بھارت چھوڑو سے بھارت توڑو تک اگست کرانتی کا سفر

آزادی کی 75ویں سالگرہ کو بھی روایتی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ قوموں کی زندگی میں یہ عمر بہت زیادہ نہیں ہوتی لیکن اس قلیل عرصے میں وطن عزیز کے اندر آزادی کی یہ نیلم پری کس قدر ناتواں ہوچکی ہے اس کا اندازہ اگست کرانتی دن کی دو متضاد تقریبات سے لگایا جاسکتا ہے۔ وطن عزیز میں یوم آزادی کی ماحول سازی 9؍ اگست یعنی ’ہندوستان چھوڑو تحریک‘ کے دن سے شروع ہوجاتی ہے۔ 1857 کی جنگ ِآزادی کے بعد1942 میں اس تاریخی دن کو ’کرو یا مرو‘ کا نعرہ لگا کر انگریزوں کے خلاف دوسری فیصلہ کن آزادی کی لڑائی چھیڑی گئی اور اس کے نتیجے میں پانچ سال پانچ دن بعد غلامی کا سورج غروب ہوگیا ۔ اس دن کو ہر سال یاد کیا جاتا ہے حزب اختلاف سرکار کو اقتدار چھوڑنے کے لیے کہتا ہے مثلاً جب کانگریس اقتدار میں ہوتو اس کے خلاف بی جے پی والے نعرے لگاتے ہیں اور جب کانگریس حزب اختلاف میں ہوتو وہ بی جے پی سے حکومت چھوڑنے کا مطالبہ کرتی ہے حالانکہ دونوں جانتے ہیں کہ یہ محض ایک رسم کی ادائیگی ہے۔

سنگھ پریوار اور بی جے پی کے ماں آر ایس ایس نے اگست کرانتی کی تحریک سے مکمل اجتناب کیا تھا اور باپ ہندو مہا سبھا نے اس کی کھل کی مخالفت کی تھی اس کے باوجود اگران کی اولاد یہ دن منانے کا عزم کرےتو شکوک و شبہات کو جنم لینا بالکل فطری عمل تھا ۔ ممبئی کے اندر تو ادھو ٹھاکرے کی سرکار کے خوف سے یہ لوگ گھر میں دبکے رہے اور اگست کرانتی میدان میں نہیں آئے لیکن دہلی میں چونکہ پولس امیت شاہ کے تابع ہے اس لیے انہوں نے خوب ہنگامہ کیا۔ بی جے پی رہنما اشونی کمار کی قیادت میں ان لوگوں نے جنتر منتر پر ایک احتجاج کا انعقاد کیا۔ اس مظاہرے کے لیے اجازت لینے کی زحمت نہیں کی گئی اور’’ بھارت چھوڑو‘‘ سے ردیف قافیہ ملا کر ’بھارت جوڑو “ کے عنوان پر ملک توڑنے کی بھر پور سعی کی گئی ۔ اس احتجاج کے دوران مسلمانوں کے خلاف ایسی اشتعال انگیز دھمکی آمیز نعرے بازی کی گئی کہ جن کو قلمبند کرنا بھی مناسب نہیں ہے ۔

