عالمی سطح پر ایسا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جو انسان کے تصور
خیال سے پرے ہو ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ مختلف تبدیلیاں ایسے وقت میں رونما
ہوتی ہیں جب حالات ناموافق اور ناسازگار ہوں ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ماہِ
اگست کے اندر پھر ایک بار ضابطے کے مطابق ہندوستان کو اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل میں صدارت کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد 15؍ اگست کو افغانستان
میں اقتدار بدل گیا اور اقتدار کی باگ ڈور طالبان کے ہاتھوں میں آگئی۔ اس
کے ایک دن بعد یعنی 16؍ اگست کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے طالبان سے
اپیل کی کہ وہ کسی بھی ملک میں دہشت گردی کی حمایت نہ کرے۔ اقوام متحدہ میں
ہندوستان کے مستقل نمائندے ٹی ایس ترومتی نے مذکورہ بیان میں اس بات کو
یقینی بنانے پر زور دیا کہ افغانستان کے علاقے کا استعمال کسی ملک کو دھمکی
دینے یا حملہ کرنے کے لئے نہیں کیا جانا چاہئے اور نہ ہی طالبان اور نہ ہی
کسی دیگر افغان گروپ یا شخص کو کسی دوسرے ملک کے علاقے میں سرگرم دہشت
گردوں کی حمایت کرنی چاہئے۔ 27؍ اگست کو کابل ایئر پورٹ پر بم دھماکوں کے
ایک دن بعد بھی ترومورتی کا جاری کردہ بیان من عن وہی تھا مگر اس میں سے
طالبان کا نام ہٹا لیا گیا تھا ۔ عالمی برادی کی جانب سے امریکہ کی واپسی
سے ۴ دن قبل طالبان کے لیے یہ مثبت اشارہ بلکہ سپاس نامہ تھا ۔
سوال یہ ہے کہ ان گیارہ دنوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ جس سے اقوام متحدہ کے
موقف میں تبدیلی رونما ہوگئی ؟ یہ دراصل ’زمینی حقیقت‘ کی تبدیلی کا اعتراف
ہے۔ اس دوران طالبان نے غیر ملکیوں کو نکلنے میں تعاون کرکے اپنی شبیہ بدل
دی ہے ۔ امریکہ کے مطابق اس نے 15؍ اگست کے بعد ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو
نکالا اور یہ کام بخیر خوبی انجام پایا۔ اس دوران حکومت ہند کا رویہ نہایت
محتاط رہا ہے ۔ 19؍ اگست کو وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے نیویارک میں اقوامِ
متحدہ کی سلامتی کونسل میں اجلاس کے بعد میڈیا سے کہا تھا کہ افغانستان کے
بارے میں بھارت کا رُخ افغان عوام سے تعلقات کی بنیاد پر طے ہو گا۔ افغان
عوام کے ساتھ بھارت کے تاریخی تعلقات باقی رہیں گے۔ طالبان سے بات چیت پر
انہوں نے کہا تھاکہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔وہ کابل کی بدلتی ہوئی
صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور انہیں یہ دیکھنا ہے کہ آگے کیا کرنا
چاہیے؟ اس بابت اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور امریکہ کے وزیرِ خارجہ
سے بات چیت کی انہوں نے تصدیق کی ۔ اس تذبذب میں بھی امید کی ایک ہلکی سی
کرن موجود تھی۔
وزیر خارجہ کے محتاط رویہ سے قطع نظر سابق وزیرِ خارجہ نٹور سنگھ نے اس
دوران ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘سے کہہ دیا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے سے
قبل ہی بھارت کو ان سے مذاکرات کرنے چاہیے تھے۔انہوں نےحکومت کو مشورہ دیا
کہ اگر افغانستان کی حکومت ذمے داری کے ساتھ کام کرتی ہے تو ہندوستان کو اس
سے سفارتی تعلقات قائم کرلینے چاہیئں یا کم از کم خارجہ سیکریٹری سطح پر
طالبان سے رابطہ ہونا چاہیے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس سے قبل جب
افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی توہندوستان نے سفارتی تعلقات منقطع کر
لیے تھے اور اپنا سفارت خانہ اور قونصل خانہ بند کر دیا تھا۔اس بار طالبان
پھر سے اقتدار میں آئے تو ہندوستان کے سفارت خانے میں 150افراد کا عملہ
موجود تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ لوگ جب 24 گاڑیوں میں سفارت خانے کی
عمارت سے نکلے تو طالبان نے رکاوٹ پیدا کرنے کے بجائے ہوائی اڈے تک پہنچنے
میں تعاون کیا۔ سفارتی عملے نے جب طالبان سے رابطہ قائم کیا تو وہ قافلے کو
طالبان نے گاڑی سے اتر کر بھیڑ میں سے قافلے کے لیے راستہ بناکر انہیں
بحفاظت ہوائی اڈے تک پہنچایا ۔
تصویر کا ایک پہلوہے۔ انخلاء سے دو دن قبل معمر طالبانی رہنما شیر محمد
عباس استنک زئی نے غیر رسمی طور پر نئی دہلی سے کہا تھا کہ وہ افغانستان
میں اپنا سفارت خانہ بند نہ کرے۔شیر محمد عباس کا شمار طالبان کے اہم ترین
ارکان میں ہوتاہے ۔ طالبان رہنما نےہندوستان کے عدم تحفظ کے احساس کو تسلیم
کیا لیکن کہا کہ حکومت ہند کو کابل میں اپنے سفارت خانے کے عملے کے تحفظ کے
بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ شیر محمد عباس استنک زئی کے علاوہ
