ملاقات

عجیب دبدبہ ہے اس کی شخصیت میں، عجیب رعب ہے اس کی ذات کا، عجیب ڈر ہے اس کی ممکنہ آزادی کا، عجیب خوف ہے اس کے پھیلتے ہوئے نظریات کا، اس کے آزاد قدموں کی آہٹ نے کتنے شرپسندوں کی نیندیں حرام کر ڈالی ہے، ماہی بے آب سی تڑپ واضح ہے، کراچی سے لندن تک بےچینی اور مایوسی کی سی کیفیت ہے، اسکی آمد کی افواہ بھی خون خشک کیے دیتی ہےاور یہ خون آشام بھیڑیے انگاروں پر لوٹنے لگتے ہے اور ایسی ہذیانی کیفیت میں دھمکیاں اور گیدڑ بھبکیاں سوائے لاحاصل کوششوں کے کچھ نہیں، ان کا غصّہ اور جھنجھلاہٹ سمجھ سے بالاتر نہیں اور شاید بے جا بھی نہیں کیوں کہ برسوں کی محنت رائیگاں جاتی بھلا کس کو بھلی لگی ہے؟ طویل اور انتھک جدوجہد کی گئی اس کی کردار کشی کی، عرصہ طویل اس کو بدنام کیا گیا، بے سرو پا الزامات لگائے گئے، واہیات زبان استعمال کی گئی، بے بنیاد کیس بنائے جاتے رہے اور آمریت کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار کا وقتی سورج دیکھنے والے یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ لازوال اور امر ہو گئے لیکن قانون قدرت کو سمجھنے والے صبر سے کام لیتے رہے یہاں تک کہ ظلم کا سورج غروب ہوا اور جمہوریت کے عظیم سورج کی کرنوں نے آمریت کے اندھیروں کو فنا کرنا شروع کیا لیکن خلاف توقع مجبوری اور مصلحت میں لپٹی مفاہمانہ جمہوریت نے بھی ملک عظیم کے واحد سیاسی قیدی کے حوالے سے آنکھیں بند کیے رکھی،جھوٹے مقدمات بنتے گئے اور خون بہتا رہا لاشیں گرتی رہی اورجنازے اٹھتے گئے، اور آخرکار آستین کے سانپوں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہی عافیت جانی. وقت کی اکھاڑ پچھاڑ نے پھر اس کے دروازے پر لا کھڑا کیا اور ایک مبینہ ملاقات نے جیسے جھنجھوڑ کے رکھ دیا، اپنے قدموں پر سنبھلنا مشکل سا کر دیا اور بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح اس کی پیش قدمی کو روک دیا جائے چاہے اس کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کیا جائے لیکن اب کوئی حربہ کام نہیں آئے گا اور کوئی چالاکی نہیں چلے گی، تاریخ کروٹ لینے پر تیار ہے اور تمہیں زمین بوس ہونے سے کوئی نہیں بچا پائے گا بھلے تم کتنی ہی طاقت و وسائل رکھتے ہو. عدالتیں تو کب کی دباؤ سے آزاد ہو گئی اور جلد ہی یہ نام نہاد آزاد میڈیا بھی تمہارا ساتھ دینے پر ندامت کا اظہار کرتا نظر آئے گا لیکن اس کو تو کسی سے بھی امید نہیں، وہ کل بھی جانتا تھا کہ یہ سیاسی تاجر اس کو بس اپنے مقصد اور مطلب کے لیے یاد کرتے ہے، اور صحافت کے اصولوں کا پرچار کرنے والا منافق میڈیا تو بس کمائی کا ذریعہ ہے ورنہ جاری صحافت کے طرز عمل پر وہ انگلی نہ اٹھاتا، اس کا اعتراض صحیح ہے کہ میڈیا جانبدار ہے ورنہ کسی مافیا نما نام نہاد سیاسی جماعت کے کارکن کی ہلاکت کی شہ سرخی لگانے والا میڈیا کسی پرامن اور ریاستی تشدّد کا مسلسل نشانہ بننے والی جماعت کے وائس چیرمین کی شہادت کو آخری صفحے کی ٢ کالمی خبر نہ بناتا. سیاستدانوں کو سیاست سمجھاتے یہ صحافی اس کے حق سیاست کو بھی تو تسلیم کرتے اور اس کے بنیادی، آئینی اور قانونی حق سیاست کے مسلسل غضب پر صدائے احتجاج تو بلند کرتے لیکن وہ اصول کی بات کرتا ہے جس سے مال و زر کی مہک نہیں آتی اور اصولوں کو کب کا بیچ کھانے والے اب کہاں اس مشکل راہ پر چل پائے گے جس کا وہ برسوں سے مسافر ہے. لیکن وہ مایوس نہیں، اس کو مایوس ہونا ہی کہاں آتا ہے کہ امید اور صبر اس کے ہتھیار ہے جن سے کام لینا وہ بخوبی جانتا ہے، اس کے دشمنوں پر اس کی ہیبت کچھ اس طرح طاری ہے کہ بس ان کی نظریں اس آفاقی ذوالفقار کو تلاش کرتی پھر رہی ہین جو کسی بھی لمحے ان کے ظلم کا حساب پورا کردے گی اور پھر یہ یقیناً ١٩٩٢ نہیں کہ ایجینسیوں اور استعمار کی بدولت تم اپنے لوگوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کے فرار ہو جاؤ گے، اب کی بار تمہیں ہر شہید کے خون کا حساب دینا ہوگا اور ہر شہید کے خون کا بدلہ لیا جائے گا چاہے تم جہاں مرضی جا چھپو لیکن تمہیں تمہاری کمین گاہوں سے نکال لیا جائے گا اور ہر ظلم کی باز پرس کی جائے گی اور انشاللہ امن بھی ہوگا اور ریاست کا مقصد اور تعریف بھی مکمل ہوگی اور آفاق احمد کی قوم کو شناخت بھی ملے گی.

زیدی سید قمقام علی
Syed Qumqam Ali Zaidi
About the Author: Syed Qumqam Ali Zaidi Read More Articles by Syed Qumqam Ali Zaidi: 8 Articles with 5806 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.