قیام پاکستان سے استحکام پاکستان تک

 لو جی بن گیا پاکستان سال بعد پرچم کو سلامی دی سال کے بعد پرچم کشائی ھوئی سال کے بعد جشن آزادی منایا گیا گلی گلی شہر شہر قریہ قریہ کو بہ کو جو بہ جو جشن آزادی کے رنگ بکھرے پڑے ہیں بازار کی رونقیں دوبالا ھوئی پرچم ہی پرچم ہر طرف چھوٹے بڑے بڑی چھوٹی عمارتوں پر گاڑیوں پر موڑ سائیکل پر سائیکل پر کپڑوں پر بچوں کے چہروں پر غباروں پر سروں پر باندھی پٹیوں پر بازو کلائیوں پر چھتوں پر درختوں پر فضاؤں میں سر بلند پرچم قوم کا ہر فرد پرچم کی محبت میں سرشار چودہ اگست کی رات تک سرشار اور پھر رات گئی بات گئی رات ڈھلتے ہی جذبات سرد احساسات کمزور وہی پرچم جسے تا قیامت سر بلند ھونا تھا سر بلند رکھنا تھا جشن آزادی اب کے برس پوری ھوئی پرچم عظیم پرچم ھاں وہی پرچم جس کی حرمت پہ وطن عزیز کی غیور فاطمہ سڑک پر گرے پرچم کو اٹھاتے اٹھاتے جان کی بازی ھار کر پرچم کی جیت کو محبت کو حرمت کو زندگی دے جاتی ھے آج آزادی کا تر نوالہ نگلنے والے ایک دن جشن آزادی کی رسم ادا کرنے والے صبح گہری نیند سو گئے ہیں اور کہیں پرچم سرنگوں ھے کہیں ٹکڑوں میں بٹ چکا کہیں ھاے دل کٹتا ھے قلم لہو اگلتا ھے لفظ شرمندگی سے چپ سادھ لیتے ہیں حرف سر جھکائے ہوئے ہیں ھاں میرے عظیم وطن کا عظیم پرچم خشک پتوں کی طرح بے توقیری کی نذر ھوا کتنے کل حب الوطنی کا دعویٰ کرنے والے کھلی آنکھوں سے پرچم کو پاؤں تلے روند کر کتنے طوفانوں سے ٹکرائیے کتنے آگ کے دریا پار کئے اور کیسے پرچم کی حرمت عزت اور اہمیت اس ماں سے اس بھائی سے اس بیٹے پوچھ جس کو جوان بیٹا بھائی باپ کے بدلے پرچم میں لپیٹی صرف اس کی وردی ملتی ھے جشن آزادی پہ سبز رنگ چوڑیاں کھنکتی ہوئی اس سہاگن کی کراہ تڑپ کو کون محسوس کرے گا سبز سفید آنچل لہراتے ہوئے کبھی عفت مآب بیٹی کی عصمت دری سے سفید پڑتی لاش کا سوچا ضعیف والدین کے کمزور کندھوں پر جوان لاشے بدمست جوانی کی مد ھوشی میں بازاروں میں باجے بجا کر ہلہ گلہ انڈین گانوں کے ساز پر تھرکنے آزادی کی نعمت پر شکر گزار ی کا حق پورا ھوا روز محشر جان مال عزت و آبرو لوٹا کر پورا پورا خاندان آنکھوں کے سامنے ذبح ہونے کا دکھ اٹھا کر صرف وطن عزیز کی مٹی پر سجدہ ریز ھونے کی تمنا کٹے پھٹے وجود کا سامنا کیسے ھو گا بنا بنایا پاکستان مل گیا سجا سجایا نعمتوں سے مالا مال کون جانے اس گلشن کی آبیاری میں کتنے شہداء کا لہو بویا گیا ھے تخم ریزی سے ثمر بار ھونے تک جتنی عرق ریزی ھوتی ھے اس سے کہیں زیادہ اس کی آبیاری ضروری ھے مشقت طلب ھے آنے والی نسلیں آزادی کا کیا تصور لے کر جوان ھوں گی پر چم رنگ میں رنگ جانا چوراہے پر ہلہ گلہ باجے تماشے آوارگی ایک دن رات کا جذبہ جنوں اور بس ختم ھوئی آزادی آزادی کی کہانی گودوں سے نوچ کے نیزوں