زراعت پاکستان کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی
حیثیت رکھتی ہے، اس لئے زرعی شعبے کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔ دنیا جدیدیت کی
طرف سفر کر رہی ہے اور ہم اب تک زراعت کے روایتی طریقوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے بیشتر کسان ابھی تک ہل چلانے کے لئے بیلوں کا استعمال کر رہے
ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک جدید ٹریکٹروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ملک
کی فصلوں کی پیداوار ایک حد تک بڑھنے کے بعد رک گئی ہے مگر افسوس اس بات پر
ہے اس بات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
حکومتی سطح پر زبانی کلامی زراعت کی ترقی کی باتیں ہورہی ہیں مگر اس معاملے
میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔ ملک میں جدید
ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے مشورے
دیئے جاتے ہیں لیکن ٹیکس بھی لگا دیا جاتا ہے۔ کسان پہلے ہی غریب ہیں مہنگی
ٹیکنالوجی کیسے خریدینگے؟ ان حالات میں کسانوں سے زیادہ پیداوار کی توقع
کیسے کی جا سکتی ہے۔ ہمیں کسانوں کی خوشی کا خیال رکھتے ہوئے کسانوں کو
سستی ٹیکنالوجی مہیا کرنی چاہیئے تاکہ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جا
سکے۔
حکومت ٹیکنالوجی کی اہمیت سے واقف ہے مگر نامعلوم وجوہات کہ بنا پر جدید
ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ نہیں دیا جارہا ہے۔ جدید زرعی
ٹیکنالوجی نہ
صرف پیداوار میں اضافہ کر سکتی ہے بلکہ اس سے ملکی خوشحالی میں اضافہ اور
پریشانیوں میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ہمیں زراعت کی روایات کو تبدیل کرنے کی
ضرورت ہے، اس سلسلے میں روایتی زرعی انداز کو ترک کرنا ہوگا۔
کسانوں میں خواندگی کی شدید کمی ہے،جس کی وجہ سے وہ جدید ٹیکنو لو جی سے
استفا دہ نہیں کرسکتے ہیں۔ جدید
ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے کسا نوں
کی باضابطہ تربیت سے زرعی شعبے کو تر قی دی جا سکتی ہے۔ ہم گندم، گنے،
چاول، کپاس اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں خاص مقام رکھتے ہیں، اس مقام کو
برقرار رکھنے اور بیرونی زرعی منڈیوں کواپنے قابو میں کرنے کے لئے مزید
پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے جو صرف جدید
ٹیکنالوجی کے ذریعے حاصل کی جاسکتی
ہے۔
ملک کے کل اسی ملین ہیکڑ ز رقبے میں سے صرف اکیس ملین ہیکڑ رقبہ قابل کاشت
ہے، زرعی زمین کا ایک بڑا حصہ غیر زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہاہے۔ ایک
اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ تقریباًپانچ سو ایکڑ زرعی زمین آبادیوں کی
وسعت اور بہت سی دیگر غیر زرعی سرگرمیوں کے لئے استعمال میں لائی جارہی ہے۔
زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے، کھارے پانی کے بڑھنے، نیز ساحلی اور پہاڑی
علاقوں میں زمین کے کٹائو جیسے مسائل زرعی رقبے کو مزید کم کر رہے ہیں۔ اگر
یہی مسائل برقراررہے تو ملکی زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
جدید ٹیکنالوجی نہ صرف کم رقبے میں زیادہ پیداوار دے سکتی ہے بلکہ ایسے
علاقے جہاں کی زمین کاشتکاری کے قابل نہیں اس کو بھی کاشت کے قابل بناتی
ہے۔ ہم جدید زرعی
ٹیکنالوجی کو ملک میں فروغ دیتے ہوئے سر سبز انقلاب کا
خواب ممکن کر سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے جدید
ٹیکنالوجی کی دستیابی کے باوجود ہمارے ہاں چھوٹا کاشتکار
مختلف مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے ترقی پسند کاشتکار کے مقابلے میں
پیداوار کا گندم میں فرق ترتالیس عشاریہ پانچ فیصد اور کپاس میں تیس عشاریہ
آٹھ فیصد دیکھنے میں آتا ہے اس خلیج کو پورا کرنے کے لئے زرعی
ٹیکنالوجی کی
مدد لینی چاہئے۔
کھاداور پانی کا ضرورت سے زائد استعمال نہ صرف زیاں ہے بلکہ اس کے باعث
پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ جدید
ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنی
کاشتکاری لاگت اور پیداواریت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ آبپاشی کے جدید طریقے
ڈرپ ایری گیشن سے پانی کے چھڑکاؤ جیسے روایتی طریقوں کی نسبت چالیس فیصد کم
پانی استعمال ہوتا ہے۔ اس سسٹم کے تحت طویل دورانیے تک پانی کی کم مقدار کا
استعمال فصلوں کی افزائش کے لئے نہایت فائدہ مند ہے۔ اس سسٹم میں پانی
مناسب طریقے سے استعمال ہوتا ہے جس سے وہ اچھی طرح فصلوں کی جڑوں تک پہنچ
جاتاہے اور اس طرح کم پانی کے استعمال کے ساتھ ساتھ زمین کا کٹاؤ بھی نہیں
ہوتا۔ اس کے علاوہ فصلوں میں گھاس اور دیگر جڑی بوٹیوں کو پانی نہ ملنے سے
ان کی نشوونما نہیں ہوتی۔ فصلوں کی بعض بیماریاں زیادہ مرطوب ہونے سے
پھیلتی ہیں لیکن یہ نظام اس طرح کی بیماریوں کا معاون نہیں ہے۔ کسانوں کے
لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈرپ ایری گیشن سسٹم لگانے پر لاگت بھی کم آتی
ہے۔
گزشتہ پچیس سالوں میں دنیا کے بہت سے ممالک نے بائیو
ٹیکنالوجی،
ایگروکیمیکلز کے استعمال اور بیجوں کی نئی اقسام کاشت کر کے فی ایکڑ زرعی
پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے بارہ ترقی
پذیر ممالک کے تقریباً گیارہ ملین چھوٹے کاشتکار بائیو
ٹیکنالوجی کا
استعمال کر رہے ہیں اور اس
ٹیکنالوجی سے پیداوار میں اضافہ کر رہے ہیں۔
1980ءسے اب تک پاکستانی زرعی شعبے میں جدید
ٹیکنالوجی کی بدولت گندم کی
پیداوار میں تین اعشاریہ تین فیصد، چاول کی پیداوار میں تین، کپاس کی
پیداوار میں تین جبکہ گنے کی پیداوار میں ایک اعشاریہ فیصد اضافہ حاصل
کرچکا ہے۔ جدید دور میں فصلوں کی کٹائی اور بیج بونے کے لئے تھریشر اور
ہارویسٹر کا استعمال عام ہو رہا ہے، ہمارے ملک میں بھی ایسی تمام
ٹیکنالوجی
عام ہونی چاہیئے۔
پاکستان میں زرعی ترقی، ملکی خوشحالی اور خود اعتمادی کے لئے زرعی
ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں انگنت سرکاری
و نیم سرکاری ادارے اور تحقیقی مراکز زرعی ترقی کے لئے کام کر رہے ہیں جو
کہ ملک میں زرعی
ٹیکنالوجی کو فروغ دینے میں اہم کر دار ادا کر سکتے ہیں،
بس ان کا فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ |