ریا ست کی تشکیل کے کچھ مقاصد
ہوتے ہیں اور یہی مقاصد ریاست اور شہری کے حقوق و فرائض کا تعین کرتے ہیں ۔ریاست
اور افراد ایک آئین کے تحت زندگی گزارنے کے پابند ہوتے ہیں ۔ دیگر فرائض کے
علاوہ ریاست کا اولین فرض امن و امان کا قیام اور عوال کی جان و مال کا
تحفظ ہے اور اگر کوئی ریاست یہ ذمہ داری پوری نہیں کر سکتی تو اسے عوام سے
ٹیکس وصول کرنے اور اس پر حکومت کرنے کا کوئی اخلاقی حق اور اختیار نہیں ۔
وطنِ عزیز اس وقت ہمہ جہت زوال کا شکار ہے ۔ معاشی،معاشرتی، مذہبی اور
سیاسی الغرض ہر سمت اندھیرے ہی اندھیرے ہیں ۔مگر ان سب اندھیروں کی بنیادی
وجہ ملک میں امن و امان کا نہ ہونا ہے کیونکہ جب ملک میں امن ہی نہ ہو گا
تو معاشی ، معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں کا خاطر خواہ انعقاد ممکن نہیں ہو
گا ۔
روشنیوں کے شہر میں گزشتہ چند روز سے موت کا رقص جاری ہے ۔سو سے زائد افراد
اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ بے وجہ ، بے سبب سو خاندان اپنے پیاروں
سے محروم ہو گئے ۔ اگر ہم مجموعی طور پہ دیکھیں تو قبائلی علاقوں میں گذشتہ
چھ ماہ میں میں سولہ سو افراد مارے گئے اور کراچی میں اسی عرصہ کے دوران
بارہ سو افراد مارے گئے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں تو جنگ
جاری ہے مگر کراچی۔۔۔۔۔۔؟یہاں لاشیں کیوں گر رہی ہیں ؟ دہشت اور وحشت کا
راج کیوں ہے ؟ ریاست اور حکومت کا وجود کہاں ہے؟حکومت اور سیاسی جماعتیں
کراچی میں امن و امان کے قیام کے فرض کو بھول کر کرسی کی بندر بانٹ اور
اندر بانٹ میں مصروف ہیں ۔وہ اپنی پنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں چاہے اس
کے لئے انہیں لوگوں کی لاشوں پر ہی سے کیوں نہ گذرنا پڑے۔ہر قیمت پر حکومت
کا خواب عذاب بن چکا ہے۔
کتنا بدل گیا ہے تیرے شہرِ زر کا رنگ
کہ بچپن اداس اور دکھی ہیں جوانیاں
دیگر شہروں لاہور، اسلام آباد،کوئٹہ، پشاور،فیصل آباد، سرگودھا، میانوالی
اور ڈیرہ اسماعیل خاں کی صورتِ حال بھی تسلی بخش نہیں ۔حکومت کی رِٹ نامی
چڑیا کب کی اڑ چکی البتہ حکومت کی رَٹ شائد موجود ہے۔شہری پابند ، دہشت گرد
اور وحشت گرد مکمل آزاد اور سیاسی اہلکار یکسر آزاد۔یہ ملک مرضی پورہ کا
روپ دھار چکا ہے کوئی جب چاہے پٹرول ، چینی آٹے ،کھاد کا بحران پیدا کرکے
لوٹ مار کا بازار گرم کر سکتا ہے ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ایک دوکاندار سے
لیکر مل مالک تک، ایک کلرک سے لیکر آفیسر تک،ایک کونسلر سے لیکر صدر تک سب
اپنی اپنی مرضی کر رہے ہیں جو جتنا طاقتور ہے اس کی اتنی ہی بھینسیں ہیں ۔خود
ٹیکس دینا نہیں چاہتے اور عوام کا خون نچوڑنے پہ تلے ہوئے ہیں ۔انتظام و
انصرام کے ادارے اپنی حیثیت کھو بیٹھے ہیں ۔ہر سمت جنگل کا قانون ہے۔ یوں
لگتا ہے جیسے ہر شہر میں جنگل پھیل گیا ہے قانون کی حکمرانی خواب سے سراب
تک آ پہنچی ہے۔اور اس کی بنیادی وجہ موجودہ کرپٹ سیاسی نظام ہے جس کی وجہ
سے نا اہل لوگ زمامِ حکومت سنبھال لیتے ہیں ۔ یہاں ایک کلرک کے لیے تو ایف
اے پاس ہونا شرط ہے مگر ارکانِ اسمبلی کے لیے کو تعلیمی معیار ہی نہیں ۔
یعنی ان پڑہ اور جاہل قانون سازی کریں گے اور ساری انتظامیہ کو کنٹرول کریں
گے۔یہ قوم کے ساتھ ایک شدید و جدید مذاق ہے۔اور قوم بھی بڑی بھولی ہے ہزار
گالی بھی انہیں ہی دیتی ہے پھر ووٹ بھی اور نتیجہ © © © ©” ہور چوپو“ کی
صورت میں سامنے ہے۔
ملکی امن و امان کی صورت حال دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ اہلِ سیاست قومی کی
بجائے ذاتی مفادات کے علمبردار بنے ہوئے ہیں ۔جو کراچی میں بالخصوص اور
دیگر شہروں میں با العموم امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔وفاقی وزیرِ داخلہ اور
سابقہ صوبائی وزیر داخلہ سندھ فرماتے ہیں کہ ہمیں نقصِ امن پیدا کرنے والے
لوگوں کا پتہ ہے مگر سیاسی مجبوریاں اور مفاہمت کی سیاست کی وجہ سے ان پر
ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا ۔یہ مفاہمت کی انوکھی سیاست انوکھا انداز معلوم
نہیں کیا گل کھلائے گا؟ اگر موجودہ حالات بدستور رہے تو ہم ایک ایسی بند
گلی میں داخل ہو جائیں گے جس کی دوسرے جانب کوئی رستہ ہی نہیں !
لہذا ہمیں اس مسئلے کا جلد از جلد اور مستقل حل نکالنا ہو گا۔سب کو مل کر
سوچنا ہو گا۔کچھ تجاویز یہ ہیں کہ سب سے پہلے اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت
ڈال کر قومی مفادات کے لئے کام کرنا ہو گا ۔ کیونکہ ملک ہے تو ہم ہیں ۔ جس
دن سیاسی قیادت نے قومی مفادات کو ترجیح دینے کاعمل شروع کر دیا وہ دن اس
قوم کے مقدر کے بدلنے کا دن ہو گا۔ دوسرا ملک کو اسلحہ سے پاک کرنا ہو گا
۔ملک میں موجود بلا تفریق تمام اسلحہ لائسنس ممنوعہ اور غیر ممنوعہ سب کو
کینسل کیا جائے اور عوام کے جان و مال کی ذمہ داری حکومت خود اٹھائے۔تیسرا
شہروں کے سائز کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ہر شہر میں
زیادہ سے زیادہ مکانات کی حد مقرر کی جائے ۔اور مقررہ تعداد پوری ہونے پر
اس شہر میں مزید توسیع نہ کی جائے بلکہ ایک نیا شہر بسایا جائے۔ مزید یہ کہ
شہر کو چھوٹے چھوٹے یونٹس میں تقسیم کرکے لوکل آبادی کو اس کے انتظامی امور
میں شامل کیا جائے۔ چوتھا یہ کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہر سطح پر
سیاسی مداخلت بند کی جائے اور ان اداورں کے اہلکاروں کو جدید حالات کے
مطابق تربیت دی جائے۔ ان کے اخلاقی معیار کو بلند کیا جائے اور فرائض سے
غفلت برتنے اور اختیارات سے تجاوز کی صورت میں کڑی سزائیں دی جائیں
۔پانچواں یہ کہ مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کی لئے قانون سازی کی جائے اور
فیصلہ کے لئے وقت کی حد مقرر کی جائے۔ عدلیہ میں خالی اسامیاں جلد از جلد
پر کی جائیں ۔عدلیہ کے فیصلوں پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے اور
نظامِ عدل کو تماشہ بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اور آخر میں لسانیت اور
صوبائیت کو ختم کرنے کے لئے ملکی سطح پر مہم چلائی جائے اور نصابِ تعلیم
اور نظامِ تعلیم کو پورے ملک میں یکساں طور پر نافذ کیا جائے۔۔
اب ہمارے پاس شائد وقت بہت کم ہے دیر کی صورت میں اندھیر کے سوا کچھ نہیں
۔اور اگر خلوصِ نیت سے اہلِ سیاست اور قوم کمر بستہ ہو جائے تو ہم امن و
امان اور خوشحالی کی منزل کو یقینا پا لیں گے۔
اگر خلوص ہو ذوقِ حصولِ منزل میں
ہزار راہ میں پڑیں خار زار تو کچھ بھی نہیں |