میں پروے گئے بچے سہم ھوئے زبح ھوتے والدین کو پورے پورے خاندان کو وحشت زدہ بچے کون سنائے زخموں کی کہانیاں وہ سہنے والے درد بانٹنے والے درد کا ادراک دینے والے کھو گئے آزادی کا بیج بونے والے کھو گئے باغ رہ گیا باغباں کھو گئے باغ کے سارے رنگ پھیکے پڑ گئے گلشن تو ھے بہار گلش خزاں میں ڈھلنے لگی پھول تو ھے خوشبو آڑ گئی میرے بچوں باغ لگا دینا مشکل ھے تو اس باغ کی آبیاری مشکل تر بھی اور ضروری بھی اتنی دلخراش قربانیاں دینے والے آباء کو خراج تحسین پیش کرنے کا انداز واطوار کیسے کیونکر میری نسل نو میں سیرایت کر گیا وطن عزیز کا قیام کوئی جغرافیائی حدود اربعہ کا حصول نہ تھا یہ تو ریاست مدینہ کی تعبیر تھی یہ تو دنیا کے نقشے پر مدینہ الثانی تھا یہ داستان آج کی تو نہ تھی یہ تو اس مقدس نظریہ کی آبیاری کا مشن لیے ہجرت حبشہ معرکہ بدر کی قربانیوں کا ثمر تھی یہ رشتہ اس بہتے لہو سے جڑا ہوا تھا پاکستان کا مطلب پاکستان کے نام کی نسبت پرچم کے پوتر رنگوں سے منعکس ہوتی روشنی کرن کرن پاکستان کے ترانے کے پر نور حرفوں میں جگمگاتا یوں ہی تھوڑی تھا یہ سب رب عظیم کے عظیم رازوں میں ایک راز ھے سال کے عظیم ایام کی عظیم رات کا تحفہ خاص ۔ جان لو خاص قوم تحفہ خاص قوم کے لیے ھوتا ھے جو قوم رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام تھا ۔ سوچنا ھو گا یہ خاص تھا تو قوم کو خصوصی زمہ داری اٹھانی تھی ؟ ہمیں کیا کرنا تھا ؟ کیا کیا ؟ کیا کھو چکے ؟ کیا بچانا ھے ؟اور کیسے بچایا جائے؟ وقت آزادی دشمن نے جو جال بنا وہ تو بتدریح اپنے مراحل طے کرتا ہوا منزل کے قریب ھوتا نظر آتا ھے مگر جو خواب قائد واقبال رح نے سجائے میر جعفر میر صادق نے آج تک شرمندہ تعبیر نہ ھونے دیا۔ قیام پاکستان جس نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا اسی نظریہ کو تقویت دینے کی ضرورت ھے قوم کی روح میں نظریہ کو راسخُ کرنا ھے اسی نظریہ سے اس کھیتی کی آبیاری کرنا ھے میرے وطن کا نظریہ پاک سر زمین پاک تو پھر میرے وطن میں بےحیائی بےحسی بےغیرتئ بے حمیتی کی غلاظت جو غلیظ دشمن نے پھیلائی ھے تو دشمن کی چالوں کو شیطان کے جال سمجھنا ھے نوجوان قوم کا سرمایہ قوت طاقت اور مستقبل ھوتے ہیں میرے جوانو کی طاقت قوت کو بےحیائی کا عفریت نگل گیا بےحیائی کی غلاظت نے عریانیت کی ساری حدیں پار کردیں ہر رستہ زنا کا ہر محاذ زنا کا اور زنا کا زہر جوانو کی روحانی وجسمانی طاقت کو غیرت کو حمیت کو تباہ کر کے رکھ دیتا ھے یہی دشمن کا ہدفِ ھے قوم کی قوت کو کمزور کرنا ۔
لہو ولعب کا بازار گرم ھے بے روزگاری مفت خوری پناہ گاہیں بنا کر عوام کو باغی آوارہ اور لنگر خانے کھول کر قوم کو منگتا بنا دیا تعلیمی اداروں اور میڈیا پر اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا بحثیت قوم کی کوئی تربیت ہی نہیں قوموں کی تباہی نظام تعلیم کی تباہی زبان کی تبدیلی بلکہ زبان کا رسم الخط بدل دینا ۔ قوم کے نظریہ کو سبوتاژ کرنا نسل نو کے دل ودماغ سے کھرچ دینا تہذیب و تمدن کو بگاڑ دیا معیشت پر کنٹرول منہگائی کا عذاب مسلط کر دیا دین کو متنازع بنایا قوم کو فرقوں میں تقسیم کیا
یہ اس پاکستان کی تصویر جس میں شہداء کے لہو نے رنگ بھرے تھے آزادی کی داستان ہمارے آباء اپنے جگر گوشے قربان کر کے رقم کی تھی چین کی بانسری بجانے والے کیا سمجھے اس کی قیمت ۔ یہ قیمتی نعمت بطور امانت تھی اس امانت کو ہم سنبھال رکھنا تھا ۔ ہم ہی خائن ھوئے اس امانت کے ۔ شیطانی جال طاغوتی چال اتنے زیرک ہیں ان کا طلسم توڑنا مشکل ضرور ھے مگر ناممکن نہیں۔ ہمیں آج اور ابھی اٹھنا ھے جشن آزادی ایک دن وقتی جذبوں کا طوفان بدتمیزی کا نام نہیں ہمیں ہی اس امانت کی حفاظت کرنی ھے چودہ اگست 1947 کو جو چمن جو گلشن جو گلستان آزادی کے بیج بونے تھے اب ہی تو اس نظریے کو ایمان کا حمیت کا پانی دینا ھے جہد مسلسل ۔یقین کامل ۔ امید ہمت استقامت عزم اعتماد کی کھاد ڈالنی ھے۔ اس گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ھے تو اب ہی میدان عمل میں اترنا ھے۔ اے میرے وطن کے لوگو۔ ہماری نسلیں ہی ہمارا سرمایہ ہیں ہماری طاقت ہمارا مستقبل خدا کے لیے اپنی نسلیں بچا لیں۔ اپنے فرائض جانو اس بار عظیم اس عظیم امانت اس عظیم نعمت کی قدر جانیں ۔ اپنی نسل نو کو اصل حقائق اصل دشمن اصل دشمن کے اہداف سے آگاہ کیجئے ۔ تاریخ سے رشتہ مضبوط عزائم بلند رکھیں ۔نظریہ کی آبیاری کے لیے قرآن وسنت کو نظام شریعت کو نظام زندگی بنائیں ۔گھر کی اکائی سے ایوانوں تک۔معاشرت سے معیشت تک ۔سیاست سے عدالت تک ۔اللہ کے نام پر حاصل کی گئی سرزمین پر اللّٰہ کے قانون کا نفاذ بس ۔۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ھے امید واثق ھے کہ یہاں ہی سے وہ قافلہ تیار ھو گا ان شاءاللہ اللّٰہ کی رحمت سے جو ایک بار پھر اسلام کا پرچم پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا یاد رکھیں اسلام نے غالب آ کر رھنا تاریخ نے بس یہی رقم کرتا ھے کس نے کتنا حصہ ڈالا ۔اللہ رب العزت سے دعا ھے کہ پاکستان تاقیامت سلامت رھے ازل سے ابد تک جو بھی جیسے بھی جتنا بھی اس راہ کا مسافر ھوا اللّٰہ اس کی مسافرت قبول فرمائے ان شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسین ان قبریں جنت کے باغات ھوں درجات بلند ھوں اللّٰہ میری قوم کی نسل نو کا ایمان وحیا بچا لے پاکستان اور اسلام ہمیشہ سر بلند ھو آمین ثم آمین مسرت جبیں لاہور

 

Mussarat Jabeen
About the Author: Mussarat Jabeen Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.