دَاستانِ شُعیب و اَصحابِ شُعیب !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالشعراء ، اٰیت 176 تا 191 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
کذب
اصحٰب الئیکة
المرسلین 176 اذ قال
قال لھم شعیب الا تتقون 177
انی لکم رسول امین 178 فاتقوااللہ
واطیعون 179 وما اسئلکم علیه من اجر ان
اجریَ الّا علٰی رب العٰلمین 180 اوفواالکیل ولا تکونوا
من المخسرین 181 وزنوابالقسطاس المستقیم 182 ولا تبخسوا
الناس اشیاءھم ولا تعثوافی الارض مفسدین 183 وتقواالذی خلقکم و
الجبلة الاولین 184 قالواانما انت من المسحرین 185 وماانت الّا بشر مثلنا
وان نظنک لمن الکٰذبین 186 فاسقط علینا کسفا من السماء ان کنت من الصٰدقین
187 قال ربی اعلم بما تعملون 188 فکذبوه فاخذ ھم عذاب یوم الظلة انه کان عذاب
یوم عظیم 189 ان فی ذٰلک لاٰیة وما کان اکثرھم مؤمنین 190 وان ربک لھوالعزیزالرحیم 191
بالاٰخر جب "ایکہ" کی بستی کے باسیوں نے بھی ایکا کرکے اللہ کے رسُولوں کو جُھٹلادیا تو شعیب نے اپنے قومی بھائی چارے میں شامل لوگوں سے کہا تُمہارے دل اگرچہ خوفِ خدا سے خالی ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی اگر تُم میری بات پر کان دھرو تو شاید تُم میری یہ بات سمجھ جاؤ کہ میں تُمہارے پاس خُدا کی طرف سے خُدا کا ایک نمائندہ بن کر آیا ہوں ، میں تُم تک خُدا کا جو خالص و خاص حُکم پُہنچاتا ہوں تو اُس حُکم میں اپنے مَن سے کوئی بات بھی نہیں ملاتا ہوں اور میں اپنے اِس کام کا تُم سے کوئی معاوضہ بھی نہیں چاہتا ہوں کیونکہ میرے اِس کام کا معاوضہ میرا وہی خدا مُجھے ہر روز دیتا ھے جو ہر روز اپنے سارے جہانوں کے سارے انسانوں کو روزی دیتا ھے اِس لیۓ تُم اپنے بُرے کام کے بُرے انجام سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ، مَیں تُمہاری موجُودہ صورتِ حال میں تُم سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تُم لوگوں کے ساتھ لین دین کیا کرو تو ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو بلکہ جو نرخ اُن سے لیا کرو اُس کے مطابق اُن کو پُورا مال دیا کرو ، تُم اُن سے زیادہ زَر لے کر اور کم مال دے کر خُدا کے اِس فرمان کی نافرمانی نہ کیا کرو اور جب تُم مال کو تولا کرو تو مال اور باٹ کو برابر کر لیا کرو اور اپنے دست کو اپنے ترازُو کی دَستی پر سیدھا رکھا کرو اور تُم ایک جَری انسان کے طورپر لوگوں سے زیادہ مال لے کر اور کم مال دے کر زمین میں فساد پھیلانے اور خسارہ پانے والے بے ایمان انسان بننے سے بچنے کے لیۓ اپنے اُس خالق سے ہمیشہ ڈرتے رہا کرو جس نے تُم کو پیدا کیا ھے اور تُم سے پہلے انسانوں کو بھی پیدا کیا ھے لیکن قومِ شعیب کے عمائدینِ قوم نے کہا تُمہاری بات کا جواب