قول و فعل کا تضاد ہماری قیادت اپنی روش بدلے

کیاپاکستان کی سیاسی قیادت نے حقائق چھپانے اورجھوٹ بولنے کاتہیہ کررکھاہے یاان کے نزدیک” حقائق“ اور ”جھوٹ“ کی تعریف کچھ اورہے؟کیاہماری سیاسی قیادت صرف اورصرف اپنے ذاتی اوروقتی مفادات کی ہی نگہبان ہے یااس کے علاوہ انہیں کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا؟ایک عام پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اپنے ذہن میں اٹھنے والے ڈھیر سارے سوالات میں سے یہ دوسوال آج کیلئے منتخب کےے ہیں۔آئےے جائزہ لیتے ہیں کہ ان دوسوالات کی حقیقت کیاہے۔

وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضاگیلانی صاحب نے لاہور میں پریس کلب کے عہدیداران سے گفتگوکرتے ہوئے فرمایاہے کہ ”امریکہ کویس باس کہنے کے دن اب گزرگئے ،ماضی کی حکومت یس باس کہتی رہی ہم سے کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ ہم بھی امریکہ کو یس باس کہیں گے ۔انہوں نے کہاکہ ہم یس باس نہیں کہتے اسی لئے امریکہ اب بول رہاہے،مائیک مولن کے پاس سلیم شہزاد کے حوالے سے کوئی ثبوت ہے تووہ انہیں کمیشن کے سامنے پیش کریں۔“ دیکھنایہ ہے کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم صاحب کایہ تازہ فرمان کہاں تک حقائق پرمشتمل ہے ۔ان کایہ کہناکہ امریکہ کویس باس کہنے کے دن اب گزرگئے،یہ بات وضاحت طلب ہے کہ یس باس کہنے کے دن 2مئی کے بعد ختم ہوئے ہیں یااس سے پہلے۔ اگرغیرجانبداری کے ساتھ جائزہ لیاجائے تو بظاہر یس باس کہنے کے دنوں کی گنتی 2مئی کوپوری ہوئی، مگر ایبٹ آباد آپریشن کے فوری بعد بلکہ چند ہی لمحے بعدموصوف گیلانی صاحب نے امریکہ اورپوری قوم کومبار ک باد دی تھی ۔توکیا وہ مبارک بادی” یس باس“ کے زمرے میں نہیں آتی ؟یہ حقیقت سامنے کھڑی منہ چڑہارہی ہے ۔اب محترم وزیر اعظم صاحب ہی وضاحت کرسکتے ہیں کہ یس باس کہنے کی تاریخ انتہاکب تھی۔ انہوں نے کہاکہ ماضی کی حکومت یس باس کہتی رہی مگر ہم نہیں کہیں گے ۔اس سلسلے میں وضاحت طلب بات یہ ہے کہ ماضی سے مراد ماضی قریب ہے یاماضی بعید ؟ کیونکہ پچھلے ساڑھے تین سال سے ملک میں جناب گیلانی صاحب کی حکومت ہے اوراس سے پہلے کے ماضی کی حکومت کے کرتادھرتا چوہدری برادران اس حکومت میں بھی شامل ہیں ۔ توآپ وضاحت فرمادیجئے کہ کب کے ماضی کی حکومت یس باس کاکارنامہ سرانجام دیتی رہی ہے۔جواب آپ یہ کارنامہ سرانجام دینے سے انکاری ہیں۔اس سے ایک بات یہ بھی واضح ہے کہ یس باس کہناغلط کام تھا کیونکہ اگر امریکہ کویس باس کہنااچھااقدام ہوتاتوگیلانی صاحب یہ اچھاکام جاری رکھتے ۔مگر وہ ایسا کرنے سے انکار کررہے ہیں تواس سے ثابت ہواکہ یس باس کہنامعیوب اقدام تھا۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ یس باس کہنے کے غلط کام میں جولوگ اورحکومت ملوث رہی ان کے خلاف آپ نے کونسی تادیبی کاروائی کی ہے۔ایسے لوگوں کوجو ایک غلط کام کرتے رہے ہیںنشان عبرت بنادیاجاناچاہئے ۔مگر جناب آپ کی حکومت نے توانہیں سینے سے لگارکھاہے ۔پاکستانی عوام یہ کیسے مان جائیں کہ آپ یس باس نہ کہنے والی بات دل سے کر رہے ہیں۔بیان کی حد تک تویہ بات بالکل ٹھیک ہے مگر عملی طور پر معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ان کایہ کہناکہ ہم” یس باس “نہیں کہتے اسی لئے امریکہ اب بول رہاہے ۔اس فقرہ میں لفظ ”اب “نے کافی سارا کنفیوژن پیداکردیاہے۔اس کاایک مطلب تویہ ہے کہ ہم نے بھی اب ہی یس باس کہنے سے توبہ کی ہے اس لیے امریکہ اب بول رہاہے ۔اس کامعنی یہ ہواکہ اب تک ہم بھی یس باس کہتے رہے ہیں اوراب ہم نے یس باس کہنابند کردیاہے۔ توجناب ایک غلط کام جو اب تک آپ کی طرف سے سرانجام دیاجاتارہاہے اس پر آپ نے قوم سے معافی مانگی یانہیں۔اگرقوم سے معافی نہیںمانگی توآپ آئندہ ایساکوئی ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں؟ اگر معافی مانگنے کاارادہ ہے توکب تک اوراگرایک غلط کام کی وجہ سے قوم سے معافی مانگنے کاکوئی ارادہ نہیں توکیوں؟کیا پاکستانی قوم اتنااستحقاق نہیں رکھتی کہ اس کی حکومت کسی غلط کام کے ہوجانے پر قوم سے معافی مانگے؟انہوں نے کہاکہ مائیک مولن کے پاس سلیم شہزاد کے حوالے سے کوئی ثبوت ہے تووہ انہیں کمیشن کے سامنے پیش کریں۔واہ !ہمارے گیلانی صاحب نے کیاپتے کی بات کہی ۔وہ بات جو آج سے دس سال قبل 9/11کے بعد طالبان نے کہی تھی کہ اگرامریکہ کے پاس ثبوت ہیں توامریکہ ایسے تمام ثبوت امارات اسلامی افغانستان کی شرعی عدالت میں پیش کرے تاکہ اسامہ بن لادن کے خلاف کیس کاجائزہ لیاجاسکے۔ انہوں نے تویہ بھی کہاتھاکہ اگر اسامہ بن لادن یاالقاعدہ کے خلاف کیس ثابت ہوگیاتوانہیںشرعی سزا دی جائے گی ۔مگر فرعون وقت امریکہ طالبان کی یہ بات سمجھنے سے قاصر رہا۔حالانکہ ہمارے وزیراعظم صاحب کی نسبت طالبان راہنمادنیاکی نظر میں زیادہ معتبر اورسچے قرار دےے جاتے ہیں۔چاہے دنیاان کے خلاف ہے اورامریکی قیادت میں ان کے خلاف جنگ لڑرہی ہے مگر پھر بھی ساری دنیاطالبان کی حق گوئی اورسچائی سے واقف ہے ۔جسے یقین نہ آئے وہ حال ہی میں طالبان کی قید سے رہاہونے والے فرانسیسی باشندوں کے بیانات غور سے پڑھ لے ۔جنہوں نے واضح طورپر اعلان کیاہے کہ طالبان کے عام اہلکار بھی ان کے ساتھ اچھارویہ رکھتے تھے ۔نہ توقیدیوں کوگالی دیتے نہ ان پر تشدد کرتے اورنہ ہی انہیں بھوکارکھتے ۔بلکہ جو خود کھاتے وہی قیدیوں کوبھی کھلاتے تھے ۔جیسااخلاقی معیار طالبان کاہے،ایسا اخلاقی معیار توتہذیب یافتہ اقوام کے ہاں بھی نہیں ہے ۔وہ طالبان جنہیں دنیاپتھرکے زمانے کے لوگ گردانتی ہے وہ طالبان اخلاقی طور پر ساری دنیاپرحاوی ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ ایسی اخلاقی تربیت یافتہ قوم جسے اخلاقی اصولوں پرکاربند رہنے کیلئے اتناہی کافی ہے کہ ان کے امیر نے انہیںحکم دیاہے ۔حالانکہ ان کاامیر ہر وقت ان کے سرپر سوار نہیں مگر پھر بھی وہ امیر کی اطاعت اس حد تک کرتے ہیں کہ جوخود کھاتے ہیں وہی کھاناقیدیوں کوبھی کھلاتے ہیں۔ایسی اخلاقی جرات کامظاہرہ حالت جنگ میں کیاجارہاہے ۔امن کی حالت میں تواخلاقیات میں مزید بہتری ہوتی ہے۔ایسی قوم کی انصاف پسند بات توفرعون وقت کی سمجھ میں نہ آئی بلکہ اس نے ہٹ دھرمی کامظاہر ہ کرکے طاقت کااستعمال کیااورلاکھوں بے گناہ آگ وبارود کی نظر کردیے ان حالات میں ہمارے گیلانی صاحب اس فرعون وقت کوسلیم شہزاد کے قتل کے سلسلے میںتمام شواہد عدالتی کمیشن کے سامنے پیش کرنے کی تلقین کررہے ہیں ۔اس بیان کامقصد صرف پاکستانی قوم پررعب جماناہے یاکوئی اوربھی مقصد ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیاہمارے ایساکہہ دینے سے امریکہ اپنی حرکتوں سے بازآجائے گا،یاہمیں اپنے قول وفعل کاتضاد ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے؟
Aijaz Ahmed Qasmi
About the Author: Aijaz Ahmed Qasmi Read More Articles by Aijaz Ahmed Qasmi: 11 Articles with 7086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.