پاکستان میں طالبان کے سابق سفیر ملا عبد السلام ضعیف نے بھی غیر رسمی طور
پرہندوستان سے درخواست کی تھی لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کے اندر قائدانہ
خود اعتمادی کا فقدان کی وجہ سے یہ موقع گنوا دیا گیا ۔ حکومت ہند نے
طالبان پر بھروسہ کرنے کے بجائے سفارتی عملے اور شہریوں کو کابل سے نکالنے
کے فیصلے کیا۔ ویسے 16 ؍اگست کو طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے سفارت
خانوں اور قونصل خانوں کے کاموں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنے اور انھیں محفوظ
ماحول فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کو بحسن و خوبی نبھایا۔
شیر محمد عباس استنک زئی 1982 اور 1983 میں افغان فوج کے ایک عہدے دار کی
حیثیت سے ہندوستان کے دہرہ دون فوجی تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ میجر جنرل
ریٹائرڈ ڈی اے چترویدی انہیں سخت گیر نہیں سمجھتے اس لیے ان تعلقات کا
استعمال سفارتکاری کے لیے ہونا چاہیے تھا ۔ طالبان نے ہندوستان کے تئیں اب
تک بہت ہی مثبت رویہ اختیار کررکھا ہے اور اسی طرح کے مثبت جواب کی توقع
رکھتا ہےکیونکہ وہ چاہتاہے ہندوستان اپنے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرے ۔
ہندوستان کی مجبوری یہ ہے چونکہ وہ طالبان کو دہشت گرد کہتا رہا ہے اس لیے
فوری طور پر کوئی فیصلہ کرنا اس کے لیے مشکل ہورہا ہےاور وہ ’دیکھو اور
انتظار کرو‘ کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین، روس، ترکی
اور بعض دیگر ممالک کی طرح کی گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں ہو رہا ہے۔ویسے اگر
نئی حکومت میں عبد اللہ عبد اللہ اور حامد کرزئی کی شمولیت ہوجائےتو تعلقات
استوار کرنے کا ایک جواز مل جائے گا کیونکہ ان کے زمانے میں افغانستان اور
ہندوستان کے تعلقات اچھےتھے۔
اس تناظر میں طالبان کے نائب سربراہ شیر محمد عباس ستانک زئی کی سی این این
، نیوز ۱۸ کو دیا جانے والا انٹرویو غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔
ان سے سب پوچھا گیا کہ کیا طالبان پاکستان کے ساتھ مل کر ہندوستان کو نشانہ
بنا سکتے ہیں ؟ تو انہوں نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خطے کی تمام
ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں لشکر اور
جیش کی پناہ گاہ سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ہندوستان سمیت کسی
بھی پڑوسی ملک کو افغانستان سے کوئی خطرہ نہیں تھا اور آئندہ بھی نہیں
ہوگا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان طویل تنازع کا ذکر کرکے انہوں نےتوقع
کی کہ اس لڑائی میں افغانستان کو نہیں گھسیٹا جائے گا۔ شیر محمد نے یقین
دلایا کہ کسی بھی ملک کو وہ اپنی زمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔انہوں نے
تمام پڑوسی ممالک اور پوری دنیا بشمول امریکہ اور نیٹو کے ساتھ دوستانہ
تعلقات کی بات کہی۔ ہندوستان علاوہ تمام پڑوسی ممالک بشمول تاجکستان ،
ایران اور پاکستان سے اچھے تعلقات کی امید جتائی ۔
شیر محمدعباس نے ہندوستان کو دوبارہ کام شروع کرکے نامکمل منصوبوں کو پورا
کرنے کی دعوت دی اور یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ ان کو سیکورٹی فراہم کریں
گے؟ انہوں نے ایسے سوالات کو غیر ضروری قرار دیا کیونکہ ان کے مطابق اگر
کوئی آپ کے ملک میں آکر کام کر رہا ہے تو اسے سیکورٹی فراہم کرنی ہی ہوگی۔
شیر محمد سےیہ سوال کیا گیا کہ وہ ہندو اور سکھ ہیں جو ابھی تک افغانستان
میں ہیں۔ کیا آپ ان کو نکالنے میں ہندوستان کی مدد کریں گے؟ اس کے جواب میں
انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں انہیں نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
افغانستان ان کی آبائی زمین اور ملک ہے لہذا وہ وہاں پرامن طریقے سے رہ
سکتے ہیں اور ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ وہ پہلے کی طرح اپنی زندگی
گزار سکتے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے جو بات کہی وہ سی اے اے جیسے قوانین کو
جوا ز فراہم کرنے والے تنگ نظر مرکزی وزیر برائے پٹرولیم اور گیس ہردیپ
سنگھ پوری کے لیے نشانِ عبرت ہے۔ شیر محمد نے کہا انہیں امید ہے کہ وہ ہندو
اور سکھ جو پچھلے 20 سال میں سابقہ حکومت کی وجہ سے افغانستان چھوڑ کر
ہندوستان چلے گئے تھے جلد اپنے وطن لوٹ آئیں گے۔ وطن عزیز میں اٹھتے
بیٹھتے مسلمانوں کو پاکستان اور افغانستان جانے کی دھمکی دینے والے
سیاستدانوں کے منہ پر یہ ایک زوردار طمانچہ ہے۔ شیر محمد کے انٹرویو اور ہر
دیپ پوری کے بیان پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے
|