ماہِ اگست میں ہندوستان کے اندر دو قومی تہوار منائے جاتے
ہیں ۔ ان میں ایک تو یوم آزادی ہے جو پندرہ اگست کو منایا جاتا ہے۔ وزیر
اعظم اس دن لال قلعہ کی فصیل سے قوم کی رہنمائی فرماتے ہیں ۔ پہلے کسی
زمانے میں اس موقع پر ملک کی عوام کو گزشتہ سال کی سرکاری کامیابیوں سے
آگاہ کیا جاتا اور آئندہ کے منصوبوں سے واقف کرایا جاتا تھا لیکن اب یہ
تقریب ایک انتخابی مہم میں بدل چکی ہے ۔ اس لیے کہ موجودہ وزیر اعظم سال
بھر انتخاب کے موڈ میں رہتے ہیں ۔ ان کا سوچنا سمجھنا اور اوڑھنا بچھونا سب
الیکشن تک محدود ہوگیا ہے ۔ ان کو عوام کے حقیقی مسائل اور ان کے حل میں
مطلق دلچسپی نہیں ہے اس لیے لال قلعہ کے خطاب میں ان کا ذکر نہیں آتا ۔
وہاں سے بھی بلند بانگ دعویٰ اور اوٹ پٹانگ وعدے کیے جاتے ہیں جن پر نہ
کوئی یقین کرتا ہے اور نہ انہیں یاد رکھا جاتا ہے۔ پندرہ اگست سے قبل ۹؍
اگست کو ممبئی کے اگست کرانتی میدان میں کانگریس کے ذریعہ اعلان کردہ سویل
نافرمانی کی تحریک کو یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر کانگریس پارٹی نے
انگریزوں سے ’ہندوستان چھوڑ دو ‘ کا مطالبہ کیا تھا۔ اس اعلان کو دراصل
آزادی کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ اگست کرانتی دن کی تقریب کا بھی ہر سال
سادگی سے سہی اہتمام ہوتا ہے۔
امسال اس موقع پر وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور نائب صدر تک نے اپنے بیانات
نشر کیے۔ صدر مملکت ازخود کچھ نہ بولتے اور نہ کرتے ہیں۔ اس مرتبہ ان کی
خاموشی یہی کہتی ہے کہ انہیں کچھ کہنے کے لیے نہیں کہا گیا خیر ان کا چپ
رہنابھی حکمت کی خاموشی ہے۔ امسال اگست کرانتی دن کے موقع پر وزیر اعظم نے
فرمایا : ’’ ان عظیم لوگوں کی خدمت میں خراجِ عقیدت جنہوں نے اس ’ہندوستان
چھوڑو تحریک میں حصہ لیا تھا جس نے انگریزی سامراج کے خلاف لڑائی کو مضبوط
کرنے میں اہم کردار ادا کیا ‘۔ اس طرح گویا وزیر اعظم نے اس کانگریس کو
خراج عقیدت پیش کردیا جس کو سنگھ پریوار ہندووں کو دشمن سمجھتا تھا اور جس
سے ملک کو پاک کرنے کی کوشش میں ان کی پارٹی دن رات منہمک رہتی ہے۔ انہوں
نے آگے کہا :’’مہاتما گاندھی کی ترغیب سے ’ہندوستان چھوڑوتحریک ‘ کی روح
سارے ملک میں پھیل گئی اور اس نے قوم کے نوجوانوں کو توانائی عطا کی‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے لیکن سنگھ کی شاکھا میں جانے والے نوجوان اس وقت بھی اس
توانائی سے محروم تھے اور آج بھی ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ 79؍
سال قبل بھی جس طرح وہ ہندو مسلمان کو آپس میں لڑا کر انگریزوں کی مد د
کررہے تھے اسی طرح آج بھی اسی حکمت عملی کو اپنا کر موجودہ سرکار کے ہاتھ
مضبوط کر رہے ہیں ۔ اس لیے یہ ماننا پڑے گا سنگھ کے پرچارکوں اور انگریزوں
کے نقش قدم پر چلنے والی موجودہ سرکار کے رویہ میں کوئی فرق نہیں آیا ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے پیغامات کو لوگ سنجیدگی سے نہیں لیتے کیونکہ ہر