اس بابت جب ویڈیو وائرل ہوگئی تو عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان نے اشونی اپادھیائے کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروادی ۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ملک کی راجدھانی دہلی میں پارلیمنٹ سے کچھ ہی دور پر ایک مخصوص مذہب کو کھلے عام کاٹنے کی دھمکی دینے والے لوگوں کے خلاف دہلی پولیس کمشنر کو تحریری شکایت کے ذریعہ این ایس اے اور یو اے پی اے کے تحت سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ ’’ ثبوت سامنے ہوتے ہوئے بھی کارروائی میں تاخیر آخر کیوں ہو رہی ہے؟‘‘ ۔ اس ٹویٹ اور بدنامی کے بعد پولس نے مسلم مخالف تقریر معاملے میں بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے سمیت دیپک سنگھ، ونود شرما، دیپک ونیت کرانتی اور پریت سنگھ کو گرفتار کرلیا ۔ دہلی پولیس سے امید تو نہیں تھی لیکن اس نے اعلان کردیا کہ کسی بھی طرح کے فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اشونی اپادھیائےکو جب پولیس نے بلایا تو اس کی ساری ہیکڑی نکل گئی ۔ اس نے نعرے لگانے والوں کو جاننے سے انکار کردیا۔ اشونی نےویڈیو کی جانچ کرنے کے بعد قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کرڈالا ۔ پولیس کمشنر کو ایک خط لکھ کر صفائی دیتے ہوئے اس نے لکھا کہ 15 اگست کی طرح 8 ؍اگست بھی ایک تاریخی دن ہے حالانکہ اسے نہیں معلوم 9؍ اگست 1942 کو ہندوستان چھوڑا آندولن شروع کیا گیا تھا۔ اشونی کے مطابق اس تاریخی دن کی سالگرہ منانے کے لئے ہی جنتر منتر پر سیو انڈیا فاونڈیشن کے ذریعہ ایک چھوٹا سا پروگرام منعقد کیا گیا تھاجس کے صدر پریت سنگھ اور سکریٹری اروند تیاگی ہیں۔ وہ تو اس تنظیم کا عہدیدار بھی نہیں ہے۔ یہ کوئی سیاسی، سماجی یا مذہبی پروگرام نہیں تھا۔ اس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ آزادی کی 75 ویں سالگرہ (15 اگست 2022) سے پہلے سبھی انگریزی قانون ختم کرکے نیا قانون بنائے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ تاریخ پر تاریخ دے کر بے قصوروں کو مہینوں اور سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے والی دہلی کی ایک عدالت نے بی جے پی کے سابق ترجمان اشونی اپادھیائے کے سارے جھوٹ پر آنکھ موند کر یقین کرلیا ۔ انتظامیہ نے بھی اس کے خلاف نہ کوئی سنگین الزام لگایا اور ضمانت کی مخالفت کی۔ سب کچھ نورا کشتی کی مانند ہو ا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میٹروپولٹین مجسٹریٹ ادبھاؤ کمار جین نے 50,000کے مچلکے پر اسے ضمانت پر رہا کردیا۔ اس طرح ایک دن کی عدالتی تحویل کے بعد اشونی چھوٹ گیا باقی لوگوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ہوگا ۔ سچ تو یہ ہے اس معاملے میں ویڈیو کے باوجود پولس نے اصل ملزمین پر تو ہاتھ ہی نہیں ڈالا اور نہ ہی کوئی ایسی دفعہ لگائی جس سے ضمانت ملنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہو ۔ اس طرح پھر ایک بار یہ بات ثابت ہوگئی کہ ’یہ اندر کی بات ہے پولس ہمارے ساتھ ہے‘۔ اس تماشے کے بعد وینکیا نائیڈو کا کہنا کہ آئیے مل جل کر اعتماد کے ساتھ ایک خودکفیل ہندوستان کی جانب قدم بڑھائیں ایک لطیفہ محسوس ہوتا ہے۔

اس طوفان بدتمیزی سے علی الرغم اگست کرانتی کے تاریخی دن کی 79؍ ویں سالگرہ کے موقع پر 9؍ اگست کو ممبئی کے اگست کرانتی میدان پر منعقدہ ایک تقریب میں کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد کہا کہ انگریزوں کے خلاف اسی میدان سے شروع ہونے والی ’بھارت چھوڑو ‘ تحریک ملک بھر میں پھیل گئی تھی اور اس تحریک نے برطانوی سامراج کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا تھا کہ آخر کار15؍ اگست1947 کو ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا اور یہاں جمہوریت قائم ہوگئی۔ نانا پٹولے نے مزید کہا کہ جس طرح 1942 میں ممبئی شہر سے ظالم برطانوی حکومت کے خلاف ’انگریزوبھارت چھوڑو‘کا نعرہ بلند کیا گیا تھا اسی طرح اب مودی حکومت کے مظالم و زیادتیوں اور ناانصافی کے خلاف جمہوریت کوبچانے کیلئے سب کو متحد ہو کر ’بی جے پی چلے جاؤ‘ کا نعرہ لگانا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2014ءسے ملک کو گرہن لگ گیا ہے۔ ملک کےکسان ، نوجوان ، تاجروں کو جھوٹے خواب دکھا کر بی جے پی اقتدار میں آئی اور آئینی نظام کو تبدیل کرنےمیں جٹ گئی ۔ آج جمہوریت کے چاروں ستونوں کا استحکام خطرے میں ہے۔پاٹولے کے مطابق وقت آگیا ہے کہ جمہوری نظام کو بچانے کے لئےملک کے تمام شہری جدو جہد کریں ۔سنگھ پریوار کو بے نقاب کرتے ہوئے کانگریس کے ریاستی صدر نے یاد دلایا کہ ’’آزادی کی لڑائی میں کانگریس پارٹی کا اہم کردار رہا ہے لیکن آج ایسے نظریات کے حامل افراد اقتدار پر قابض ہیں جن کا اس آزادی کی جدوجہد میں کوئی کردار نہیں تھا ۔ وہ لوگ بڑی مشکل سے ملنے والی آزادی اور جمہوری اقدار کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے کمر بستہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یاد دلایا کہ جمہوری نظام کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ان کی ہے لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہوسکیں گے؟ اس بابت عوام کے ذہن میں شکوک و شبہات ہیں ۔ اگست کرانتی دن کے موقع پر ممبئی اور دہلی میں منعقد ہونے والی یہ دونوں تقریبات ایک طرف تو یہ بتاتی ہیں کہ ہندوستان کتنا بدل گیا ہے۔ وہیں اس بات کا بھی پتہ دیتی ہیں 79؍ سال بعد بھی سنگھ پریوار کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کل تک جو باتیں یہ لوگ چوری چھپے کرتے تھے اب علی الاعلان کرنے لگے ہیں۔ بھارت چھوڑو سے بھارت توڑو تک اگست کرانتی کے سفر کی یہ منزل ہوگی ایسا تو آزادی کے متوالوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448878 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.