تحریر۔۔۔ ڈاکٹرفیاض احمد
جون کا مہینہ اور سخت گرمی زبان حلق تک خشک سورج کی کرنوں کا غصہ زمین
پرگتے کے پنکھے ماتھے پے پسینہ ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ دروازے پر دستک
۔۔وقار :کون ہے بھائی؟
ندیم:میں ندیم ہوں۔۔۔آپ کے ابا جان کو فالج ہوگیا ہے وہ ہسپتال میں ہے وقار
ابھی دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور بہن بھائیوں میں بڑا تھا فالج کا نام
سنتے ہی گھبرا گیا امی جان پکارتے ہو ئے بھاگا
ثریا (وقار کی امی):وقار بیٹا کون ہے ؟
وقار:امی جی ندیم انکل ہیں ۔۔۔ابا جی ہسپتال میں ہیں
ثریا:(ایک لمحے کے لئے لڑکھڑائی) وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بڑی مشکل سے
خود کو سنبھالا۔۔۔کیا ہوا عمران صاحب کو؟
ندیم :عمران بھائی کو فالج ہوا ہے اور وہ اس وقت ہسپتال میں ہیں میں آپ کو
لینے آیا ہوں
ثریا:بیٹا میں ابھی آئی(فاطمہ برقعہ اڑتے ہوئے وقار بیٹا گھرکا خیال رکھنا
تمہارے بہن بھائی بہت چھوٹے ہیں)ندیم بیٹا آؤ چلیں۔۔۔ بیٹا دروازہ بند کرلو
وقار:جی امی
ثریا:کیا ہوا تھا ندیم بیٹا
ندیم:انکل نے ایک پراپرٹی خریدی تھی اس میں ان کے ساتھ فراڈ ہوا سب کچھ ختم
ہو گیا بلکہ انکل پر قرض چڑھ گیا ہے انکل یہ صدمہ برداشت نہیں کر پائے بس
یہ حقیقت ہے (اتنی دیر میں ہسپتال آ جاتا ہے)۔
ہسپتال پہنچ کر ندیم اور ثریا سیدھے عمران صاحب کے روم میں گئے اس وقت ان
کو ڈرپ لگی ہوئی تھی اب عمران صاحب حالت مدہوشی سے باہر تھے
ثریا:یہ سب کیا ہوا؟ وقار کے ابا
عمران :ثریا۔۔۔ ہم لٹ گئے ۔۔۔سب کچھ برباد ہوگیا۔۔۔میرے بچوں کا کیا ہوگا
ثریا:ہمت کریں۔۔۔اﷲ تعالیٰ ہے نا ۔۔۔آپ سلامت رہیں دولت تو آنے جانے والی
چیز ہے گھبرائیں مت سب ٹھیک ہو جائے گا
ڈاکٹر:کون ہے ان کے ساتھ
ثریا:جی میں ان کی بیوی ہوں
ڈاکٹر:اب عمران صاحب خطرے سے باہر ہیں بس آرام اور خوراک کا استعمال کرائیں
ثریا:جی ڈاکٹر صاحب
ثریا اور عمران صاحب گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں دروازے پر دستک
وقار:کون
عمران:بیٹا دروازہ کھولو۔۔۔
وقار:جی ابا جی۔۔۔۔دروازہ کھولتے ہی باپ کے گلے سے لگ کر اشک بار ہو گیا
عمران:کیا ہوا بیٹا۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔
اگلی صبح قرض داروں کی گھر میں آمد شروع ہوگئی ابا جی نے ان سے کچھ مہلت
طلب کی اور انکل کو بلایا
جاؤ اپنے انکل نذیر کو بولا کر لاؤ
وقار:جی ابا جی۔۔۔میں انکل کو لے کر آتا ہوں
انکل نذیر ان کے گھر کی جانب آ رہے تھے۔۔۔
انکل نذیر:بیٹا کہاں جا رہے ہو؟
وقار: انکل جی آپ کو بلانے جا رہا ہوں آپ کو ابو جی بلا رہے ہیں
انکل نذیر:چلو بیٹا ۔۔کیا ہوا ہے تمہارے ابا کو؟
وقار:فالج
اتنی دیر میں دونوں گھر پہنچ جاتے ہیں
انکل:عمران کیا ہوا ؟
عمران:عمران نے تمام روداد سنائی؟
انکل:بہت افسوس ہوا
عمران:بس کیا کر سکتے ہیں جو قسمت کو منظور تھا
انکل:اچھا بھائی میں چلتا ہوں کوئی میرے لائق خدمت ہو تو حکم کریں بندئے
ناچیز حاضر ہے
عمران:بھائی حالات بہت سنجیدہ ہیں گھر میں کچھ کھانے کو بھی نہیں اور قرض