موقع بے موقع پیغام دینا وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ۔ وزیر داخلہ امیت
شاہ نے بھی اس بار ایک پیغام دیا اس لیے کہ وہ وزیر اعظم کے نقشِ قدم پر
چلنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں ۔ ان کا یہ حال ہے کہ اگر وزیر اعظم
نادانستہ کسی کنوئیں گر جائیں تو وہ ان کے پیچھے ازخود کود کر نہانے کی
اداکاری کرنے لگیں گے۔
وزیر داخلہ نے یہ عظیم انکشاف کیا کہ : ’’1942میں اس دن مہاتما گاندھی نے
’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک کا آغاز کرتے ہوئے کرو یا مرو کا نعرہ لگایا‘‘۔ یہ
بات سنگھ پریوار کے نیکر والوں کے سوا ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے اس لیے وزیر
داخلہ نے انہیں بھی اس حقیقت سے آگاہ کردیا۔ اس کےبعد شاہ جی نے لکھا
کہ’’وہ صرف برطانوی حکومت کی سفاکی کے خلاف ایک تحریک ہی نہیں بلکہ آزادی
کی تحریک بھی تھی‘‘۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے این آر سی کے خلاف چلائی جانے
والی ملک گیر تحریک نہ صرف مودی حکومت کے جبر استبداد کے خلاف کوئی احتجاج
تھا بلکہ ایک تحریک آزادی تھی ۔ اسی لیے شاہ جی نے گھبرا کر دہلی فسادات
کے بہانے اس تحریک میں حصہ لینے والوں کو انگریزوں کی مانند پابند سلاسل
کردیا ۔ انگریزی سامراج اور موجودہ سرکار کے درمیان کمال مماثلت ہے۔ وزیر
داخلہ نے اپنے ٹویٹ میں اعتراف کیا کہ :’’اگست کرانتی کی تاریخ بے شمار
نامعلوم ہیروز کے دلیری کی داستانوں سے بھری پڑی ہے ۔ اس کے سبب آنے والی
نسلوں کو حوصلہ ملتا رہے گا ‘‘۔ اس انقلابی تحریک میں چونکہ سنگھ پریوار سے
منسلک کسی فرد کی کوئی داستان نہیں ہے اس لیے نیکر والے ان سے ترغیب حاصل
نہیں کرپاتے اور وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے بیانات بھی زبانی جمع خرچ سے
زیادہ کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔
اس موقع پر نائب صدر مملکت جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا :’’ ہندوستان
چھوڑو تحریک کے دن ہندوستان کے ان دلیر بیٹو بیٹیوں کی بے شمار قربانیوں کو
یاد کیا جائے کہ جونوآبادیاتی سامراج سے مادرِ وطن کو آزاد کرانے
کیجدوجہد میں شریک ہوئےتھے۔‘‘ سوئے اتفاق سے جن لوگوں نے عظیم مقاصد کے
حصول کی خاطر قربانیاں پیش کیں ان کے وارث گی الحال سیاسی حاشیے پر کھڑے
ہوکر عظیم قربانیوں کی رائیگانی کا نظارہ کررہے ہیں ۔ نائب صدر مملکت نے
اپنے ٹویٹ میں ان مقاصد کا ذکر اس طرح کیا کہ :’’ آئیے پھر ایک بار ملک سے
غربت ، جہالت، عدم مساوات ، بدعنوانی اور سماجی برائیاں مثلاً نسل پرستی،
فرقہ پرستی اور جنسی نابرابری کی بیخ کنی کے لیے اپنے ا ٓپ کو وقف کردیں
‘‘۔ نائب صدر کی جماعت فی الحال برسرِ اقتدار ہے۔ اس باوجود مہنگائی اور
بیروزگاری میں بے شمار اضافے کے سبب غربت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