یہ ھے کہ تُم ھمارے جیسے ہی ایک انسان ہو جو کسی جادُو گر کے جادُو سے ھم پر اپنی برتری چاہتے ہو اور ھمارے خیال میں تُم ایک جُھوٹے انسان ہو لیکن اگر تُم سَچ مُچ اپنے دعوے میں سَچے انسان ہو تو پھر تُم ھم پر آسمان سے وہ ہلاکت خیز پَتھر گراؤ جو ھم کو ہلاک کردیں ، شعیب نے کہا کہ میرا پروردِگار جانتا ھے کہ تُم کیا کہہ رھے ہو اور کیا کر رھے ہو اور جب اُن لوگوں نے ھمارے اِس رسُول کی بات سُننے سے انکار کر دیا تو ھم نے اُس پر دَہکتے اور دَہکاتے ہوۓ سُورج کا وہ سائبان ڈال دیا کہ جو اُن پر ھمارا وہ عذابِ عظیم بن کر چھایا کہ جس نے اُن کے جسموں کو جُھلسا جُھلسا کر جلا دیا ، اے ھمارے رسُول ! اہلِ عبرت کے لیۓ ھمارے اِس نشانِ عبرت میں بھی کئی ایک نشانِ عبرت موجُود ہیں لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ تیرا پروردِگار ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ ایک عالِم و غالب پروردِگار ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا سے پہلے شعیب و اَصحابِ شعیب کا یہی ذکر سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 85 ، 88 ، 90 ،91 ، سُورَہِ ھُود کی اٰیت 84 ، 87 ، 91 ، 94 اور سُورَةُالحِجر کی اٰیت 78 سے 84 میں بھی ہوا ھے اور اِس سُورت کی اِن اٰیات کے بعد سُورَةُالعنکبُوت کی اٰیت 36 ، سُورَةُ الحجرات کی اٰیت 13 اور سُورَةُالمرسلات کی اٰیت 30 میں دوبارہ بھی شعیب و قومِ شعیب کا یہی ذکر ہو گا اور اِس سے قبل ھم سُورَةُ الاَعراف و سُورَہِ ھُود اور سُورَةُالحِجر میں شعیب و قومِ شعیب کی اِس تاریخی داستان کی جو لازمی تفصیلات تحریر کر چکے ہیں اُن کا ماحصل یہ ھے کہ شعیب علیہ السلام کا پہلا تعلق تو اُس قومِ مدین سے تھا جو کم و بیش چار سو سال سے بحرِ احمر کے مشرقی ساحل کے اُس پُر فضا مقام پر آباد تھی جو ابراھیم علیہ السلام کے ایک بیٹے مدین کے نام پر قومِ مدین کے نام سے مشہور ہوا تھا اور شعیب علیہ السلام بھی اسی مشہور بد دیانت قوم کے ایک مشہور دیانت فرد تھے ، شعیب علیہ السلام کا دُوسرا تعلق "الایکة" کے اُس علاقے کے ساتھ تھا جو آپ کے بھائی یقشان کے بیٹے دَوّان نے مدین کے قریب ہی ایک گھنے جنگل میں چُھپے ہوئے ایک سر سبز خطہِ زمین پر آباد کیا تھا اور شعیب علیہ السلام بھی اپنی آخری عمر میں اسی علاقے میں جاکر آباد ہو گۓ تھے جو اُن کی اُسی زمینِ مدین کا ایک حصہ تھا جس میں مُوسٰی علیہ السلام بھی آکر بارہ برس تک شعیب علیہ السلا کے زیرِ تربیت رھے تھے اور یہ ایک عجیب حُسنِ اتفاق ھے کہ جس روز شعیب علیہ السلام کا وصال ہوا تھا اُسی روز مُوسٰی علیہ السلام بھی دامنِ طُور میں جاکر اللہ تعالٰی سے اَلواحِ تورات وصول کر رھے تھے ، یعنی جس روز شعیب علیہ السلام کی نبوت کا تعلیمی باب بند ہوا تھا اُسی روز مُوسٰی علیہ السلام کی نبوت کا تعلیم باب کُھل گیا تھا ، شعیب علیہ السلام علی الترتیب پہلے اَصحابِ مدین کی طرف اور بعد ازاں اَصحاب الاِیکة کی طرف اللہ کے رسُول بن کر مبعوث ہوۓ تھے اور چونکہ شعیب علیہ السلام اپنی قوم کے ایک متموّل فرد ہونے کے علاوہ ایک ایسے قادر الکلام خطیب بھی تھے کہ جن کی شہرت کی خشبُو دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ آپ کی وہ بد دیانت قوم آپ کے خلاف کوئی راست اقدام کرنے کی جُرات کبھی نہیں کرسکی تھی لیکن اُس نے آپ کی تکذیب کرنے سے بھی بہر حال دریغ نہیں کیا تھا ، شعیب علیہ السلام نے اپنی اُس کم تولنے اور جُھوٹ بولنے والی قوم سے جو کُچھ کہا ھے اور اُس قوم سے جو کُچھ سُنا ھے اور اُس کے بعد اُس قوم پر جو عذاب آیا ھے اُس کی تمام تفصیلات متنِ اٰیات کے مفہومِ اٰیات میں آچکی ہیں اِس لیۓ ھم اِس حسیں داستان کو یہیں چھوڑ کر متنِ اٰیات میں بیان کیۓ ہوۓ اُسی مفہوم پر اکتفا کرتے ہیں جو اپنی جگہ پر اِس حسین داستان کا ایک ایک حسین و مُفصل بیان ھے لیکن اِس مقام پر ھم اُن پانچ باتوں کا ذکر کریں گے جو اِس سُورت کے اِس سلسلہِ کلام میں آنے والے ہر ایک رسُول نے کہی ہیں اور قُرآنِ کریم کے ایک دائمی بیانیۓ اور اپنے ایک مُشترکہ اعلامیۓ کے طور پر کہی ہیں ، اُن پانچ باتوں میں سے پہلی بات یہ ھے کہ اللہ تعالٰی کا کوئی رسُول دعوتِ حق کا کوئی معاوضہ نہیں لیتا تھا کیونکہ دعوتِ حق کا معاوضہ لینا ایک مُحتاجی ہوتا ھے اور اللہ تعالٰی کا کوئی نبی اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کا مُحتاج نہیں ہوتا ، قُرآنِ کریم کے اِس بیان سے یہ قانُون بنا ھے کہ جو انسان اہلِ زمین میں حق کا داعی ہوتا ھے وہ حق کی اِس دعوت پر کوئی معاوضہ نہیں لیتا ھے اور حق کا جو داعی اِس دعوتِ حق پر معاوضہ لیتا ھے وہ حق کا دعوت کار و دعوت دار نہیں ہوتا ھے بلکہ محض ایک دوکان دار ہوتا ھے جو دین کے نام پر اہلِ دین و اہلِ دُنیا کو دھوکہ دے کر اپنے پیٹ کا جہنم بہر رہا ہوتا ھے ، اِن پانچ باتوں میں سے دُوسری بات یہ ھے کہ اللہ تعالٰی کا ہر رسُول اپنے اُوپر نازل ہونے والی وحی کا ایک ایسا امین ہوتا ھے جو اللہ تعالٰی کی اُس وحی میں اپنی طرف سے ایک لَفظ کم یا زیادہ کرنے کا حق دار نہیں ہوتا جس کا مطلب یہ ھے کہ کسی نبی اور رسُول کے پاس اُس ایک تنزیل کے سوا کوئی دُوسری تنزیل نہیں ہوتی جس کو پہلی وحی متلو کے ساتھ دُوسری وحی غیر متلو بنا کر پیش کیا جاسکے اِس لیۓ انسان نے جو کتابیں لکھ کر قُرآن کی وحی متلو کے ساتھ وحی غیر متلو کے طور پر نَتھی کی ہوئی ہیں اُن کا اللہ تعالٰی کی تنزیل اور اُس تنزیل کی کسی بھی علمی دلیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ھے ، اُن پانچ باتوں میں سے تیسری بات یہ ھے کہ جن اہلِ علم نے نبی کے زمانے میں نبی کی زبان سے اِتمامِ حُجت ہونے کے بعد کسی قوم پر عذاب کے نازل ہونے کو مشروط کیا ھے اُنہوں نے صرف آدھی بات سمجھی ھے اور پُوری بات یہ ھے کہ نبی کے بعد کسی قوم پر عذاب نازل ہونے کے لیۓ آخری حُجت اللہ تعالٰی کی وہ آخری کتاب ھے جو اُس نبی پر نازل ہوئی ھے اور اُس نبی کے بعد جس اُمت کے پاس وہ کتاب پُہنچی ھے اُس پر بھی اتمامِ حجت ہو چکا ھے اور اگر اِس تحریری اتمامِ حُجت کے بعد اُس قوم نے اُس کتاب کا عملی یا زبانی انکار کیا ھے تو اُس پر بھی اللہ تعالٰی کا عذاب نازل ہو سکتا ھے ، اُن پانچ باتوں میں سے چوتھی بات یہ ھے کہ اِن انبیاۓ کرام کی اُمتوں میں سے ہر اُمت نے اپنے اُس نبی پر اُس کے انسان ہونے کی پَھبتی کسی ھے ، انسان کا انسان ہونا اور بات ھے اور اُس پر انسان ہونے کی پَھبتی کسنا ایک اَلگ بات ھے ، نبی کا انسان ہونا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ھے لیکن نبی پر انسان ہونے کی پَھبتی کسنا ایک قابلِ تحریم عمل ھے ، اگر ایک مُسلمان اللہ تعالٰی کے سب نبیوں کو انسان کہے تو یہ کوئی خلافِ واقعہ بات نہیں ھے لیکن اگر ایک مُسلمان کسی نبی کا یہ کہہ کر تعارف کراۓ کہ وہ میری اور تیری طرح کے ایک انسان تھے تو اُس کے اِن میری و تیری یا ھماری و تُمہاری"طرح" کے الفاظ سے بہت مذموم مفاہیم بھی پیدا ہوسکتے اور بوقتِ ضرورت پیدا کیۓ جاسکتے ہیں مگر حقیقت یہ ھے کہ اَولادِ آدم کے درمیان نبی ہی صرف وہ حقیقی انسان تھے جو اَولادِ آدم کو انسان بنانے کے لیۓ دُنیا میں تشریف لاۓ تھے اِس لیۓ ذکرِ اَنبیاۓ کرام کے دوران ہر اُس لفظ سے احتراز لازم ھے جو کسی بھی حوالے سے سُوءِ ادب کے زمرے میں آتا یا آسکتا ہو اور اُن پانچ باتوں میں سے پاچویں اور آخری بات یہ سوال ھے کہ آخر اللہ تعالٰی نے اِن سات انبیاۓ کرام علیھم السلام کا قُرآنِ کریم میں صرف ایک بار ہی ذکر کر دینے کے بجاۓ بار بار کیوں ذکر کیا ھے اور اِس کا جواب یہ ھے کہ انسان جن چیزوں کا زبان و دل سے بار بار تکرار کرتا ھے وہ چیزیں بار بار اُس کے کانوں سے گزر کر پہلے دل تک جاتی ہیں اور پھر دل میں اُتر کر دل میں راسخ ہو جاتی ہیں اور اَنبیاۓ کرام کے بار بار ذکر سے قُرآن کا مقصد و مُدعا اللہ تعالٰی کے اَحکام کو بار بار انسان کے کان و زبان سے گزار کر اُس کے دل میں راسخ کرنا ھے اور اسی حقیقت کا نام انسان کا راسُخ فی العلم ہونا ھے اور انسان کا یہی راسخ فی العلم ہونا اللہ تعالٰی کو مطلوب ھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559118 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More