بدقسمتی سے پاکستان کی تقریباً
تمام سیاسی جماعتیں جو جمہوریت کی دعویدار ہیں ان کی اپنی جماعتوں میں
انتخابات کاکوئی رواج نہیں ہے۔آج سے نہیں بلکہ جب سے پاکستان معرض وجود میں
آیاہے اس دن سے لے کر آج تک جتنی بھی سیاسی جماعتیں بنائی گئیں یاپہلے سے
موجود جماعتوں میں دھڑے بندی اورگروپ بازی کی گئی تو ان قائم ہونے والے نئے
گروپوں اوردھڑوں میں بھی اندرونی طور پر کبھی بھی انتخابات نہیں کروائے گئے
۔یعنی جمہوریت کی دعویدار جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت کاگلاگھونٹاگیا۔یہی
وجہ ہے کہ ایسی تمام جماعتوں کاتنظیمی ڈھانچہ کسی خاص فرد واحد یاخاندان کے
گرد ہی گھومتاہے۔مقامی سطح کے عہدیداران کاتقرر” سلیکشن “سے کیاجاتاہے جبکہ
مرکزی عہدیداران بھی ذاتی پسندوناپسند سے ہی مقرر کیے جاتے ہیں اورمرکزی
قائدین توبہرحال ہوتے ہی وہ ہیںجن کیلئے جماعت قائم کی جاتی ہے۔میرے علم کے
مطابق سوائے جماعت اسلامی کے کبھی بھی کسی سیاسی جماعت میںیونین کونسل سے
لے کر مرکز تک انتخابات کاطریقہ اختیارنہیں کیاگیا۔جب بھی کسی بھی جماعت کے
کسی راہنماکاجماعت کی مرکزی قیادت سے اختلاف ہوتاہے توماسوائے نیادھڑاوجود
میں آنے کے اورکوئی راستہ نہیں باقی رہتا۔کیونکہ یہ بات غیر اعلانیہ طور پر
طے شدہ ہوتی ہے کہ مرکزی قیادت توتبدیل ہوگی نہیں چنانچہ جماعت کے دوسرے
یاتیسرے درجے کے راہنماالگ نام سے نیادھڑاتشکیل دے دیتے ہیں جس میں وہ تمام
عناصر یک جاہوجاتے ہیں جو مرکزی قیادت سے اختلافات رکھتے ہوں۔اسی وجہ سے
تمام پارٹیوں میں بے شمار گروپ بنے ہوئے ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق
پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد سے زیادہ ہمارے ہاں سیاسی
پارٹیاں قائم ہیں۔عام انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کوکوئی نشست ملے یانہ
ملے ذرائع ابلاغ کی حد تک بہرحال ایسی کئی جماعتوں کاوجود موجود ہے
جوپاکستان میں جمہوریت کی دعویدار ہیںمگر ان کے اپنے ہاں جمہوریت نام کی
کوئی شئے دستیاب نہیں۔یہ قدر تما م سیاسی جماعتوں میں مشترک ہے ماسوائے
محدودے چند ایک کے ۔
حالیہ دنوں میںملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے
عہدیداران کاتقرر کیاگیاجس پر مرکز سے لے کر مقامی سطح تک ن لیگیوں کے
اختلافات کھل کرسامنے آئے ۔سب سے اہم اختلاف پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل
سرانجام خان کی طرف سے سامنے آیا۔جنہوںنے اپنے عہدے اوربنیادی رکنیت سے
مستعفی ہونے کااعلان کردیا۔بات صرف مستعفی ہونے تک محدود ہوتی توشاید گزارا
چل جاتامگر ان کی طرف سے ایسی بیان بازی سامنے آئی جوکسی بھی طور مستحسن
قرار نہیں دی جاسکتی ۔ساتھ ہی ساتھ دوسری لیگوں کے قائدین کی طرف سے
سرانجام خان کے ساتھ روابط کیے گئے اورانہیں اپنی اپنی لیگ میں شمولیت کی
دعوت دی گئی ۔اس سارے کھیل میں جہاں اوربھی کافی ساری باتیں نامعقول ہیں
وہاں سب سے بڑی خامی یہ محسوس کی جاسکتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں
اورسیاسی راہنماﺅں کے ہاں اصول یااخلاق نام کی کوئی شئے سرے سے دستیاب ہی
