افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں "استحکام" ہی
وہ واحد راستہ ہے جس کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہوئے افغان عوام کو مشکلات سے
نجات دلائی جا سکتی ہے۔اس حوالے سے دنیا کی اہم طاقتوں کا کردار انتہائی
اہم ہے اور یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان اور چین دونوں افغانستان میں امن
و سلامتی کے حوالے سے تمام پلیٹ فارمز پر اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ روس نے
بھی حال ہی میں کہا کہ وہ افغانستان میں استحکام کی صورت میں امریکہ،چین
اور پاکستان کے ساتھ کابل میں مذاکرات کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
چین چونکہ نہ صرف ایک بڑی معاشی طاقت ہے بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل
کے مستقل رکن کی حیثیت سے اہم عالمی و علاقائی امور میں بھی چین کا کردار
نہایت اہم ہے ،پھر افغانستان کے پڑوسی ملک کے طور پر بھی چین چاہتا ہے کہ
افغان عوام کی خوشحالی اور وہاں تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کیا جائے۔
چین نے متعدد مواقع پر یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر
افغانستان میں استحکام کے فروغ کے لیے کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔
چین کا موقف ہے کہ مسئلہ افغانستان کے حل کو عالمی برادری کی مشترکہ شرکت
اور حمایت سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چین نے ہمیشہ افغان مسئلے پر متعلقہ
فریقوں کے ساتھ قریبی ہم آہنگی برقرار رکھی ہے اور نئی صورتحال کے تحت بھی
چین عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان
میں جلد ازجلد پائیدار استحکام کے حصول کے لیے آگے بڑھاجائے اور مشترکہ طور
پر افغانستان میں امن و استحکام کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے مدد فراہم کی
جائے۔
چین کی ان کاوشوں کو افغان حلقے بھی تسلیم کرتے ہیں اور ابھی حالیہ دنوں
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ طالبان
چین کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کے منتظر ہیں۔انہوں نے کہا کہ چین
ہمارے پڑوس میں ایک بہت اہم اور مضبوط ملک ہے اور ماضی میں چین کے ساتھ
ہمارے بہت مثبت اور اچھے تعلقات رہے ہیں۔ہم ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانا
چاہتے ہیں اور باہمی اعتماد کی سطح کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔مجاہد کے مطابق
چونکہ چین ایک تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے لہذا وہ اقتصادی شعبے میں
افغانستان کی مدد کر سکتا ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ وہ چینی سرمایہ کاری
اور برآمدات کی امید کر رہے ہیں۔یہی وہ توقعات ہیں جو افغان عوام کی چین سے
وابستہ ہیں۔
چین کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان کی تقدیر افغان عوام کے
ہاتھوں میں ہے اور کسی بھی بیرونی جمہوری ماڈل کو افغانستان میں لاگو کرنے
کی کوششیں ناکام ہوں گی۔ چین اور افغانستان کے درمیان دیرینہ دوستانہ
تعلقات بھی قائم ہیں ۔ چین نے ہمیشہ افغان خود مختاری اور علاقائی سالمیت
کا احترام کیا ہے اور افغان عوام کے ساتھ دوستانہ پالیسی پر عمل پیرا رہا
ہے ۔ طالبان قیادت بھی چین کو افغانستان کا قابل اعتماد دوست سمجھتی ہے اور
موجودہ صورتحال کے تناظر میں افغانستان اور چین کے درمیان دوستانہ تعلقات
کے فروغ پر آمادہ ہے۔ساتھ ہی وہ واضح پیغام دے چکے ہیں کہ کسی بھی طاقت کو
چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت
نہیں دی جائے گی، افغانستان میں چینی اداروں اور اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی
بنانے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں گے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ طالبان نے
چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ" تعاون کو افغانستان اور خطے کی ترقی اور خوشحالی کے
لیے سازگار قرار دیا ہے اور یہ امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان اس میں فعال
طور پر شرکت کرے گا ۔
دوسری جانب چین کی بھی یہ توقعات ہیں کہ افغانستان کی تمام جماعتیں اپنے
لوگوں کی خواہشات اور عالمی برادری کی عمومی توقعات پر عمل کریں گی ، ایک
کھلا اور جامع سیاسی ڈھانچہ بنائیں گی، ایک اعتدال پسند اور مستحکم قومی
اور خارجہ پالیسی کی پیروی کریں گی، مختلف دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات مکمل
طور پر منقطع کیے جائیں گے اور دنیا کے تمام ممالک بالخصوص پڑوسی ممالک کے
ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں گے۔
اس وقت افغانستان کی تاریخ ایک نیا باب رقم کر رہی ہے ، مشکلات اور امیدیں
ایک ساتھ ہیں۔ افغانستان کے مصیبت زدہ لوگ قومی امن اور تعمیر نو کے لیے
ایک نئے نقطہ آغاز کا استقبال کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی برادری بھی نئی
حکومت سازی کے لیے افغانستان کے اقدامات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ موجودہ
صورتحال کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری ایک ساتھ مل کر افغان عوام کی ترقی
اور خوشحالی کے لیے اقدامات کرے اور افغانستان میں تعمیر نو کے لیے اپنی
کوششوں میں تیزی لائے۔صرف اسی صورت میں ہی افغان عوام کی جانی و مالی
سلامتی اور اُن کے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔
|