان۔ داعش میں
شمولیت اختیار کرنیوالوں میں ایک معقول تعداد ایسے تارکین وطن کی بھی
ہے۔جنھیں اپنی شناخت اور اپنی ذات سے متعلق عدم واقفیت ہے، جس کی وجہ سے وہ
تلاش کی اس مہم جوئی میں شامل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ معاشرے یا نظام کے
خلاف احتجاج اور خود کو اپنے خاندان سے الگ تھلگ کردینے میں خواتیں کا اہم
کردار ادا ہوتا ہے، ان وجوہات میں یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ مستقبل میں
خود شہید کی حیثیت سے شجاعت و بہادری کی علامت کا جذبہ بھی ان میں کارفرما
نظر آتا ہے۔ داعش کی افغانستان میں موجودگی نے بھی عالمی برادری میں تشویش
کو بڑھا دیا ہے۔جب کابل یونیورسٹی میں داعش کی چاکنگ ہوئی اور طالب علموں
کی کثیر تعداد کو گرفتار کرلیا گیا، مقامی طالبان کمانڈروں کی داعش میں
شمولیت کی ایک بڑی وجہ دولت کی فراوانی بھی بتائی جاتی ہے جس میں شام و
عراق کے مفتوحہ علاقوں سے نوادرات اور بلیک مارکیٹ میں تیل کی فروخت کے
ساتھ اغوا برائے تاوان کے ذریعے بڑی رقومات کا حصول ہے، جس کی وجہ سے پاک،
افغان گروپس میں داعش کے لیے بڑی کشش پیدا ہوئی ہے کیونکہ انھیں اپنے بے
تحاشا اخراجات پورے کرنے کے لیے فنڈنگ کی دشواریاں کم ہونے کی سہولت حاصل
ہوجائے گی۔
پاکستان میں 21 ایسے افراد کی نگرانی کی گئی تھی جو مقامی طور پر داعش کی
تنظیمی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کی کسی کوشش میں ملوث ہوسکتیتھے، پاکستان
میں بڑی شدومد کے ساتھ فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں کے لیے راہ ہموار کی جارہی
ہے، جس کے سبب فرقہ وارانہ خیالات کے حامل انتہاپسندوں کو داعش کی صورت میں
اپنے خوابوں کی تکمیل کا ذریعہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ منفی جذبات
ابھارنے کے لیے پاکستان کے ان ہی علاقوں کو ایک بار پھر کسی بین الاقوامی
ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جب امریکا نے روس کے
خلاف اور پھر امریکا کے خلاف طالبان کی صورت میں استعمال ہوئے۔وہاں آپریشن
کے بعد بڑی تعداد میں نقل مکانی اور اس بات کو ہوا دینے کی مسلسل کوشش کی
گئی کہ فوجی آپریشن کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، یہ ضرور ہے کہ مختلف آپریشن
کے نتیجے میں آئی ڈی پیز کی مزید بڑی تعداد پشاور اور گردو نواح منتقل ہوئی
اور فوج کا آپریشن جاری رہا۔ داعش میں شمولیت کے لیے غلط فہمیوں کی ماضی کی
فضا دوبارہ سازگار بنانے کے لیے اس قسم کے پروپیگنڈے خطرناک ثابت ہوسکتے
ہیں اور مستقبل میں ان علاقوں میں احساس محرومی کے نام پر کسی بھی مسلح
گروپ کو دوبارہ قدم جمانے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اب یہ
ارباب اختیار کی پالسیوں پر منتج ہے کہ وہ کس طرح مستقبل میں داعش کی
سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرتی ہے۔ کیا وہ ماضی کی طرح کسی ’خاص
مقاصد‘ کے لیے ان علاقوں میں کسی نئی مہم جوئی کے حق میں ہیں یا پھر قلع
قمع چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان کے پالیسی سازوں پر منحصر ہے۔
افغانستان میں تبدیل ہوتے حالات میں ایسے عسکریت پسندوں کو راہ ل سکتی ہے
جو دولت و طاقت کے لئے سخت گیر انتہا پسندوں تنظیموں میں شامل ہوسکتے ہیں ،
اسی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ مختلف جنگجوؤں تنظیموں کو مخصوص مفادات
کے لئے اکھٹا و اسلحہ دیاجارہا ہے ،، ان حالات میں پاکستان خطرات کی زد میں
آتا ہے جہاں مذہب کے نام پر ناپختہ اذہان کو استعمال کرنے کا رجحان عمومی
رہا ہے ، داعش ( خراساں شاخ) اور آئی ایس الباکستان کی تنظیم نو پاکستان
اور افغانستان میں پر تشدد کاروائیوں کے لئے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا
ہے ، افغان۔ پاک اور ایران بارڈر سسٹم کی ضرورت ناگزیز ہوجاتی ہے کہ ایسے
عناصر کو کسی بھی طرح ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے پر مذموم سازشیں کرنے سے
روکا جاسکے ۔ مستقبل میں افغانستان کا جو بھی نقشہ ہوگا لیکن اس میں شدت
پسند تنظیمیں بالخصوص داعش ( خراساں شاخ) اور آئی ایس الباکستان اور انتہا
پسند تنظیموں کا اتحاد مملکت میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی اُس لہر کو
واپس لا سکتا ہے ، جس کا سامنا پاکستان کرچکا ہے اور اب بھی سیکورٹی فورسز
کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ افغانستان میں امن کے قیام تک پاکستان کی سرحدیں
اور داخلی چابک دستی بڑے سانحات کو روکنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ پڑوسی
ملک میں کسی بھی گروہ کی حکومت قائم ہو یا موجودہ سیٹ اپ چلتا رہے ،
پاکستان شدت پسندوں کے لسٹ پر سرفہرست رہے گا ، جس کا مقابلہ سب کو یکجا
ہوکر کرنا ہوگا ۔
|