چین کے پیش کردہ " بیلٹ اینڈ روڈ"انیشیٹو کو رواں برس
آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ان گزشتہ آٹھ سالوں میں تمام فریقوں کی مشترکہ کوششوں
کی بدولت ، چین اور " بیلٹ اینڈ روڈ" سے وابستہ ممالک کے درمیان اقتصادی
اور تجارتی تعاون میں مسلسل نئی پیش رفت اور نئے نتائج حاصل کیے گئے
ہیں۔پاکستان میں چین۔پاک اقتصادی راہداری اس کی ایک بہترین مثال ہے جس کے
تحت ملک بھر میں بنیادی ڈھانچے سمیت توانائی اور دیگر منصوبہ جات پر موئثر
عمل درآمد جاری ہے اور پاکستانی عوام کئی منصوبوں کی تکمیل سے حاصل شدہ
ثمرات سے لطف اٹھا رہے ہیں۔
گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران " بیلٹ اینڈ روڈ" کے اثر و رسوخ کی مسلسل توسیع
کے ساتھ ساتھ چین۔میانمار آئل اینڈ گیس پائپ لائن ، پاکستان میں گوادر پورٹ
، یونان میں پائیرس پورٹ ، بنگلہ دیش میں پدما برج وغیرہ سمیت دیگر اہم
تاریخی منصوبوں پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔جن سے " بیلٹ اینڈ روڈ " سے وابستہ
ممالک کے مابین اقتصادی و تجارتی تعاون کو مضبوط ضمانت فراہم کی گئی ہے۔
چین کی وزارت تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے 2020 تک ، چین کی
جانب سے " بیلٹ اینڈ روڈ" سے وابستہ ممالک کے ساتھ نئے دستخط شدہ معاہدوں
کی مجموعی مالیت نو کھرب چالیس ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان
ممالک میں چین کی مجموعی براہ راست سرمایہ کاری کی مالیت ایک کھرب چھتیس
ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ " بیلٹ اینڈ روڈ" سے وابستہ ممالک نے چین
میں تقریباً ساٹھ ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔اسی طرح 2013 سے
2020 تک چین اور "دی بیلٹ اینڈ روڈ"سے وابستہ ممالک کے درمیان مصنوعات کی
تجارت بانوے کھرب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ تجارت کا پیمانہ بڑھنے
کے ساتھ ساتھ، سالانہ تجارتی حجم دس کھرب امریکی ڈالر سے بڑھ کر چودہ کھرب
امریکی ڈالر ہو چکا ہے ، اور چین کی بیرونی تجارت میں "دی بیلٹ اینڈ روڈ"
سے وابستہ ممالک کا تناسب چار اعشاریہ ایک فیصد پوائنٹ بڑھ گیا ہے۔یہی وجہ
ہے کہ چین میں منعقدہ تمام اہم تجارتی سرگرمیوں ، نمائشوں اور میلوں میں
بیلٹ اینڈ روڈ تعاون منصوبہ جات کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔اس کی ایک تازہ
ترین مثال چین کا خدمات کی تجارت کا بین الاقوامی میلہ بھی ہے جو ابھی سات
تاریخ کو بیجنگ میں اختتام پزیر ہوا ہے۔عالمی میلے کے شرکاء کی رائے میں
خدمات کی عالمی تجارت کے نئے انداز اور نئے نمونوں کا تیزی سے ابھرنا خاص
طور پر ڈیجیٹل اکانومی کی ترقی ، نہ صرف روایتی معیشت کی تبدیلی اور عالمی
معاشی ترقی کو فروغ دے رہی ہے بلکہ اس سے " بیلٹ اینڈ روڈ" کے بین الاقوامی
تعاون کے لیے نئے مواقع بھی سامنے آ رہے ہیں ۔اس میلے میں چین اور " بیلٹ
اینڈ روڈ" ممالک کی تنظیموں اور کاروباری اداروں نے ثقافتی سیاحت کی خدمات
، لاجسٹک خدمات اور آزاد تجارتی زونز کی جدید ترقی کے سلسلے میں اسٹریٹیجک
تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ملک کی حیثیت
سے پاکستان نے 2018 میں "ڈیجیٹل پاکستان" پالیسی کا آغاز کیا تھا، جس سے
پاکستان کے لیے ڈیجیٹل سروسز ، انفارمیشن ایپلی کیشنز اور تکنیکی خدمات کا
تیز اور جدید ڈیجیٹل ماحولیاتی نظام تشکیل دینے میں نمایاں مدد ملی ہے۔ اس
وقت پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت تیز رفتار ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، ملک کی
انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کی برآمدات دو ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جبکہ یہ
امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے عرصے میں اس میں پانچ ارب ڈالر تک اضافہ ہو
سکتا ہے۔چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق کے مطابق اس مقصد کو حاصل کرنے
کے لیے پاکستان کو متعلقہ ممالک کے ساتھ باہمی اعتماد قائم کرنا چاہیے اور
قواعد کو مربوط کرتے ہوئے نتائج کا اشتراک کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں سب سے
اہم چیز چین کے ساتھ شراکت داری کی تشکیل ہے۔ اس سوچ اور حکمت عملی سے نہ
صرف پاکستان موجودہ مواقع سے فائدہ اٹھا پائے گا بلکہ مستقبل میں نئے
ترقیاتی امکانات کے لیے بھی خود کو تیار کر سکے گا۔
افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جائے تو افغان
طالبان قیادت نے بھی "بیلٹ اینڈ روڈ" تعاون کو افغانستان اور خطے کی ترقی
اور خوشحالی کے لیے سازگار قرار دیا ہے اور یہ امید ظاہر کی ہے کہ
افغانستان اس میں فعال طور پر شرکت کرے گا ۔ اہم بات یہ ہے کہ بیلٹ اینڈ
روڈ کو افغانستان تک توسیع دینے سے انہیں اقتصادی ترقی کی مرکزی راہداری
میں لایا جا سکے گا جس سے مصنوعات اور خدمات کی فراہمی سمیت افرادی تبادلے
بھی فروغ پائیں گے۔طالبان کی اس منصوبے میں دلچسپی اس بات کا بھی اشارہ ہے
کہ دنیا کا اعتماد گزرتے وقت کے ساتھ چین پر مزید بڑھتا جا رہا ہے اور چین
کی کوشش ہے کہ اپنے ترقیاتی ثمرات سے دیگر دنیا کو بھی مستفید کیا جائے اور
اشتراکی ترقی سے بنی نوع انسان کا ہم نصیب معاشرہ تشکیل دیا جائے۔دیکھنا یہ
ہے کہ پاکستان ،افغانستان اور دیگر ترقی پزیر ممالک کیسے چین کے بیلٹ اینڈ
تعاون سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔ |