افغانستان کی آزادی! مشن ابھی ادھورا ہے!

افغانستان ایک تاریخی سرزمین ہے ، جہاں کے لوگ نڈر، بے باک ، ناموس پر قربان ہو جانے والے اور سخت جان ہیں۔ صرف چالیس سال میں ہم نے وقت کی دو سوپر پاورز کو ایڑھیاں رگڑتے دیکھا ہے۔ لیکن اس کے اثرات نے ہر بار خطے پر انتہائی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔اور خطے میں موجود ممالک کی حکمت عملی حالات کی مطابقت سے مختلف رہی ہے۔ ہر ایک ملک نے اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے مختلف طرح کی پالیسیاں اپنائیں ہیں۔ ماضی قریب کے طاقچوں میں پڑی کتابوں اور اخباری تراشوں کا جائزہ لیں تو اس وقت یہی سامنے آتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے داخل ہوتے وقت ہر ایک ملک نے اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دی تھی اور کسی نے بھی خطے میں مستقبل میں پیدا ہونے صورتحال کے بارے نہیں سوچا تھا۔بھارت کا مفاد یہ تھا کہ اسے امریکہ کی طرف سے فوجی کاروائیاں کرنے کے ایوض پیسے ملنے تھے،کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ میں مضبوط اتحادی مل پائیں، اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ رچانے اور پاکستان میں مداخلت کیلئے راہیں ہموار ہو سکیں، اس کے علاوہ اس کی خواہش کی تکمیل بھی ہو سکتی تھی کہ وہ ایشیا کا چوہدری بنے۔ دوسری جانب ایران کو اقتصادی پابندیوں کے ہٹ جانے ، تیل کی بڑی مقدار میں فروخت اور عراق و شام سے ہوتی ہوئی بیروت تک کی سلطنت کو واپس لینے کے مفادات تھے۔ روس اور چین دلی طور پر چاہتے تھے کہ امریکہ افغانستان میں داخل ہو تاکہ وہ کمزور ہو جائے اور انہیں دوبارہ سوپر پاور بننے کا موقع مل جائے۔ افغان جنگ افغانستان کیلئے تو ایک بڑا چیلنج تھا ہی لیکن ساتھ ہی پاک افغان سینکڑوں کلومیٹر لمبی سرحدی پٹی اور اس پٹی کے ساتھ بسنے والے مکین جن کے رشتے دار سرحد پار موجود تھے اور وہ کھلے عام آ جا سکتے تھے پاکستان کیلئے گلے کی ہڈی ثابت ہوئے ۔ اس طرح سے بھارت کی جانب سے وہاں موجود لوگوں کو خرید کر پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا جس کے بعد پاکستان اس جنگ کا حصہ بن گیا جو اس کی کبھی تھی ہی نہیں۔ مختلف آپریشنز کی مد میں پاکستان کے کروڑوں ڈالر خرچ ہوئے اور ستر ہزار کے قریب جانیں قربان ہوئیں۔ اس سرحدی پٹی کے ساتھ طالبان کے نام سے ایک گروہ پیدا کیا گیا جو پاکستانی فورسز، سکولوں ، مدرسوں اور عوامی آبادی پر اس لئے حملہ آور ہوتے تھے کہ پاکستان نے امریکہ کو اڈے کیوں دے رکھے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کو افغان طالبان کی جانب سے کوئی بھی مدد حاصل نہیں تھی۔ان شدت پسند لوگوں کے بارے میں پاکستان نے داخلی سطح پر امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے بہت سی حکمت عملیاں اپنائیں لیکن نتیجہ یہی رہا کہ ایسے لوگ فقط شر پسند عناصر ہیں اور ان کا مقصد اپنے حقوق کی جنگ لڑنا نہیں بلکہ پاکستان میں امن و استحکام کو ثبوتاژ کرنا ہے۔ پاکستان عصر حاضر میں بھی ان عناصر سے نبرد آزما ہے۔افغانستان کی آزادی ، امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کا انخلاء اپنی جگہ ہے لیکن پاکستان کی صورتحال ابھی تک وہیں کھڑی ہے۔ گویا پاکستان کی موجودہ حکومت نے عسکری قیادت کو ایک پیج پر اکٹھے کر کے افغانستان میں امن کے قیام کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے، یہاں تک کہ وہاں کے دو اہم گروہوں، حکمت یار گلبدین اور ملا عمر کے مابین پہلی مرتبہ ڈائیلاگ کروایا اور انہیں آپسی امن کی ترغیب دی۔