کورونا وباء کے دوران ملک کے 80 کروڈ لوگ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے پانچ کلو
چاول یا گیہوں اور ایک کلو چنے کے محتاج ہوگئے ہیں۔
ایک زمانے میں نئے تعلیمی ادارے کھلاکرتے تھے اب بند ہونے کا سلسلہ شروع
ہوچکا ہے اس لیے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے ملازمت نہیں ہے۔ وزیر اعظم
عالمی فورم میں جاکر ان کو پکوڑے تلنے کا مشورہ عنایت فرما رہے ہیں ۔
نوجوان سوچتا ہے اگر یہی روزگار ہے تو یونیورسٹی میں تعلیم کے حصول پر وقت
، توانائی اور دولت کیوں خراب کی جائے؟ رافیل جیسے دفاعی سودے میں کھلے عام
بدعنوانی ہوتی ہے اور اس کو میڈیا اور عدلیہ کے ذریعہ دبا دیا جاتا ہے۔
وینکیا نائیڈو نے جس عدم مساوات کا ذکر کیا وہ معیشت کے میدان میں یہ
آسمان کو چھورہی ہے۔ امبانی اور اڈانی جیسے سرمایہ دار دن بہ دن امیر تر
ہوتے جارہے ہیں اور غریب عوام غربت کی کھائی میں دھنستے جارہے ہیں۔ جنسی
نابرابری اور ذات پات کا تفاخر بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس سے قبل اتر
پردیش سے آئے دن دلت لڑکیوں کی عصمت دری کے واقعات منظر عام پر آتے تھے
مگر اب تو یہ معاملہ دہلی تک پہنچ گیا ہے۔ یکطرفہ تماشا یہ ہے بے حس مرکزی
حکومت اس کے تئیں حکومت بالکل اندھی اور بہری بنی ہوئی ہے۔
’بہت ہوا ناری پر اتیاچار ، اب کی بار مودی سرکار ‘ کا نعرہ لگانے والوں کو
سانپ سونگھ گیا ہے۔ ان کا رویہ ایسا ہے گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ جہاں تک فرقہ
پرستی کا سوال ہے اس مرتبہ پارلیمانی اجلاس کے دوران عین ایوان کی ناک کے
نیچے جنتر منتر پر ہندوتوا کے حامیوں نے وہ دھینگا مشتی کی کہ اس نے سارے
مجاہدین آزادی کو شرمسار کردیا۔ کاش ایوان پارلیمان میں ہونے والے ہنگامہ
پر رات بھر جاگنے والے اور پھر بلک بلک کر رونے والے والے نائب صدر جنتر
منتر کے طوفان بد تمیزی پر بھی لب کشائی کرتے ۔ ویسے جس ہجومی تشدد کی
روایت کو گزشتہ چند سالوں میں پروان چڑھایا گیا ہے اس کا ایک معمولی نمونہ
اگر ایوان پارلیمان میں سامنے آجائے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ ملوکیت
میں جیسا راجہ ویسی پرجا ہواکرتی تھی مگر جمہوریت کے اندر معاملہ الٹ چکا
ہے ۔ اب تو جیسے عوام ویسا حکمراں ہوتا ہے۔پچھلے 7 سالوں میں عوام نے اپنے
جیسے گونگے بہرے نمائندوں کا انتخاب کیا جو ایوان پارلیمان میں جاکر نندی
بیل کی مانند سر ہلانے کے سوا کچھ نہیں کرتےہاں بوقت ِ ضرورت اپنے مخالفین
کو سینگ مار کر زخمی ضرور کردیتے ہیں۔ وہ گھاس کی مانند رشوت کھاتے ہیں اور
سانڈ کی طرح مست زندگی گزارتے ہیں۔ ان کا لیڈر بھی ان سے یہی چاہتا ہے اور
عوام کی تو ان سے کوئی توقع نہیں ہےاس طرح ملک میں ایک انتخابی آمریت قائم
ہوچکی ہے اور 75 سال میں قائم شدہ اقدار و روایات کو روند کر آزادی کے
تصور کو بے معنیٰ کردیا گیاہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|