افغانستان پر طالبان کا حیران کن قبضہ ۰۰۰ ملا عبدالغنی برادر ملک کے سربراہ۰۰۰؟

یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ افغانستان میں طالبان شرعی قوانین کے تحت ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کا بہت جلد اعلان کرنے والے ہیں۔ بیس سال قبل امریکہ نے القاعدہ کے رہنمااور افغان صدرملا محمد عمر حکومت کے مہمان اسامہ بن لادن کو ورلڈ ٹریڈ سنٹرکا ذمہ قرار دے کرانہیں حاصل کرنے کے لئے، افغانستان پر اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ خطرناک حملے کرتے ہوئے طالبان حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔ امریکہ 20سال کے عرصے میں کروڑوں ڈالرز کے ساتھ ساتھ ہزاروں انسانی جانوں کو گنوانے کے بعد اپنی ناکامی کو دیکھتے ہوئے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن نے مصلحت پسندی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سابقہ امریکی صدور کے فیصلوں سے ہٹ کر اور امریکی معیشت کی خستہ حالی اور جانی نقصانات کو مزید برداشت کرنے کے بجائے اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے میں بہتری محسوس کی اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے اس فیصلہ پر ذرا برابر بھی افسوس نہیں ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی ہو کہ امریکی صدر جوبائیڈن یا پھر طالبان۰۰۰ امریکی صدرجوبائیڈن کایہ فیصلہ امریکی افواج کا انخلاء ، کابل سے اشرف غنی کابغیر مزاحمت کے خاموشی کے ساتھ نکل جانا اور پھر افغان افواج کا بغیر مقابلے کے طالبان کو دارالحکومت کابل اور تمام صوبوں کے دارالحکومتوں و اہم شہروں میں داخلے کے لئے خاموشی اختیار کرنا افغان عوام کیلئے امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔ بے شک طالبان نے 20سال تک امریکی قبضہ کے خلاف اپنے ملک میں کئی ایک دہشت گردانہ حملوں میں ملوث رہے ہیں یا پھر انکے نام پر دہشت گرد فائدہ اٹھاتے رہے ہونگے۰۰۰ لیکن بیس سال کے عرصہ میں طالبان نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور انہیں اپنی ناکامیوں اور خامیوں کا احساس ہوچکا ہے۔ شرعی احکامات کا نفاذ افغان عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہر فردِ واحد کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۰۰۰ امریکہ اور نیٹو افواج نے بیس سال کے دوران افغانستان میں امن و سلامتی کو قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکہ کا افغانستان پربیس سالہ قبضہ ناکام ثابت ہوا۔ انتہائی کشیدہ اور دہشت گردانہ حالات کے بیچ افغان شہریوں نے امریکہ اور نیٹو ممالک کی افواج کو اپنا مسیحا سمجھا تھا لیکن امریکہ اور نیٹو افواج نے بیس سال کے دوران جن حالات سے دوچار ہوئے اور ملک میں امن و سلامتی کو قائم کرنے میں ناکام رہے اور مستقبل میں بھی انہیں ناکامی اور مایوسی دور دور تک دکھائی دینے لگی تو پھر ایک مضبوط فیصلہ کے ذریعہ امریکی صدرجوبائیڈن نے افغانستان سے اپنی افواج کو نکالنے میں بھی عافیت سمجھی اور یہ فیصلہ افغانستان کے لئے فائدہ مند دکھائی دے رہاہے۔ اگر طالبان ماضی کو مدّنظر رکھ کر مستقبل میں اعتدال پسندی اور مصلحت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان میں اپنے اقتدار کو مضبوط و مستحکم بنائیں گے تو یہ عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے لئے ایک مثالی اسلامی ملک کی حیثیت حاصل کرسکتا ہے۰۰۰طالبان قیادت نے ملک میں امن وسلامتی کیلئے ملک کے ہر شہری کو معاف کرنے کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند اقدام ہے ۰۰۰ اس سلسلہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ جو لوگ کابل اور افغانستان میں رہائش پذیر ہیں انہیں طالبان کی حکومت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم اقتدار کی پُر امن منتقلی کے متمنی ہیں اور ہماری حکومت میں لوگ اپنی معمول کی زندگیاں گزار سکیں گے، جیسی وہ پہلے گزار رہے تھے۔ انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ طالبان حکومت ایسے کسی بھی شخص سے انتقام نہیں لے گی جو کابل انتظامیہ یا غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ تمام سفارتخانے بدستور کام کرتے رہیں، سفارتکاروں یا دیگر لوگوں کو کسی طرح کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ تمام لوگوں کو اپنے کام اسی طرح جاری رکھنے چاہئیں جیسے وہ پہلے سے کرتے آرہے تھے‘‘۔طالبان ترجمان سہیل شاہین کے مطابق افغانستان میں ایک ایسی حکومت ہو جس میں تمام افغانوں کی نمائندگی ہو، انہوں نے کہا کہ صرف ملک کو آزاد کروانا ہی اہم نہیں بلکہ ملک کی معیشت کو چلانا اور لوگوں کیلئے ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنا بھی اہم ہے اور یہ سب طالبان کی ترجیحات میں ہے۔ بی بی سی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’طالبان افغانستان میں شرعی قوانین کو واپس لائیں گے، سہیل شاہین نے دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے نوے کی دہائی میں شائع ہونے والی کچھ رپورٹس زمینی حقائق کی درست عکاسی نہیں کرتی تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’مگر ہم نے سیکھا ہے۔ اگر نوے کی دہائی میں کچھ غلطیاں تھیں ہم انہیں نہیں دہرائیں گے۔ جہاں تک اسلامی قوانین کا تعلق ہے، اس پر یہ واضح ہیکہ افغان لوگ اسلامی قوانین چاہتے ہیں، مگر اگر ماضی میں لوگوں کے ساتھ بُرا رویہ روا رکھا گیا یا لوگوں کے ساتھ بُرا برتاؤ کیا گیا تو اس بار اسے روکا جائے گا اور اس کی اجازت نہیں ہوگی‘‘۔طالبان نے خواتین کے حقوق کے احترام کا بھی عندیہ دیا ہے ۰۰۰طالبان نے کابل کے شہریوں اور خواتین کو گذشتہ تین دنوں کے دوران یہ باور کرانے کی کوشش کی ہیکہ وہ تعلیمی سلسلہ جاری رکھیں، دفاتر کا رخ کریں اور بلاکسی خوف و خطر اپنی روزمرہ زندگی کا آغاز کریں۔طالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے کہا ہے کہ خواتین کو وہ تمام حقوق ملیں گے جو شریعت نے ان کو دیئے ہیں اور ان سے امتیازی سلوک نہیں ہوگا۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’سب گواہ ہیں کہ بیس سال کی جدوجہد کے بعد افغانستان کو آزاد کروایا۔ افغانستان آزاد ہوگیا ہے سب کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔ انہو ں نے بین الاقوامی برادری کو یقین دلایا کہ سفارت خانوں اور امدادی اداروں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ ذبیح اﷲ مجاہد نے یہ یقین بھی دلایا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیا جائے گا۔

طالبان کا دارالحکومت کابل پر قبضہ عالمی سطح پرسب کیلئے حیران کن ہے۔ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ طالبان اتنا جلد افغانستان پر بغیرکسی خون خرابے اور جبر و استبداد کے قبضہ کرلیں گے۰۰۰ اشرف غنی نے جس خاموشی سے صدارتی منصب چھوڑ کر افغانستان سے چلے گئے ہیں اس پر تنقید کی جارہی ہے لیکن یہ افغان عوام اور دیگر ممالک کے عوام کیلئے جو کابل میں رہائش پذیر تھے بہتر ثابت ہوا۰۰۰ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے ایک سطری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’امارات کی وزارت برائے خارجہ امور اور بین الاقوامی تعاون اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے صدر اشرف غنی اور انکے خاندان کو انسانی بنیادوں پر امارات میں خوش آمدید کہا ہے‘‘۔امارات پہنچنے کے بعد فیس بک پر جاری اپنے ایک پیغام میں اشرف غنی کا کہنا ہیکہ ’’اگر میں رہ جاتا تو افغانستان کے جمہوری صدر کو پھانسی پر ایک دفعہ پھر چڑھایا جاتا۔ مجھے مجبوری کے تحت افغانستان سے نکالا گیا تاکہ خونریزی اور کابل تباہی سے بچ جائے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ میں پرامن طریقے سے طالبان کو اقتدار منتقل کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے میری مرضی کے خلاف افغانستان سے نکالا گیا۔انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ حکومت سازی سے متعلق کام میں مصروف تھا کہ دوپہر کو اچانک میرے سیکیوریٹی اہلکار آئے اور مجھے وہاں سے نکالا، مجھے مجبوراؑ افغانستان سے نکالا گیا تاکہ خونریزی نہ ہوجائے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اشرف غنی کے خلاف گذشتہ دنوں الزامات لگائے گئے کہ وہ ایک ہیلی کاپٹر اور چار چار گاڑیاں بھر کر رقم لے گئے ہیں اس سلسلہ میں اشرف غنی خود کہتے ہیں ’’گذشتہ دنوں میں میرے خلاف بہت سے الزامات لگے کہ میں اپنے ساتھ رقم لے گیا ہوں، یہ الزامات مکمل طور پر جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’ اس قسم کے الزامات کو سختی سے رد کرتا ہوں، ’’میزبان ملک خالی ہاتھ آئے ہیں، آپ کسٹمز ڈپارٹمنٹ سے پوچھ سکتے ہیں‘‘۔’’اشرف غنی نے اپنی فوج پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی فوج پر فخر ہے، ہماری فوج نے شکست نہیں کھائی بلکہ اصل میں ہمیں شکست سیاست میں ہوئی، یہ ناکامی طالبان، ہماری حکومت اور بین الاقوامی شراکت داروں کی ناکامی تھی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں کے واقعات نے بتادیا کہ افغان امن چاہتے ہیں اور کابل ایک بہت بڑی افراتفری سے بچ گیا ہے۔ یہ اﷲ کا بہت بڑا احسان ہے۔ اشرف غنی نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ وہ اپنے ملک واپس جائیں گے ، ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بہت سے حکمران بوقت ضرورت ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس سے قبل اپنے ایک ٹوئٹ پیغام میں اشرف غنی نے لکھا کہ ’’عوام غیر یقینی مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہیں۔ طالبان کے لئے یہ اہم ہے کہ وہ تمام عوام کو، پورے ملک کو ، سماج کے ہر طبقے اور افغانستان کی خواتین کو یقین دلائیں اور ان کے دلوں کو جیتیں‘‘۔ اس طرح سنہ 2017میں اشرف غنی نے بی بی سی کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ ’’اس دنیا میں افغانستان کا صدر بننا سب سے مشکل کام ہے ، یہاں مسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اور اس میں سب سے بڑا چیلنج سیکیوریٹی ہے‘‘۔ 2014اور پھر 2019کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے اشرف غنی جس طرح ملک کو طالبان کے حوالے کر گئے ہیں اس سلسلہ میں انکا ایک آرٹیکل جو 4؍ مئی 2021کو فارن افیئز ڈاٹ کام میں لکھا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ اشرف غنی لکھتے ہیں’’میری حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لئے تیار ہے، اگر طالبان کو امن قبول ہے تو میں اپنا دورِاقتدار جلد ختم کرنے کو تیار ہوں‘‘۔ اور جب 16؍ اگست کو انہوں نے افغانستان چھوڑ گئے تو اس کے بعد انہوں نے لکھا تھا کہ’’اگر میں رہتا تو بے شمار ہم وطن شہید ہوتے اور کابل شہر کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجہً 60 لاکھ کے شہر میں ایک بڑے انسانی المیے کی صورت میں رونما ہوتا۔ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ وہ مجھے ہٹانے کے لئے کابل اور کابل کے لوگوں پر حملے کرنے کے لئے تیار ہیں۔ خونریزی کے سیلاب سے بچنے کے لئے میں نے بہتر سمجھا کہ باہر چلا جاؤں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’’طالبان نے تلوار اور بندوق کی جنگ جیت لی ہے اور اب وہ اہل وطن کی جان و مال اورعزت کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن انہوں نے لوگوں کے دل نہیں جیتے۔ صرف طاقت نے تاریخ میں کبھی کسی کو جواز حکمرانی اور قانونی حیثیت نہیں دی اور نہ دے گی‘‘ ۔افغان صدر کا مزید کہنا تھا کہ ‘اب طالبان کو ایک نئے تاریخی امتحان کا سامنا ہے وہ یا تو افغانستان کا نام اور وقار برقرار رکھیں گے یا دیگر جگہوں اور نیٹ ورکس کو ترجیح دیں گے۔ بہت سے لوگ اور بہت سے طبقات خوفزدہ اور مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔ طالبان کیلئے ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے تمام لوگوں، قبائل، مختلف طبقات، بہنوں اور خواتین کو یقین دلائیں اور قانونی حیثیت حاصل کرنے اور لوگوں کے دل جیتنے کیلئے ایک واضح منصوبہ بنائیں اور اسے عوام کے ساتھ شیئر کریں۔ میں ہمیشہ اپنے لوگوں کی خدمت کرتا رہوں گا۔ مزید بہت سی باتیں مستقبل کے لئے چھوڑ رہا ہوں۔‘‘خیر اشرف غنی اور انکا خاندان ان دنوں متحدہ عرب امارات میں قیام پذیر ہے۔

افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے خواتین کے حجاب سے متلعق وضاحت کی کہ خواتین کو مکمل برقعہ پہننے کیلئے نہیں کہا جائے گا لیکن حجاب پہننا ضروری ہوگا، انہو ں نے کہا کہ برقعہ صرف حجاب نہیں ہے، حجاب کی مختلف اقسام ہیں جو برقعہ تک محدود نہیں ہیں، حجاب خواتین کی سیکیوریٹی کیلئے ہوگا۔ انہوں نے طالبان سے کم عمر لڑکیوں کی زبردستی شادی کی خبروں کو پروپیگنڈا قرار دیا۔ انکا کہنا ہیکہ یہ تمام دعوے کہ افغانستان کی اسلامی امارت لوگوں کو اپنی کم عمر لڑکیوں کی شادی مجاہدین سے کرانے پر مجبور کرتی ہے یہ سراسر غلط ہے۔ اسے انہوں نے زہریلا پروپیگنڈا قرار دیا۔سہیل شاہین نے ہندوستان سمیت کسی کے نامکمل پراجیکٹ یا انفرااسٹرکچر کا کام ہے تو اسے مکمل کرنے کیلئے کہا ، انکا کہنا ہے کہ یہ منصوبے عوام کے لئے ہیں۔

سمجھا جارہا ہے کہ طالبان کے اہم رہنما ملا عبدالغنی برادر جن کا شمار ملامحمد عمر کے انتہائی اہم اور قریبی ساتھیوں اور طالبان تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ اقتدار کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوسکتے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان کی قیادت یعنی سربراہ (امیر المومنین) مولوی ہیبت اﷲ اخونزادہ کررہے ہیں بتایا جاتا ہیکہ مولوی ہیبت اﷲ اخونزادہ طالبان کے سابق چیف جسٹس ہیں، 2016سے سربراہ،سیاسی، مذہبی اور عسکری معاملات پر انہی کا حرفِ آخر ہوتا ہے۔ انکے نائب سراج الدین حقانی(حقانی نیٹ کے سربراہ)، دوسرے نائب ملا محمد یعقوب طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے صاحبزادے اور عسکری امور کے آپریشنل کمانڈر، جبکہ نائب سیاسی امور ملا عبدالغنی برادر جو طالبان کے شریک بانی اور دوحہ میں سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں ۔

سنہ 1994ء میں تحریک طالبان افغانستان ملا محمد عمر کی سربراہی میں وجود میں آئی تو اس وقت ملا عبدالغنی برادر اس تحریک کے نائب سربراہ کے طور پر سامنے آئے تھے۔ وہ نہ صرف ملا محمد عمر کے نائب تھے بلکہ جب تحریک طالبان نے افغانستان کے جنوبی اور مغربی صوبوں پر قبضہ لرلیا تو سب سے پہلے ملا عبدالغنی برادر کو ہی پہلی صوبہ نمروز اور بعد میں ایران سے ملحقہ ہرات کا گورنر نامزد کیا گیا تھا۔ملا برادر کو افغانستان کی مرکزی فوج کا ڈپٹی کمانڈر اور 1999افغان فوج کا سربراہ بننے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔ اس دوران انہو ں نے نائب وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ نومبر 2001میں طالبان حکومت کے خاتمے پر ملا عبدالغنی برادر نے موٹر سائیکل پر کابل سے نکل کر صرف اپنی بلکہ ملا محمد عمر کی جان بچانے میں اہم رول ادا کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دیگر اہم رہنماؤں سمیت قندھار سے دور پہاڑوں پر پہنچ کر کئی سال تک روپوش رہے۔ 2004اور 2009میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ملا عبدالغنی برادر سے رابطہ کرکے انہیں افغانستان میں قیام امن میں اہم کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی جس کی ملا برادر نے یقین دہانی کرائی تھی۔ لیکن فبروری 2010میں کراچی میں ان کو پاکستان تحقیقاتی اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔ انکی گرفتاری کے بعد امریکہ اسے ایک اہم پیشرفت قرار دیا تھا مگر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔حامد کرزئی کے بار بار مطالبات کے باوجود انکی رہائی عمل میں نہیں آئی لیکن سنہ 2018میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان مسئلے کے حل کے لئے سابق سفیر ڈاکٹر زلمے خلیل زاد کو نمائندہ خصوصی مقرر کیا تو انہو ں نے ستمبر اور اکٹوبر2018میں اسلام آباد اور کابل کا تفصیلی دورہ کے اور اس دوران انہوں نے دونوں ممالک میں قید بعض طالبان رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ پاکستانی حکومت نے 24؍ اکٹور 2018کو ملاعبدالغنی برادر کو رہا کردیا مگر وہ فبروری 2019تک پاکستان میں ہی رہے۔ فبروری 2019میں ملا عبدالغنی برادر پاکستان سے دوحہ چلے گئے اور وہاں پہنچنے کے بعد ان کو دوحہ کے سیاسی دفتر کا سربراہ بنایا گیا۔ سیاسی کمیشن کے سربراہ بننے کے بعد ملا عبدالغنی نے نہ صرف امریکہ کے خصوصی نمائندے ڈاکٹر خلیل زاد کے ساتھ مذاکرات کیے بلکہ قطر اور ماسکو میں افغانستان سے آنے والے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں بھی حصہ لیا۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کے لئے ہونے والے مذاکرات کے کئی ادوار میں ملاعبدالغنی برادر نے افغان طالبان کے وفد کی قیادت کی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ یکم؍ مارچ کو ہونے والے معاہدے پر امریکہ کی طرف سے زلمے خلیل زاد اور طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر امریکہ اور پاکستان سمیت دنیا کے پچاس ممالک کے وزرائے خارجہ اور حکومتی نمائندوں نے شرکت کی تھی جبکہ طالبان کا 31رکنی وفد بھی موجود تھا۔ اسی معاہدے کی روشنی میں امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج واپس بلالیا جس کے بعد طالبان نے اتنا جلد یعنی صرف تین ہفتوں کے دوران افغانستان کے مختلف صوبوں کے دارالحکومتوں اور پھر کابل پہنچ کر صدارتی محل سمیت تمام سرکاری اداروں کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ اب دیکھنا ہیکہ طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر ملا عبدالغنی برادر کا نام لیا جارہا ہے جس کا حتمی اعلان بہت جلد متوقع ہے۔