یہ اقدام انتہائی حمیت کا حامل تھا، کیونکہ سوویت یونین کی شکست کے بعد افغانستان میں ان دو گروہوں کے آپسی تنازعے کی وجہ سے امن قائم نہیں ہو پایا تھا ، جس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے دخل اندازی کرنے کی جرأت کی۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ! پاکستان کی اتنی قربانیوں کے باووجود پاکستان کو کیا ملے گا؟ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ افغانستان کے نئے مقتدر طبقے کا رویہ کیا ہوگا؟ یہ سوال اب فضول لگتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو دنیا قبول کرے گی یا نہیں! ہمارے پاس تاریخ کی کئی مثالیں موجود ہیں، نیلسن منڈیلا ، خمینی انقلاب وغیرہ جو پہلے دہشت گرد تھے بعد میں حکمران بنے! اور دنیا نے انہیں قبول کیا۔ روس، چین اور ترکی حکومت نے طالبان حکومت سے مذاکرات کرنے کیلئے رضا مندی ظاہر کر دی ہے، ا یران ، بھارت اور پاکستان کی آئندہ پالیسی ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی۔ پاکستان بار بار افغانستان میں امن کی بات کر رہا ہے، اور کہتا ہے کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین قبول نہیں کرے گا۔ بھارت آج بھی اسی مؤقف پر قائم ہے کہ افغان جنگ میں پاکستانی افواج نے طالبان کی مدد کی ہے! اور ایران اب لازمی طور پر موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی نئی پالیسی کو مرتب کرے گا۔ طالبان نے افغان حکومت کا کنٹرول سنبھالتے ہی پاکستان کے بیانیے کا مثبت رد عمل ظاہر کیا ہے، اور کسی بھی شہری پر ظلم و جبر نہ کرتے ہوئے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ یہاں تک کہ شہریوں کے تحفظ کیلئے وعدہ بھی دیا ہے۔ لیکن افغانستان کو پاکستان کیلئے مزید کر کے دکھانا ہوگا۔ اپنے مہاجرین کو قبول کرنا ہوگا اور اپنی سرحد کے راستے ہونے والی دہشتگردی کی روک تھام کیلئے پاکستان کا ساتھ دینا ہوگا۔ پاکستان کو امت مسلمہ کیلئے مزید قربانی پیش کرتے ہوئے ترکی، ایران ، یمن اور عرب امارات کو ایک پیج پر اکٹھا کر کے ان کے درمیان بھی امن معاہدہ کروانے کیلئے کوششیں کرنی ہوں گی۔ امریکہ آیا اور افغانستان کے راستے پاکستان کو مسلسل چالیس سال تک نقصان دیتا رہا اور واپس چلا گیا! ہمیں اپنا انتقام لینے کیلئے پالیسی وضح کر نی ہوگی اور روس کی طرح متحدہ امریکہ کو بھی توڑنا ہوگا، اس کیلئے روس اور چین پاکستان کے بہترین اتحادی ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان لابنگ کرتے ہوئے ان تمام مسلم ممالک جو اقوام متحدہ کا حصہ ہیں ، اور وہ ممالک جنہیں افغان جنگ میں انتہائی نقصان اٹھانا پڑا کو ساتھ ملا کر امریکہ کے خلاف اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو سکے۔اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ و اسرائیل کی لونڈی اقوام متحدہ، کتے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے اپنا دامن بچا کر نئے رستے نکالے جائیں۔ ایک نئی سمت کا تعین کیا جانا چاہئے۔میری رائے میں اقوام عالم اب اس بات کو تسلیم کر چکی ہیں کہ پاکستان دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں سے برابری کی سطح پر بات کرنے کی اہلیت رکھتا ہے!۔۔۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190131 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More