افغانستان میں دو دہائیوں کے بعد ایک بار پھر طالبان بر
سر اقتدار آ گئے ہیں۔ امریکہ، نیٹو ممالک اور ان کے اتحادیوں کے تمام
اندازے آخر کار غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ دنیا کی تمام جدید ترین جنگی
ٹیکنالوجی اور حکمت عملی بھی کسی کام نہ آئی۔ بھارت کو افغانستان میں
چوکیدار بنانے کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے۔امریکہ نے اپنی محفوظ واپسی کے
لئے طالبان سے مذاکرات کئے۔ کبھی دوحہ اور کبھی ماسکو میں میز سجائے۔مگر
وقت نے ایک بار پھر تاریخ دوہرائی۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست کھا
کر راہ فرار اختیار کر نا پڑی۔امریکی جنرلز اپنے انخلاء کے بعد کابل میں
خانہ جنگی کی پیش گوئیاں کرتے رہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک
رپورٹ میں کہا کہ امریکیوں کو یہ یقین تھا کہ انہیں وقت کی آسائش میسر ہے ۔وہ
سمجھتے تھے کہ وقت ان پر مہربان ہے۔امریکی اور بھارتی کمانڈوز نے افغانوں
کو جنگی تربیت دی۔ تین لاکھ افغان آرمی تیار کی۔ انہیں جدید ترین اسلحہ سے
لیس کیا۔ پاکستان کی سرزمین پر دہشتگردی کے آپریشنز بھی کئے۔ افغان فوج کو
اہداف دیئے۔ مگران فوجی کمانڈروں نے افغان افواج کے لڑنے کے حوصلے کے بارے
میں درست اندازہ نہ لگایا اور صدر اشرف غنی پر بہت زیادہ اعتماد کیا جو
کابل کے سقوط کے بعد فرار ہونے میں سب سے آگے تھے ۔اب سابق صدر ٹرمپ ذمہ
دار سارا ملبہ جو بائیڈن پر ڈال رہے ہیں۔ صدر جو بائیڈن کی جانب سے امریکی
انخلا کے منصوبے کا اعلان کئے جانے کے 2 ہفتوں بعد قومی سلامتی کے اعلیٰ
عہدیداروں نے منصوبے کو حتمی شکل دی۔سیکریٹری دفاع لائڈ جے آسٹن 3، چیئرمین
جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک اے ملی اور وائٹ ہاؤس اور انٹیلی جنس
اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں نے اجلاس میں شرکت کی۔ سیکریٹری اسٹیٹ ٹونی
بلنکن ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شریک ہوئے۔
پینٹاگون عہدیدار اعلان کر رہے تھے کہ وہ صدر جوبائیڈن کی مقرر کردہ حتمی
تاریخ 11 ستمبر سے 2 ماہ قبل یعنی 4 جولائی تک افغانستان میں موجود ساڑھے 3
ہزار امریکی فوجیوں کو بحفاظت نکال لیں گے۔اس منصوبے کا مطلب بگرام ائیر
فیلڈ کو بند کرنا تھا جو افغانستان میں امریکی فوجی طاقت کا مرکز تھا۔اب یہ
کہا جا رہا ہے کہ امریکی سفارتکاروں نے جولائی کے وسط میں کابل پر طالبان
کے ممکنہ قبضے کا انتباہ بھیجا تھا۔امریکی وزارت خارجہ کے عہدیدارسمجھتے
تھے کہ وہ ساڑھے 6 سو اہلکاروں کی حفاظت میں بقیہ 14 سو سے زائد امریکیوں
کے ساتھ سفارتخانہ کھلا رکھیں گے۔کئی اجلاس ہوئے۔ انٹیلی جنس جائزے پیش
ہوئے۔یہ کہا گیا کہ افغان فورسز میں اتنی طاقت ہے کہ وہ طالبان کو ایک سے 2
سال تک روکے رکھ سکتی ہیں۔مگر سب جائزے خیالی تھے۔امریکیوں نے اپنے ہنگامی
انخلا کے منصوبے بھی بنائے تھے۔امریکی میڈیا سوال کرتا ہے کہ کسی بھی نے یہ
سوال اٹھایا، نہ سوچا کہ اگر طالبان کابل ایئرپورٹ تک کے راستوں پر قبضہ
کرلیتے ہیں تو امریکا کیا کرے گا۔پھر وہی ہوا جس پر غور نہ کیا گیا۔نیو
یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ سلسلہ وار غلط اندازے لگائے گئے۔ جو بائیڈن کے اس
حساب کتاب کی ناکامی ہوئی۔وہ امریکی فوجیوں کو نکالنے کے لئے بتدریج انخلا
نہ کر سکے۔ سفارتخانے اور انخلا ء کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس حکام کے 50 اجلاس
ہوئے۔ چند دنوں میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد تمام منصوبہ بندی تباہی
کو روکنے میں ناکام رہی۔
امریکی ، بھارتی اور دنیا بھر کے انٹلی جنس صدر جوبائیڈن کو مطمئن کر چکی
تھی کہ طالبان کا مکمل قبضہ ڈیڑھ سال سے پہلے نہیں ہوگا۔پینٹاگون میں ایک
اجلاس کے بعد جنرل مارک ملی نے ایک رپورٹرز کو بتایا کہ افغان فوجیوں کے
پاس مناسب تربیت، ہتھیار اور قیادت موجود ہے۔مگر طالبان نے ان کے مناسب
ہتھیاروں، تربیت اور کمانڈ وکنٹرول کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ طالبان ایک
بار پھر کابل پہنچ گئے۔ طالبان کی یہ جیت کشمیریوں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر
کے آزادی پسندوں کے لئے سبق آموز ہے۔ یہ داستان دلچسپ ہے کہ کس طرح بوریا
نشینوں نے ایک دنیا کو ناکوں چنے چبوائے۔ وہ کامیابی تک لڑتے رہے۔ انہوں نے
مطالبات کے لئے کوئی مظاہرہ نہ کیا، کوئی دھرنا نہ دیا۔ کوئی بھوک ہڑتال نہ
کی۔ اخباری بیانات جاری نہ کئے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی سے رجوع نہ کیا۔
انہوں نے اﷲ تعالیٰ پر یقین کیا۔ اپنے بازو آزمائے۔ قوت ایمانی دکھائی۔
مذاکرات کی بھیک نہ مانگی۔ ہڑتالیں نہ کیں۔پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ ایک بار
پھر غالب آ گئے۔ یہی اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
|