نہیں۔لیکن اس کے باوجود جب کبھی ایسی صورت حال سامنے آتی ہے توپریس کوجاری
کیاگیابیان یوں ہوتاہے کہ ”اصولی اختلاف پر فلاں سیاسی راہنمااپنے عہدے سے
مستعفی“۔حالانکہ نہ تواختلاف اصولی ہوتاہے اورنہ ہی مستعفی ہونے کے بعد کسی
اصول کومدنظر رکھاجاتاہے بلکہ صرف اورصرف ذاتی نوعیت کے مسائل کی وجہ سے
مستعفی ہونے والااپنے اس عمل کواصول کانام دے دیتاہے۔رواج کے مطابق سرانجام
خان نے بھی مستعفی ہونے کے بعد اپنی قیاد ت پر مختلف الزامات لگائے جن میں
ایک الزام یہ بھی شامل ہے کہ” نوازشریف نے عسکریت پسندوں کوتنظیمی عہدے دےے
“۔اس سے پتاچلتاہے کہ ہمارے ہاں اختلافات کی نوعیت چاہے کچھ بھی ہوان
کواچھالنے کیلئے کیسے کیسے طریقے اپنائے جاتے ہیں اورکس طرح کے الزامات
لگائے جاتے ہیں۔سرانجام خان کے اس الزام کوہی دیکھ لیجئے کہ انہوں نے اپنی
ہی قیادت پروہ الزام لگایاہے جس کااعادہ حکمران جماعت اورق لیگ کی طرف سے
کئی بار کیاگیا۔ایک دو روز قبل کے اخبارات اٹھاکردیکھ لیجئے ۔پی پی پی کے
راہنماﺅں اورق لیگ کی قیاد ت کی طرف سے بھی ن لیگ پر عسکریت پسندوں کے ساتھ
روابط ہونے ،ان کی حمایت کرنے ،ان کی ترجمانی کرنے جیسے الزامات عائد کیے
گئے ہیں۔یہی بات اب سرانجام خان نے بھی اپنے انداز میں کہہ دی ۔الزامات
لگانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے پارٹی پر اپنے احسانات بھی اجاگر کیے اوربڑے
دکھ بھرے الفاظ میں کہاکہ جب ن لیگ کانام لینابھی جرم تھا تواس وقت انہوںنے
پارٹی کیلئے خدمات سرانجام دی ہیں۔پارٹی کیلئے” سرانجام“ دی جانے والی
خدمات اور”سرانجام خان “کاانجام توبعد میں دیکھاجائے گامگر فی الحال اس بات
کاجائزہ لیتے ہیں کہ ان کے ن لیگ کی قیادت پر لگائے گئے الزامات کس حد تک
حقیقی ہیں۔اپنی سابقہ قیادت پر الزامات لگانے اورپارٹی کی بنیادی رکنیت سے
مستعفی ہونے کی جووجہ انہوں نے خود میڈیاکوبتائی ہے اس سے پتا چلتاہے کہ یہ
اختلافات کوئی خاص اہمیت نہیںرکھتے۔ کیونکہ الزامات لگانے مستعفی ہونے
اوراپنے اس فعل کی توجیہ پیش کرنے کاعمل ایک ہی سانس میںمکمل
کرلیاگیا۔انہوں نے کہاکہ وہ اس لئے مستعفی ہورہے ہیں کہ ان کے علاقہ مردان
میں مسلم لیگ ن کے عہدے ان کی مرضی کے بغیر دیے گئے ۔نوٹ کرنے کی بات یہ ہے
کہ اس ساری الزام تراشی اوراصولی اختلاف کاکھوکھلاپن اس بیان سے ظاہر ہے
جوانہوں نے الزامات کے ساتھ ہی جاری کیا۔سادہ سی بات ہے کہ ان کی مرضی کے
بغیر ان کے اپنے رہائشی علاقہ میں مسلم لیگ ن کے جوعہدیدار نامزد کیے گئے
وہ انہیں پسند نہیں۔اتنی سی بات پر انہوں نے اپنی جماعت کے نہ صرف مرکزی
عہدے سے مستعفی ہونے کافیصلہ کرلیابلکہ بنیادی رکنیت سے بھی استعفادے
دیا۔اورساتھ ہی ساتھ اپنی قیادت پر وہ الزام لگایاجو ان کی جماعت کی حریف
جماعتوں کے قائدین لگارہے ہیں۔اس سے بھی افسوس ناک بات وہ ہے جو انہوں نے
آگے بیان کی ۔انہوں نے کہاکہ اگر مردان میں ان کی مرضی کے لوگوں کوعہدے دیے
جائیں تووہ پارٹی میں واپس آنے کوتیارہیں۔محترم قارئین کرام !یہ ہے ہمارے
ملک کی سیاسی قیادت اوران کے اخلاقیات کالیول ۔بات ایک سرانجام خان کی نہیں
،بلکہ جب بھی کسی بھی سیاسی جماعت کاکوئی بھی رکن ،راہنمایاعہدیدار اپنی
قیادت سے اختلافات کی بناءپر اپنی جماعت سے مستعفی ہوتاہے تووہ اسی طرح کے
الزامات لگاتاہے ۔جن کی بنیاد اس کاکوئی کوئی اپناذاتی معاملہ ہوتاہے ۔سوال
یہ ہے کہ کیاکبھی کسی سیاسی راہنمانے ملکی ،قومی اوراجتماعی معاملات کے
متعلق اپنی قیادت کی غلط روش کی بناءپر اختلاف کیایااپنے عہدے سے مستعفی
ہوا؟کبھی نہیں ۔بلکہ شاید اس نوعیت کے اختلافات کومیڈیا کے سامنے لانے سے
بھی اجتناب کیاجاتاہے۔مگر جونہی اپنی ذات پر کوئی آنچ آتی ہے توفی الفور
اصولی اختلاف کانعرہ لگاکر اپنی پارٹی اورپارٹی قیادت کے خلاف الزام سازی
شروع کردی جاتی ہے اسے خوب بڑھاچڑھاکرمیڈیامیں اچھالاجاتاہے ۔ماضی قریب میں
پی پی پی سے اختلاف رکھنے والے سابق وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی کی بیان
بازی بھی کوئی پرانی بات نہیں۔جب سے ان کی جماعت نے انہیں وزیر خارجہ کے
عہدے سے ہٹایاہے قریشی صاحب اپنی ہی پارٹی قیادت کی کردارکشی کرنے میں
مصروف ہیں۔حالانکہ جب تک قریشی صاحب وزیر خارجہ رہے انہوں نے اپنی پارٹی
قیادت کے ہرحکم کے مطابق امریکی پالیسوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ موجودہ
حالات جن کاملک وقوم کوسامناکرناپڑرہاہے ا س میں کافی حد تک ان کی ”خدمات“
بھی شامل ہیں۔اس کاایک ثبوت یہ ہے کہ موصوف جس گدی کے جانشین ہیں اس کے
سالانہ عرس کے موقع پر بھی انہوںنے اپنے خطاب میںدینی مدارس کے خلاف زہر
اگلا۔کیونکہ اس عرس کی تقریبات میں امریکی بھی شامل تھے ۔اوراس وقت قریشی
صاحب وزیر خارجہ بھی تھے ۔سوچنے کی بات ہے کہ اب وہ اپنی قیادت پر امریکہ
کے ہرحکم کی بجاآوری کاالزام لگارہے ہیں جب کہ خود وزیر خارجہ رہنے تک یہ
روش وہ خود بھی اختیار کیے رہے۔اب کہاں گئے اصول اورکہاں گئی اخلاقیات۔ان
دومثالوں سے پتہ چلتاہے کہ ہمارے ملک میں کام کرنے والی سیاسی جماعتوں کے
قائدین اوردوسرے راہنماکہاں تک ملک وقوم سے مخلص ہیں ۔جب اپنی ذات کامعاملہ
درپیش ہوتوفی الفور مستعفی ہوجاتے ہیں اورالزامات لگاناشروع کردیتے ہیں
لیکن کبھی کسی نے قومی واجتماعی معاملات پر ایسارویہ نہیں اپنایا۔کیاان
لوگوں کے ہوتے ہوئے ہم سیاسی انقلاب اورملک میں رائج ظلم کے نظام میںتبدیلی
کی امید رکھ سکتے ہیں؟کیونکہ ان سیاسی جماعتوں جوکہ جمہوریت کی نام نہاد
دعویدار ہیں کے اپنے ہاں جمہوریت رائج نہیں،اسی لیے کسی بھی اختلافی صور ت
حال میں ان جماعتوں کے کارکنوں کیلئے کوئی موقع نہیں ہوتاکہ وہ اپنے اختلاف
کوظاہر کرسکیں ۔اس طرح جب کبھی ان کے ذاتی مفادات پر آنچ آتی ہے تووہ موقع
غنیمت جانتے ہوئے اگلے پچھلے تمام حسابات چکانے لگ جاتے ہیں۔اسی لیے اس
نوعیت کی بیان بازی کاعام آدمی کوئی اثر نہیں لیتا۔ماسوائے اس کے کہ حریف
جماعتوں کوپراپیگنڈہ کاموقع ہاتھ آجاتاہے ۔جمہوریت کی دعویدار جماعتوں کے
قائدین کواس بارے کچھ سوچناچاہئے کہ وہ اپنے ہاں بھی انتخابات کو رواج دیں
۔تاکہ حقیقی جمہوری کلچر کوفروغ ملے ۔ذاتی مفادات کے حصول اورالزام تراشی
کے کلچر کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ |