پاکستان کے سابق وفاقی اور
موجودہ تجارتی دارالحکومت کراچی کا شمار اگرچہ پاکستان کے تاریخی اور قدیم
شہروں میں نہیں ہوتا تاہم اس شہر میں چند نشانیاں ایسی ملتی ہیںجن سے یہ
ثابت ہوتا ہے کہ یہ شہر صدیوں پرانا ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کراچی
کی تاریخ تقرییا 1300 سال قدیم بنتی ہے۔ کراچی کے عروج کا دور برطانوی راج
میں شروع ہوا انگریزوں نے 3 فروری 1839ءکو اس پر قبضہ کیا اور تین سال بعد
اسے ضلع کا درجہ دیدیا۔ جو ترقی کرتے کرتے ایک ڈویژن اور 5اضلاع اور بعد
ازاں شہری حکومت کی شکل میں آج دنیا کے چند عظیم شہروں میںشامل ہے۔ بنیادی
طور پرکراچی کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور
انگریزوں کی آمد سے قبل اور دوسرا دور برطانوی راج کا ہے جبکہ تیسرا اور
آخری دور قیام پاکستان سے اب تک کا ہے۔
کراچی کی اصل تاریخ ”کولاچی جو گوٹھ“سے شروع ہوتی ہے۔ سمندر کے کنارے آباد
اس گاؤں میں کولاچی نامی بلوچ قبیلہ آباد تھا۔ جس کے باعث اسے ”کولاچی جو
گوٹھ “کا نام دیا گیا۔یہ گاؤں کب آباد ہوا اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔
سمندر کے کنارے آباد اس گاؤں کے مکینوں کا گزربسر ماہی گیری پر تھا۔ کہا
جاتا ہے کہ” مائی کولاچی“ نامی ایک خاتون نے اپنی جان پر کھیل کر ماہی گیری
کے دوران سمندر میں پھنس جانے والے اپنے شوہر اور اس کے ساتھیوں کی جان
بچائی تھی جس کے باعث اس گاؤں کو” مائی کولاچی جو گوٹھ“ کے نام سے بھی
پکارا جاتا تھا بعد ازاں اس نام میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی گئی جس کے
مطابق مائی کولاچی سے مائی کلاچی اور پھر کراچی(بعض دیہاتی “کرانچی“بھی
کہتے ہیں) ہوگیا لیکن آج کل عملاً ”کرچی کرچی“ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد یہ
شہر متحدہ پاکستان کا دارالحکومت قرارپایااور پاکستان کے حق میں قرارداد
پاس کرنے والی پہلی اسمبلی بھی اسی شہر میں تھی۔ ”مائی کولاچی“کے نام کی
لاج رکھتے ہوئے اس شہر نے ہمیشہ ایثار ومحبت کو فروغ دیا اور ہر آنے والے
کو اپنے دامن میں پناہ دی یہ سلسلہ 1970ءکی دہائی تک رہاپھر حالات نے اچانک
پلٹا کھایا معلوم نہیں کس کی نظر بد لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے محبتوں کے
شہرکراچی میں نفرتیںجنم لینے لگیں۔
کہاجا تا ہے کہ اس شہر کی محبتوں کو نفرتوں میں بدلنے میں جہاں اور بہت سے
کردار ہیں وہیں تین آمروں نے ہراول دستے کا کام کیاایک آمر نے دارالحکومت
یہاں سے منتقل کر کے اس شہر کو نفرت کی آغوش میں دھکیل دیا ۔دوسرے آمرنے
لسانی اور مذہبی تنازعات کو فروغ دیا اور تیسرے آمر نے شہر کی محبت کے
تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کے لیے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا،اس حوالے
سے نام نہاد جمہوری اور مفاہمتی حکومتوں کا(1971ءسے
1977ء،1988ءسے1999ءاور2002ءسے اب تک) کردار بھی آمروں سے کچھ مختلف نہیں
رہا۔ موجودہ جمہوری اور مفاہمتی حکومت کے تین سال میں ہزاروں لوگ ان نفرتوں
کا شکار ہوچکے ہیں۔ماضی میں جب بھی کراچی کا ذکر آتا تھا اس کی وسعت دامانی،
محبت، پیار، اخوت اور بھائی چارے کا تصور ذہن میں ابھرتا تھا۔ یہ ایسا شہر
تھا جس کے دن تودن راتیںبھی جاگتی تھیں۔ یہاں کے فٹ پاتھ اور پارک اگر دن
میں لوگوں کے لیے آمد ورفت اور تفریح کے مواقع فراہم کرتے تھے تو رات کو
یہیں غریب اور مزدور کا آشیانہ بن جاتے لوگ یہاں پر سکون حاصل کرتے اور
اگلے دن تازہ دم ہوکر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے اور اب یہ عالم ہے کہ بڑی
بڑی فصیلوں اور گھروں کے اندر بھی لوگ غیر محفوظ ہیں۔ کراچی میں پاکستان کی
تقریباً تمام زبانیں بولنے والے، ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے
آباد ہیں۔ اس شہر نے دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک کے لوگوں کےلئے اپنے
دامن کو وسیع کردیا غالباً اس وقت بھی یہ دنیا کا واحد شہرہے جہاں 15لاکھ
سے زائد غیر قانونی تارکین وطن موجود ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد، جب
ہندوستان میں ہندو اور سکھوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار
ہونے لگا تو یہی شہر تھا جس نے اپنے دامن میں اکژ مہاجرین کو پناہ دی۔
