تماشا

 چند روزسے سا نحہ مینار پاکستان کا خوب چر چہ ہو رہا ہے ۔ شایدیہ آپ کے لیے حیرانگی کی بات ہو۔کیونکہ ایسی جگہ پر اس واقعہ کا پیش آنا جہاں قراردارپاکستان منظور ہوئی ہرشخص کی سمجھ سے باہر ہے ۔لیکن مینار پا کستان پر اس سانحہ کا ہونا معمول کی بات ہے۔ میری رہائش اس جگہ سے چندمنت کی دوری پر ہے۔ اس لیے اکثر دوست احباب کے ساتھ کم عمری سے ہی سیروتفریع کے لیے اس جگہ آناجانالگا رہتا ہے۔ ایسے کئی واقعات نظرسے گزرتے رہتے ہیں۔بلکہ پاکستان کے ہر پارک کی یہی صورت حال ہے۔کسی نے ان پر آواز بلند کر نے کی ہمت نہ کی اور حکومت نے بھی اس پر کبھی دھیان نہ دیا۔ جو آج مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے ہیں ۔اس کی ایک وجہ لوگوں کا حفاظتی اداروں پر عدم اعتماد اور خاندان کی رسوائی کا خوف ہے۔

۴۱ اگست کو جو تماشا مینار پا کستان پر لگایاگیا۔اس کی تلخ حقیقت بچوں کی تر بیت میں کمی اور پرو پیگینڈا ہے ۔جوغیرملکی اور بھارت کی فلموں کے ذریعہ پاکستان میں کیا گیا۔ جس کی مدد سے مسلمانوں کی نوجوان نسل کو ان کے دین سے دور کر کے ٹیکنالوجی کے ذریعہ فحاشی کے لیے تیا رکیاگیا۔جو آج ہم سب کے سامنے ظاہرہے ہمارا معاشرہ انسانیت کی تمام حددیں عبور کر چکا ہے۔ ایسی ہی عائشہ اکرم کے واقعہ کی حقیقت ہے ۔ ۴۱ اگست سے پہلے ایک ویڈیو ٹک ٹاک پر پوسٹ کی جاتی ہے۔ جس میں محترمہ اپنی یاد گار آمد کے بارے میں اپنے فینزکو اطلاع دیتی ہے۔ کہ آپ سب بھی وہاں پہنچے تاکہ تما شالگا یا جا سکے۔ اس تما شے سے پہلے عائشہ کی ریمبو سے کافی بار ملاقات ہوئی ۔اس دوران دونوں نے مل کر کچھ ویڈیوز بنائی اور لوگو ں کے ساتھ شئیربھی کی۔ جن میں آپ کو کوئی مثبت پیغام نہیں ملے گے۔ ریمبو کے ساتھ ویڈیو بنا نے کا مقا صداپنے فینزکی تعداد میں اضافہ کرنا تھا ۔کیو نکہ ریمبو کے فینز کی تعداد عائشہ کے فینز سے زیادہ ہے ۔اب جب عائشہ اپنی ٹیم کے ہمراہ یاد گار پہنچتی ہے۔ تو وہاں اس کے اور ریمبو کے فینز پہلے سے ہی مو جود ہوتے ہیں۔دونوں آمد کے وقت فلم سٹارکے اندازمیں ہا تھ ہلتے ہیں۔ ان کے فینزآس پاس جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔جن میں صرف اوباش قسم کے لڑکے شامل ہوتے ہیں۔اس ہجوم میں ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں۔ جن سے اوباش لڑکے مزید فائد ہ اٹھاکر ان کو مزید ناساز بنا تے ہوئے لڑکی کے کپڑے تک پھاڑ دیتے ہیں۔اس کے بعددونو ں کے اکا ؤنٹ سے کچھ ویڈیوزہٹائی جاتی ہیں ساتھ ہی مقدمہ واپس لینے کی درخواست دائر کر دی جاتی ہے جن سے ان کی غلطی صاف ظاہر ہے ۔ اس روز ایک اور واقعہ جو رکشہ میں بیٹھی لڑکی کے سا تھ سڑک پر پیش آتاہے۔ دونو ں واقعات قوم کے لیے شرم ناک ہیں ۔ان مسائل کا حل خود ہر لڑکی کے پاس ہے اگر آپ اس بات کو سمجھ لے کہ حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:۔میرا جنازہ رات کے اندھیرے میں لے جانا ۔تاکہ کسی غیر محرم کی نظر مجھ پر نہ پڑے۔ تو یہ ان کی عزت وآبروکی حفاظت کے لیے کافی ہے ۔یہا ں پر کچھ عورتوں کو اپنی آزادی کا نظریہ یاد آجاتاہے کہ ہم بھی اس ملک کا حصہ ہے۔ اس ملک سے پہلے آپ دین کو سامنے رکھے جس کی خاطر اس وطن کو حا صل کیا گیا۔ جو عورت کو غیر محرم سے بات کرتے وقت آواز اونچی رکھنے کا حکم دیتا ہے تاکہ ان کے دل میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔تو پھر آپ کس منہ سے لوگوں کو ایک جگہ جمع ہو نے کی دعوت عام دیتی نظر آتی ہیں۔یہی اگر رکشہ میں بیٹھی لڑکی خود کو شریعت کے مطابق ڈھانپ کے باہر آتی شاید جو اس کے ساتھ ہوا نہ ہوتا۔کینیڈین ٹورسٹ روزی گیبریل اور پو لینڈسے ایوا ذوبیک نے تنہاپورے ملک کا سفر طے کیا لیکن کوئی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ لوگوں نے مفت کھانا اور رہائش فراہم کی یہ بات ہم سب کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ سب فحا شی ٹک ٹاک کی پیداوار ہے۔جس کو کبھی بند کر د یا جاتا ہے اور کچھ دن بعد اس کمپنی سے کمیشن کے طور پر بھاری معاو ضہ وصول کر کے دوبارہ بحال کر د یا جاتا ہے ۔ٹک ٹاک کی بجائے ان اکاؤنٹس کو بند کیا جائے جو اس قسم کی فحاشی کی وجہ بن رہے ہیں۔

معاشرے کے اصولوں کے مطابق مرد مرد رہتا ہے خواہ اس کی زندگی کی کتاب کے ہر ورق پر گنا ہوں کی سیاہی لپی ہو۔مگر وہ عورت جو صرف ایک مرتبہ جوانی کے بے پناہ جذبے کے زیر اثر یا کسی لا لچ میں آکر یا کسی مرد کی زبردستی کا شکار ہو کر ایک لمحے کے لیے اپنے راستے سے ہٹ جائے عورت نہیں رہتی۔اس کو معاشرے میں حقارت ونفرت کی نگاہو ں سے دیکھا جاتا ہے معاشرہ اس پر وہ تما م دروازے بند کردیتا ہے جو ایک سیاہ پیشہ مرد کے لیے کھلے رہتے ہیں۔

صرف عورت کے پردہ میں رہنے سے ان مسائل کا حل ممکن نہیں ۔اس کے ساتھ وہ تما م مرد جو عورت کو بری نگاہو ں سے دیکھتے اور اپنی خواہشا ت پوری کر نے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں ان کا انجام عبرت ناک ہونا بھی ضروری ہے۔ تاکہ آنا والی نسلیں اس سے سبق حا صل کرئے ۔ مرد کے لیے نگاہوں کی حفا ظت اتنی ہی ضروری ہے جیتنا عورت کے لیے پردہ اس لیے دونوں کے لیے لازم ہے کہ اپنی حد عبور نہ کرئے۔ذاتی مفاد کی خاطر اپنے ساتھ ملک کا نام بدنام کرنا ایک نا قا بل بر داشت عمل ہے عورت اور مرد دونوں ہی اس کی خلاف ورزی پر سزا کے حقدار ہیں کسی ایک کو قصوروار ٹھرانامعاشرے میں عدم اعتماد پیدا کرناہے۔ لہذا دونوں میں جوغلطی پر ہو اس کو سزا کا حق دار قرار دینا اور عمل کروانا ر یاست کی ذمہ داری ہے ۔

Sharjeel Malik
About the Author: Sharjeel Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.