حکومت کو ـ’گوجرانوالا یونیورسٹی ‘مبارک

ہماری عوام بھی عجیب ہے حکومت کو کوئی کام کرنے ہی نہیں دیتی۔حکومت آپ کی ہے اور آپ کا بھلا چاہتی ہے اس بات کا سارے وزراچیخ چیخ کر عوام کو یقین دلا رہے ہیں اوریہ بات ساری عوام کو پہلے بھی معلوم ہے مگر کوئی سننے کو تیار ہی نہیں۔ہمیں جلسوں کا شوق ہے ، ہمیں جلوسوں کا شوق ہے۔ ہم لیڈروں کی قوم ہیں،گو یہ شوق بھی ہمیں حکومت ہی کی دین ہے ، حکومت ہی کا بنیادی فن ہے، بنیادی وصف ہے اور سکھانے والے کا کچھ تو احترام لازم ہے۔ جن پتھروں کو کوئی زبان دے ان پتھروں کو اسی پر برسنا تو اچھا عمل نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے دشمن آپ ہیں۔ ہمارے عوام کو عوام دشمنی کی عادت ہو گئی ہے۔اپنے مفاد کے کام میں بھی ہم روڑے اٹکانے سے باز نہیں رہ سکتے۔بے چاری حکومت کیا کرے۔ منصوبے دنوں میں نہیں بنتے۔ بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔ سوچ دو نمبر ہو تو دو نمبر منصوبہ قدرے کم وقت لیتا لیکن نئی تخلیق تو بہر حال بہت وقت لیتی ہے۔لیکن جب وقت کم ہو تو شارت کٹ نہ چاہتے ہوئے بھی لازمی وجود میں آ جاتی ہے۔ حکمرانوں نے پچاس لاکھ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا۔لیکن اس وعدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ عوام ہیں۔عوام چاہتے ہی نہیں کہ کسی کو نوکری ملے۔

حکومت چاہتی ہے کہ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنائی جائے اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہو چکی اور بہت سے ضلعوں میں یونیورسٹیاں وجود میں آ چکی ہیں۔ ان یونیورسٹیوں نے روزگار کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ وہ پی ایچ ڈی حضرات جو غیر ممالک سے ڈگری لے کر آتے ہیں ، وہاں ان کی پی ایچ ڈی کی حقیقت سب کو پتہ ہوتی ہے اس لئے انہیں کوئی نوکری نہیں دیتا، بہت سے ان یونیورسٹیوں سے ڈگری یافتہ ہوتے ہیں جن کا کیمپس فقط ایک کمرے پر مشتمل ہوتا ہے اور وہ تجربہ کی بنیاد پر پانچ سو یا ہزار ڈالر میں ڈگری بخش دیتے ہیں۔وہ حضرات جو صحیح معنی میں ذہین ہوتے ہیں انہیں غیر ممالک کے دفاعی ادارے فوراً قابو کرتے ہیں، پھر وہاں کی یونیورسٹیاں ان کی خدمات حاصل کرتی ہیں تیسرے نمبر پر وہاں کی انڈسٹری میں وہ جگہ بنا لیتے ہیں باقی جو بچ جاتے ہیں وہ مایوسی میں اپنے وطن آتے اور حکومت کی طرف بڑی امید سے دیکھتے ہیں۔ حکومت انہیں مایوس نہیں کرتی ۔ پڑھانے کا فن انہیں آتا نہیں۔ باتیں بنانا اور رعب ڈالنا ، ان دونوں فنون میں یہ ماسٹر ہوتے ہیں ۔ چنانچہ حکومت انہیں خوش آمدید کہتی اورکسی نئی نویلی یونیورسٹی کا وائس چانسلر یا رجسٹرار مقرر کرکے اس کے روزگار کا بندوبست کر دیتی ہے۔پھر صرف یہ دو نوکریاں ہی نہیں ، عملے کے لئے بھی بہت سارے لوگ بھرتی کئے جاتے ہیں یوں بہت سوں کا بھلا ہو جاتا ہے۔ ویسے یہ بچے ہوئے پی ایچ ڈی حضرات اصل میں بچے ہوئے کوڑے کرکٹ کی طرح ہی ہوتے ہیں ۔ لیکن ہماری آنکھوں کا تارہ قرار پاتے ہیں۔ ہمارے لوکل پی ایچ ڈی شاید ان سے بہت بہتر ہوتے ہیں مگر ہمارے کالے انگریز حکمران غیر ملکی ہر چیز کو پوجتے اور اسے بہتر قرار دیتے ہیں۔ ویسے سچ یہی ہے کہ آج کل ہونے والی زیادہ تر پی ایچ ڈی یا تو جعلی ہوتی ہے یا جعلسازی سے ہوتی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں جو یونیورسٹیاں وجود میں آئی ہیں ان میں ہر چیز ہے سوائے اچھے اساتذہ کے اورمعقول تعداد میں طلبا کے۔ مگر ٹھیک ہے سیاسی فیصلوں کے اس سے بہتر نتائج ہو ہی نہیں سکتے، حکومت کیا کرے۔