دار بھی تنگ کر رہے ہیں اگر کچھ بندوبست ہو جائے تو نوازش ہوگی؟
انکل:حالات تو میر ے بھی خستہ حال ہیں مگر میں کوشش کرتا ہوں
انکل کی کوشش کوشش ہی رہ گئی پھر کبھی بھی انہوں نے ہمارے گھر کا رخ نہ گیا
جب مشکلات انسان کو گھیرتی ہیں تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے یہ تو
انکل تھے وحید کو یہ حالات و واقعات ناخوشگوار گزرے اور اس نے پڑھائی
چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اگر وہ تعلیم جاری رکھتا ہے تو اس کے گھر اوراس
کے بہن بھائیوں کی پڑھائی کے اخراجات کون برداشت کرتا انکل تو پہلے ہی کوشش
میں لگے ہوئے تھے جو پچھلے کئی دنوں سے بر نہیں ہوئی وحید ان دنوں وسویں کا
امتحان دیا ہوا تھا اور رزلٹ کا انتظار کر رہا تھاوقاربچپن ہی سے بڑا
شرمیلا اور ڈرا ہوا رہتا تھامگر اس واقع نے تو وقار کے خوف وحراس کو ختم ہی
کردیا اور اس کا شرمیلا پن بھی مر گیا تھاسوائے گھر کے کچھ بھی نہیں بچا
بلکے قرض ابھی بھی باقی تھاایسے حالات اور تعلیم۔۔۔خالی پیٹ ایمان کو بھولا
دیتا ہے یہ تو تعلیم تھی ۔دنیا میں سب سے بھاری چیز خالی جیب ہے اور اس
خالی جیب کے ساتھ چلنا سب سے مشکل کام ہے کیونکہ یہ انسان اور انسانیت کی
پہچان کرواتی ہے وقار نے ردی کا کام شروع کیا اور اس کی ماں گھر پر کپڑے
سلائی کرتی تھی کچھ اس طرح سے گزرا زندگی چل رہاتھامگر ایک دن ایسا ہوا کہ
اپنے میں اپنائیت ہی نہ رہی اور سب حیران و پریشان ہو گئے آسمان کا رنگ
دھندلا۔۔۔ہوا بندزندگی موت کی کشمکش میں کسی اﷲ کے فرشتے کا انتظارکوئی درد
گھر کا مادوا کرے مگراچانک سے دروازے پر دستک سب کے خیالات میں شاید ہی
کوئی فرشتہ آیا ہوگامگر چاچی تھی چاچی امی جی کے پاس کمرے میں پہنچی اور
احوال دریافت کرنے کے بعد وہ سامان والی گٹھڑی امی کے ہاتھ میں تھما دی اور
بولی بھابھی بہت سمجھایا مگر وہ تو سننے کو تیار ہی نہیں ماریہ کہتی ہے کہ
وقار مجھے پسند نہیں ہے میں اس سے شادی نہیں کروں گی اگر زبردستی کرو گے تو
میں زہر کھا لوں گی آپ کے بھائی صاحب نے بھی بہت سمجھایا مگر افسوس بڑی ہمت
کر کے آئی ہوں ناراض مت ہونا
عمران:کوئی بات نہیں بھابھی مجھے اسی بات کا ہی انتظار تھا
چاچی:اچھا تو میں چلتی ہوں خداحافظ
عمران:خدا حافظ۔۔۔میرے بھائی صاحب نے جب میرے پاس آنا چھوڑ دیا تھا میں اسی
وقت یہ سمجھ گیا تھااب آگے بڑھنا ناممکن ہو گیا تھا اس کے تعلیمی مقاصد
ادھورے نظر آ رہے تھے مگراب وقار کے ابا کی طبعیت کافی سازگار تھی وہ بھی
گھر کو ہلکی پھلکی سپوٹ کرنے کے قابل ہوگئے تھے وقار نے مشکلات کو انداز
زیور بنا لیا تھااور کالج میں داخلہ لے لیا اور کالج سے واپسی پر دودھ کی
سپلائی کا کام شروع کیا اور شام کو وہی ردی والا بزنس اب تو رات کو بھی
کوڑا کرکٹ کو الگ الگ کرنے کا کام بھی شروع کردیامستقبل کا انجینئر اپنے
مقصد کی تکمیل کیلئے ردی والا بھی بنا۔۔۔۔ دودھ بیچنے والا بھی بنا۔۔۔۔کوڑا
کرکٹ والا بھی۔مگر وقار صاحب نے تو طے کرلیا تھا کہ محنت کرو اورمقصد حاصل
کرو وقت تو انسان کی ظاہری بناوٹ اور خدوخال تک کو تبدیل کردیتا ہے تو پھر
