وہ ایک ٹک ٹا کر تھی۔سوشل میڈیا کے ،مقبول ترین نیٹ ورک
ٹک ٹاک کے لئے کام کر کے لوگوں کو محظوظ کرنا اس کا شوق تھا اور شاید
کاروبار بھی۔اپنے اسی شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اپنے ٹیم ممبرز کے ساتھ
14اگست کو گریٹر اقبال پارک گئی۔ مگر اسے کیا معلوم تھا ،کہ وہ گریٹر اقبال
پارک، جسے تاریخ میں منٹو پارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس میں مسلمانان
ہند کے لئے علیحدہ وطن کی قرار داد پیش کی گئی تھی اور وہی قرار دا د قیام
پاکستان کا سبب بنی تھی۔اور جس میں پرشکوہ مینا رپاکستان اسی قرار داد کی
یاد تازہ رکھنے کیلئے تعمیر کیا گیا تھا اب درندوں کا مسکن بن چکا ہے
۔لاہور پاکستان کا بڑا شہر ہے جو تاریخی حوالے سے اپنی مثال آپ ہے،ملک سے
ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر سے لوگ لاہور میں سیر وسیاحت کے لئے آتے ہیں ۔آنے
والے مینار پاکستان ،بادشاہی مسجد ،شاہی قلعہ کی سیر کئے بغیر چلے جائیں یہ
تقریبا ناممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ ان مقامات پر ہر دن لوگوں کا ہجوم رہتاہے،
قومی تہواروں پر تو یہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے،ایسا ہی ماحول اس چودہ اگست کو
بھی تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ سیرو تفریح کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے
،سینکڑوں منچلے مینار پاکستان پر مٹر گشت کر رہے تھے، کہ ٹک ٹاکر عائشہ
اکرم نے بھی ٹک ٹاک کے لئے شوٹنگ کاآغاز کر دیا ،اسی اثناء میں کچھ منچلوں
نے ان کے ساتھ سیلفی بنانا چاہی، جس پرانہوں نے اعتراض نہیں کیا،چاہئے تو
یہ تھا کہ سیلفی لینے کے بعدوہ اپنی راہ لیتے، مگر انہوں نے عائشہ اکرم کو
پریشان کرنا شروع کر دیا،اس پر تو تکرار ہوئی،تو انسان کے روپ میں بھیڑئیے
اس پر ٹوٹ پڑے،پھر جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا نے ٹی وی چینلز اور یو ٹیوب پر
دیکھا، کہ کس طرح تین چار سو آوارہ بھیڑئیے ایک نہتی بے بس لڑکی کو بھنبھوڑ
رہے ہیں۔ مگر کوئی بھی انہیں روکنے والا نہیں۔متاثرہ لڑکی کے ساتھیوں کے
مطابق کئی مرتبہ 15 پر کال کی ،دو مرتبہ رابطہ بھی ہوا، انہیں صورتحال سے
آگاہ کیا ۔مگر موقع پر کوئی نہ پہنچا ، اڑھائی سے تین گھنٹے مینار پاکستان
پر تماشا لگا رہا ،لاچار لڑکی مدد کیلئے پکارتی رہی مگر اسے کیا معلوم تھا
کہ وہ ملک کے مشہور اور معروف پارک میں نہیں بلکہ جنگل میں ہے جہاں ہر سو
بھڑئیے ہی بھیڑئیے ہیں ،15 پرکال سننے کے باوجود پولیس کا نہ پہنچنا
،ناقابل معافی ہے ،کیونکہ حکومت پولیس پر سالانہ اربوں روپے کا فنڈ صرف اس
لئے خرچ کرتی ہے، تاکہ لوگوں کی عزتیں، مال اور جان محفوظ بنائے جا
سکیں،پولیس حکام کی طرف سے ڈولفن فورس،حیدر سکواڈ ،ایلیٹ فورس،محافظ دیگر
فورسز اور گروپس بنائے گئے ،جنہیں جدید ترین اسلحہ نئی گاڑیاں اور دیگر
وسائل مہیا کئے گئے ہیں۔مگر اس کے باوجود کسی مجبور کی مدد کو نہ پہنچنا
اور تین گھنٹے تک درندوں کو کھلی چھٹی دئیے رکھنا نا قابل معافی ہے ،اس پر
متعلقہ حکام کی سخت سرزنش ہی نہیں ہونی چاہیے ، بلکہ انہیں مستقل گھر بھیج
دینا چاہئے۔اب کیمروں کے زریعے شناخت کر کے لوگو ں کو گرفتار کیا جارہا
ہے،جتنی پھرتی اب دکھائی جارہی ہے اگر پہلے دکھائی جاتی تو شائد نوبت یہاں
تک پہنچتی ہی نہ۔اب بندے پکڑے جائیں کچھ سے مک مکا ہو گا،کچھ افسران معطل
ہوں گے، جنہیں کچھ دن بعد پھر بحال کر دیا جائے گا،تھوڑا وقت گزرنے پر
خاموشی چھا جائے گی، یا پھر واقعہ کسی نئے واقعہ کسی نئے سانحے کے نیچے دب
جائے گا۔کیونکہ اس ،ملک میں ایسے واقعات اب معمول بنتے جا رہے ہیں ۔ننھی
بچیوں کے ریپ اور قتل کے چند ماہ میں درجنوں واقعات پیش آچکے ، حال ہی میں
اسلام آباد جیسے شہر میں عثمان مرزا جیسے کن ٹٹے نے نوجوان جوڑے کے ساتھ جو
سلوک کیا اس کی دھول ابھی بیٹھی نہیں تھی ،کہ نور مقدم کے واقعہ نے پوری
قوم کو سکتے میں مبتلا کر دیا ،رہی سہی کسر اب لاہور میں پے درپے پیش آنے
واقعات نے پوری کردی۔ اگر ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات نہ کئے
گئے،مجرموں کو قرار واقعی سزا نہ دی گئی، تو پھر امیر زادے نور مقدم جیسی
لڑکیوں کو ہوس کی بھینٹ چڑھانے کے بعد ان کے سر کاٹتے رہیں گے،عثمان مرزا
جیسے کن ٹٹے بے بس جوڑوں کی تذلیل کو معمول بنا لیں گے،اور روزکسی نہ کسی
مقام پر بھیڑیوں کا ہجوم کسی نہ کسی عائشہ کو بھنبھوڑتا رہے گا،خدارا ، اسے
روکئے،جنگل میں تبدیل ہوتے اس ملک اور معاشرے کو روکئے،ہمیں جنگل میں تبدیل
ہوتا نیا پاکستان نہیں چاہئے۔
|