حال ہی میں حکومت نے گوجرانوالہ میں یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے،بڑا مستحسن فیصلہ ہے۔ پریشانی یہی تھی کہ اس کے لئے اچھے اساتذہ، بہتر اور تجربہ کار عملے کے لوگ کہاں سے آئیں گے۔ یونیورسٹی کی کسمپرسی دیکھ کر طالب علم کہاں سے آئیں گے۔ حکومت نے ایک خوبصورت شارٹ کٹ لگانے کا فیصلہ کیا اور گوجرانوالا میں موجود پنجاب یونیورسٹی کے موجود کیمپس کو گوجرانوالا یونیورسٹی کا نام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ بھی خوب ہیں وہ یہ فیصلہ ماننے کو تیار ہی نہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے ملازمین بھی اس فیصلے کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور یہاں کے طالبعلم بھی خوش نہیں۔وہ کہتے ہیں محنت ہماری ہے ہم نے ایک طویل جدوجہد سے اس کیمپس کا نام بنایا ہے جس کے

نتیجے میں اس کی ڈگری کی عالمی سطح پر پہچان ہے۔ویسے بھی گوجرانوالا کے عوام ایک نئی یونیورسٹی چاہتے ہیں۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ اس نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر ڈٹ جائے۔ عوام کی بات وہاں سنی جاتی ہے جہاں جمہوریت ہو، جہاں مہذب عوامی نمائندے ہوں ۔ جہاں حکومت کی سوچ مثبت ہو۔ وہ ملک جہاں عوام اپنے ذاتی فیصلے بھی سوچ سمجھ کر نہیں کرتے، حکومت کیوں سوچے۔ حکومت تو انہی کی نمائندہ حکومت ہے۔ سکھا شاہی میں فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ؂

حکومت کو آئے تین سال ہو چکے فقط دو سال باقی ہیں اور ساری کارکردگی انہی دو سالوں میں دکھانی ہے۔ حکومت کو کسی احتجاج کی پرواہ بھی نہیں ہونی چائیے۔ حکومتی فیصلہ ایک بڑی اتھارٹی کا فیصلہ ہے، جس کے مقابلے پر ان کیڑے مکوڑوں ،جن کو عرف عام میں عوام کہتے ہیں، کے کسی احتجاج کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ الیکشن میں ابھی دو سال ہیں۔ ان دو سالوں میں یہ کیڑے مکوڑے ان پر جو بھی بیتے گی بھول جائیں گے اور ایک بار دوبارہ ڈھول کی تھاپ پرحکومتی لیڈروں کے لیے رقصاں ہوں گے، اس لئے میری حکومت سے درخواست سے کہ جو کرنا ہے دلیری سے کرے۔ اس عوام نامی مخلوق کو ابھی شعور آنے میں ، عقل وفہم آنے میں، غیرت اور حمیت آنے میں کافی دیر ہے اس لئے حکومت کے لئے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہے۔ امید ہے حکومت حسب سابق ہر احتجاج کی پرواہ کئے بغیر اپنی جو تھوڑی بہت سوچ ہے ، کے مطابق ، عوام کی پرواہ کئے بغیر عوام کے نام پر اپنی کارکردگی بہتر کرے گی۔ پچاس لاکھ نہ سہی پچاس نوکریاں تو دے گی ، بہت ساری صورتوں میں لنگوٹی پر ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔حکومت اپنے اقدامات پر اندھا دھند عمل کرتی رہے اور قدم بڑھائے کم از کم میں اس کے ساتھ ہوں۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 21 Articles with 24082 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.