معاشرے اور رشتے داروں سے کس بات کی توقع وقت انسان کا سب سے بڑا مرہم ہوتا
ہے جو ہر زخم کو بھر دیتا ہے زمانے کی ٹھوکروں اپنوں کی بے رخی وقت کی تنگ
دستی گھریلو حالات کی تنگی کے باوجود آخر کار وہ دن آگیا جس کا وقار اور اس
کے گھر والوں کو انتظار تھاوقار غموں کے دریاؤں کو عبور کرتا ہوا۔۔۔۔اس
منزل نا امید کو حاصل کرنے میں سرخرو ہوااسکی گریجویشن کی ڈگری مکمل ہوگئی
والدین اور تمام گھر والوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔۔لیکن وقار کی زندگی
کی رنگینی کو لوٹنے میں ابھی بھی کچھ وقت درکار تھاآپ جو حاصل کرنا چاہتے
ہیں وہ مل جانا ہی کامیابی نہیں ہے بلکہ آپ جو بننا چاہتے ہیں وہ بن جانا
ہی اصل حقیقت ہے جس کی اصلیت کچھ حاصل کرنے کے بعد عیاں ہوتی ہے ڈگری تو مل
گئی مگر دودھ والے گریجویٹ کو نوکری کیسے ملتی کیونکہ نہ جان نہ پہچان تو
میرا مہمان ۔۔۔عرصہ دو سال وہی ردی۔۔۔وہی دودھ۔۔۔اور۔۔۔وہی کوڑا
کرکٹ۔۔۔آخرکار ایک سکول ٹیچر کی نوکری ملی مشکل حالات جب دستک دیں تو
گھبراؤ مت بلکہ ہمت اور خندہ پیشانی سے دروازہ کھولو کیونکہ کامیابی ہمیشہ
مشکلات کا بھیس بدل کے آتی ہیں۔۔۔ وحید نے بھی کچھ ایسا ہی کیاآہستہ آہستہ
وحید نے گھر میں ایک اکیڈمی بنائی رات دن محنت کرکے پروفیسر بن گیا۔۔۔۔چند
دنوں میں یہی دودھ والا پروفیسر آف انگریزی زبان و ادب ہوگیا۔۔۔۔دیکھو دودھ
کی برکات مگر اس نے دودھ بیچنا نہ چھوڑاوقار کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ
آیا جب اس کو اس کی متعلقہ نوکری کی آفر آئی وقار نے اﷲ کا نام لیا اور
نوکری کی آفر کو قبول کیا اور جاب شروع کردی ناتجربہ کاری کی بناء پر
دفتروں میں دھکے کھائے مگر ایک دن (دوسال بعد)کچھ ایسا ہوا کہ وقار کے
حالات نے بھیس بدلہ اور ایک اچھی کمپنی سے اچھی تنخواہ پر آفر آئی بدلتے
حالات موسموں کا پتہ دیتے ہیں غربت میں تو محبت بھی دم توڑدیتی ہے دن بدن
وقار کے حالات نے رنگ بدلنے شروع کردئیے جب وقار سکول میں پڑھاتے تھے اس
وقت ان کو ایک لڑکی اچھی لگنے لگی مگر حالات کے ہاتھوں مجبور وقار نے دل کے
ارمانوں کو دبا دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلے کی طرح پھر ٹوٹ جائیں وقار
کی امی اس کے لئے رشتے ڈھونڈنے لگی گھروں میں باجے بھی انہی کے بجتے ہیں جن
کی جیب گرم ہوتی ہے خالی جیبوں سے تو باجا بھی نہیں خریدا جاتا محلے میں
رشتہ ڈھونڈنے کا شور اور وقار کے حالات کی بہتری نے انکل نذیر کی بیوی کو
آنے پر مجبور کردیالیکن وقار کی امی نے انکار کردیاآخر کار وقار کوعذرہ
جیسی خوبصورت اور خوب سیرت ساتھی ملی وقار کے ارمانوں کے زخم اس سے کہ تازہ
ہوتے عذرہ نے اپنے پیار کے مرہم سے سرسبزوشاواب ایسا کیا کہ ایک سال بعد
ایک رب کی نعمت دی جس نے تو وقار کی قسمت کے سکندر کو بدل کے ہی رکھ دیا
بیٹی کی رحمت نے ایسا روشن کیا کہ دودھ والا انجینئر بن گیا وقار توعذرہ کے
محبت میں ایسا مائل ہوا کہ بغیر کسی ڈور کے وہ عذرہ کے طرف کھیچا چلا جاتا
وہ ماضی کی تلخیوں کو ایسے بھولا جیسے وہ گزرا ہوالمحہ۔۔۔۔دودھ والا
انجینئر مشہور ہوگیا۔۔۔
|