انصار اور مہاجر ایک دوسرے کے دست وبازو بن گئے جس سے شہر کی رونقیں دو چند
ہوئیں اور پھر شہر نے ترقی کی اور دنیا کے نصف درجن کے قریب عظیم شہروں میں
اس کاشمار ہونے لگا۔ اس کی دامن وسعت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے کونے کونے
سے لوگ یہاں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس شہر کی آبادی دو کروڑ
کو چھونے لگی۔ معلوم نہیں کہ تقریباً تین دہائی قبل اس شہر کو کس کی نظر بد
لگ گئی۔پہلے اختلاف برائے اصلاح،پھر اختلاف برائے اختلاف،بعدازاں
شکوے،شکایات اور یہاں تک کہ معاملہ مایوسی تک پہنچ گیا۔اس مایوسی نے محبتوں
کونفرتوں میں بدل دیالیکن پھر کچھ ٹھہراﺅ آیا ۔
80 19ءکی دہائی سے شروع ہونے والی نفرتیں پہلے مسلکوں پھر جماعتوں میں
تقسیم ہوگئیں پھر یہ نفرتیں اتنی بڑھیں کہ گلی محلے بھی تقسیم ہوگئے۔
صورتحال اب اس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ اب مسیحائی کے ٹھکانے (ہسپتال) اور
عبادت گاہیں بھی نسلی اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہوچکی ہیں۔ ایک ہی جگہ
میں کام کرنے والے اور ایک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں۔ معلوم
نہیں اس آگ کو کون پروان چڑھا رہا ہے۔ شرپسند عناصر کی محدود تعداد نے پورے
شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ آج لوگ گھروں سے نکلتے ہیں تو انہیں معلوم نہیں
ہوتا کہ کہاں کوئی نامعلوم گولی ان کا مقدر بن جائے۔ پاکستان کا یہ واحد
شہر ہے جس کے کسی ایک کونے پر اگر ذاتی بغض وعناد کی بنیاد پر کوئی واقعہ
پیش آتا ہے تو پورے شہر کو نسلی یا مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرکے آگ میں
جھونک دیا جاتا ہے۔
یہ وہی بدقسمت شہر ہے جہاں مسجد کی تعمیر کے خلاف مسلمان سراپا احتجاج ہوتے
ہیں اور پھر گولیوں کی برسات ہوتی ہے۔ مسجد کی تعمیر کے خلاف احتجاج کرنے
والے اپنا شمار غازیوں میں اور مسجد کی تعمیر کے حق میں جان دینے والے اپنا
شمار شہیدوں میں کرتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کا ایک مکتبہ فکر دوسرے مکتبہ فکر
کی مسجد کو تالا لگنے یا اس کے بند ہونے پر سر پرسبز عمامہ، چہرے پر داڑھی،
جیب میں مسواک، ہاتھ میں تسبیح رکھ کر مٹھائیاں تقسیم کرتا پھر رہا ہے کہ
اس کے مخالف مکتبہ فکر کی مسجد کی تالا بندی ہوگئی ہے اور پھر مبارکبادیں
دیتا اور وصول کرتا ہے۔ اس شہر میں نفرتیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ اب
لوگوں کو اپنے سائے سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ کوئی شہر کو تقسیم کرنے کے لئے
بیان پہ بیان داغ رہا ہے تو کوئی شہر میں اپنی حیثیت منوانے کےلئے کوشاں
نظر آتا ہے۔ چند سال قبل لاٹھی اور پتھر سے شروع ہونے والی لڑائی بندوق کی
حد کو بھی کراس کرکے دستی بم ،راکٹ لانچر اور مشین گن تک پہنچ چکی ہے۔یہاں
لوگ مورچہ زن ہو کر لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ نشانہ
بنانے والے شکار نہیں ہوتے بلکہ ان گولیوں کا نشانہ بننے والے وہ غریب
مزدور لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کےلئے گھر
سے نکلتے ہیں۔اور پھرشام کو ان کی لاش گھر پہنچ جاتی ہے۔
اس کی تازہ مثال 5 جولائی سے تاحال(9جولائی دوپہر تک) ہونے والا تصادم ہے
جس کے نتیجے میں 105 سے زائد افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ متعدد
گھر اور گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں۔ مسافروں کو گاڑیوں کے اندر نشانہ بنایا
گیا۔ کسی کو اغواءکرکے ٹارگٹ کیا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ماضی میں لیپا
پوتی کرنے والے رحمان بابا(وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک) بھی اس مرتبہ
کامیاب نظر نہیں آرہے ہیں۔جو یہ تو دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کو سٹلائٹ اور
گوگل نقشوںسے کراچی میں”طالبان“ نظر آئے مگر رحمان بابا ان مبینہ طالبان سے
عوام کو بچانے میں ناکام ہیں ۔رحمان بابا نے طالبان کے نام پرتین سال تک
اہل کراچی اور اہل پاکستان کو بہت دھوکا دیا مگر اب سچ ہی ہمیں تباہی سے
بچا سکتا ہے۔”بابا “کم ازکم” رحمان“کے نام کی لاج ہی رکھو!
موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے مفاہمانہ پالیسی کے ذریعے ملک کو ترقی
کی طرف گامزن کیا لیکن گزشتہ تین سال کے دوران اس مفاہمانہ پالیسی نے اس
شہر میں تشدد کو پروان چڑھایا۔ نفرتوں میں اضافہ کردیا۔ آج اردو بولنے والے
نہ چاہتے ہوئے بھی ایم کیو ایم کی پناہ میں آنے پر مجبور ہیں۔ پٹھان نہ
چاہتے ہوئے بھی عوامی نیشنل پارٹی کے پرچم تلے جمع ہونے پر مجبور ہیں۔ بلوچ
نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز امن کمیٹی کو سپورٹ کرنے پر مجبور ہیں۔ سندھی نہ
چاہتے ہوئے بھی قوم پرستوں کی حمایت اور جاگیردار اور وڈیرہ سیاستدانوں کو
ووٹ دینے پر مجبور ہیں۔اس وقت کراچی میں حکومت نام کی کوئی چیز کہیں پر نظر
نہیں آتی۔ عجیب بات یہ ہے کہ پولیس اور رینجرز کے سامنے لوگوں کو گولیوں کا
نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گرد گھومتے رہتے ہیں لیکن مجال ہے کہ پولیس اور
رینجرز ان کے خلاف کاروائی کریں۔ بلکہ وہ اپنی گاڑیوں میں چھپ جاتے ہیں
اور” دیکھ کر اندھے سن کر بہرے“ ہو نے کی مثال یہاں پر صادق آتی ہے۔ اب تو
ظلم کی یہ انتہا بھی ہوچکی ہے کہ بچے اور خواتین بھی شرپسندوں سے محفوظ
نہیں۔
چند ماہ قبل سری نگر کے پرتشدد واقعات کے دوران ایک کشمیری دوست نے مجھ سے
پوچھا تھا کہ ہمیں تو یہاں معلوم ہے کہ ہمارا دشمن بھارتی فوج ہے۔ آپ
بتائیے کہ کیا معلوم ہے کہ آپ کا دشمن کون ہے، جس کا میرے پاس کوئی جواب
نہیں تھا اور آج بھی کوئی جواب نہیں۔ کیونکہ مارنے والے بھی مسلمان اور
مرنے والے بھی مسلمان، سب اس شہر کو اپنا کہتے ہیں لیکن شاید دل سے کوئی
اسے اپنا تسلیم کرنے کےلئے تیار نہیں اور سب یہ مانتے ہوئے کہ ان کی بقاء
اور سلامتی اس شہر کی بقاءاور سلامتی سے مشروط ہے لیکن سب اس کے باوجود اس
کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں بیٹھے حکمران مفاہمت کاراگ الاپ
رہے ہیں۔یہ کتنی بد قسمتی ہے کہ شہر جل رہا ہے اور حکومتی ترجمان اس ضمن
میں کوئی بات کرنے کی بجائے نواز شریف کے خلاف بیان داغ رہے ہیں ۔وزیر
اعلیٰ تو شاید واقعی بے بس ہیں ۔موجودہ اور ماضی قریب کے اتحادی ایک دوسرے
پر الزام تراشیوں اور اپنے ”شہدا“ اور ” زخمی غازیوں“کی تعداد میں اضافے کی
فہرستوں کے اجراءمیں مصروف ہیں۔دراصل کراچی میں حالات کی خرابی کی اصل وجہ
سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور مختلف مافیاز کے مابین بالادستی کی جنگ ہے ،جس
نے شہر کو جنگ زدہ علاقہ بنادیا ہے ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے کراچی کوجنگ زدہ
علاقہ قراردینے میں شاید تاخیر کی ہے یہ کام پہلے ہی ہونا چائے تھا ۔آج
کراچی کر ہر فرد کی آواز ہے کہ”اے اہل وطن!“میرے کراچی کو بچالو!۔ ضرورت اس
امر کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی، مذہبی، سماجی، صحافتی اور فوجی قیادت
کراچی کے امن کےلئے متحد ہوجائے اور اس بدامنی کا حل تلاش کرکے نہ صرف
کراچی بلکہ پاکستان کو بچائے اسی میں ہم سب کی بقاءہے ورنہ ہر طرف فنا ہی
فنا ہے۔ |