افغانستان کی قومی مصالحت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداﷲ عبداﷲ نے چہارشنبہ کی شپ خلیل الرحمان حقانی سمیت طالبان کے وفد سے ملاقات کی جہاں انہو ں نے افغانستان کے سرکاری موقف کو دہراتے ہوئے کہاکہ وہ ایک خود مختار اور متحد افغانستان کے خواہشمند ہیں جہاں انصاف کا بول بالا ہو۔ خلیل الرحمن حقانی نے اس موقع پر کہا کہ وہ کابل کے شہریوں کیلئے سیکیوریٹی کا پورا انتظام کرینگے اور ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی رہنماؤں کی مدد اور حمایت چاہتے ہیں تاکہ ملک بھر کے عوام کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

افغان جنگ کے نقصانات
امریکہ اور اس کے اتحادی کیلئے افغان جنگ ناکام ثابت ہوئی اور انہیں اندازے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اس سلسلہ میں بتایا جاتا ہیکہ امریکی یونیورسٹی ہارورڈ کے کینیڈی ا سکول اور براؤن یونیورسٹی کے منصوبے ’جنگ کی قیمت‘ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں 2 ہزار 448 امریکی فوجی جبکہ تین ہزار 846 امریکی کنٹریکٹر ہلاک ہوئے، جبکہ دیگر نیٹو ممالک کے ایک ہزار 144 اہلکار ہلاک ہوئے۔علاوہ ازیں افغان فوج اور پولیس کے 66 ہزار اہلکار ہلاک ہوئے، جبکہ جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد 42 ہزار 245 ہے۔ 51 ہزار 191 طالبان اور دیگر حکومت مخالف جنگجو ہلاک ہوئے۔ انہی 20 برسوں میں 444 امدادی کارکن اور 72 صحافی بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔امریکہ کے افغانستان پر قبضے اور طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں پچاس فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ جبکہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں نوجوان بچیوں کے پڑھ سکنے کی شرح بہتر ہو کر 37 فیصد ہو گئی ہے۔ اخراجات کے سلسلہ میں بتایاجاتا ہے کہ سال 2020 تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ نے افغانستان اور عراق میں جنگ کے اخراجات قرض کی رقم سے پورے کیے جو تقریباً دو کھرب ڈالر بنتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق سنہ 2050 تک اس قرض کی رقم پر سود کی مد میں امریکی حکومت 6 کھرب ڈالر سے زائد ادا کرے گی۔

اب دیکھنا ہیکہ افغان طالبان سربراہ ملاعبدالغنی برادر جو دوحہ قطر سے افغانستان کے شہر قندھار اور پھر وہاں سے کابل پہنچ چکے ہیں انہیں عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے منتخب کیا جاسکتا ہیہے۔ طالبان کا باضابطہ اقتدار پر فائز ہونے کے بعد افغانستان کے ساتھ عالمی سطح پر کس قسم کے ردّعمل کا اظہار ہوتا ہے یہ مستقبل قریب میں معلوم ہوجائے گا۔ ویسے روس، چین، پاکستان اور ترکی اپنے افغانستان میں موجود سفارت خانوں کو قائم رکھنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ ہندوستان نے افغان عوام کے لئے افغانستان کی تعمیر و ترقی کیلئے کروڑوں روپیے کے پراجکٹس شروع ہیں ۔ طالبان کو چاہیے کہ وہ ہندوستانی حکومت کے ساتھ سفارتی سطح پر دوستانہ ماحول میں بات چیت کریں تاکہ ان پراجکٹس کی جو افغانستان کی خوشحالی کیلئے ثمر آور ثابت ہونگے کا سلسلہ جاری رہے۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210243 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.