پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ ُ

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ایک قومی ادارہ ہے جس کا کام پاکستان بھر کے لوگوں کو ٹیلی فون اور انٹر نیٹ کی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔گوآج بہت سی کمپنیاں اس وقت اس شعبے میں کام کر رہی ہیں مگر پی ٹی سی ایل کی حیثیت اس شعبے میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ یہ کمپنی کبھی مکمل طور پر حکومت پاکستان کی ملکیت ہوتی تھی مگر حکومتوں کی نا اہلیوں اور غلط فیصلوں کے سبب آج اس کے 26 فیصد حصص ایک پرائیویٹ کمپنی کو اور 12فیصد عوام کو منتقل کئے جا چکیں ہیں ۔PTCLکی پرائیویٹائزیشن کے وقت اس کے ملازمین اور عوام کی طرف سے شدید احتجاج ہوا کیونکہ ایسے اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر میں دینا عوام کے ساتھ زیادتی تھی۔ پرائیویٹ ادارے کاروبار کرتے ہیں انہیں عوام کے مفاد سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ ضرورت کو نہیں آمدن کو دیکھ کر قدم آگے بڑھاتے ہیں۔چنانچہ شدید احتجاج کے باعث اس ادارے کی نج کاری ایک حد سے زیادہ نہ ہو سکی ۔ اس ادارے کے 62 فیصد حصص اب بھی حکومت پاکستان کی ملکیت ہیں،یوں عملی طور پر اب بھی اس کی حیثیت ایک حکومتی ملکیتی ادارے کی ہے۔

ٹیلی فون کی ایجاد کا سہرا الیگزنڈر گراہم بیل کے سر ہے جس نے 1876 میں پہلا ٹیلیفون بنایا۔ اس وقت سے تقریباً چھ سات سال بعد 28 جنوری 1882 کو انڈیا کی گورنر جنرل کونسل کے رکن میجر بیرنگ نے ہندستان میں تین مقامات ، کلکتہ، بمبئی اور مدراس کے مقامات پر ٹیلیفون ایکسچینج کے قیام کا اعلان کیا۔ کلکتہ ایکسچینج کو مرکزی ایکسچینج کا نام دیا گیااور اس کوپبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کی بلڈنگ میں نصب کیا گیا۔ اس ایکسچینج میں کل 93 لائنز تھیں۔یہ ایکسچینج آپریٹر کے ذریعے سے کام کرتی اور آپریٹر کسی لائن کے مالک کے کہنے پر دوسری لائن سے رابطہ قائم کر دیتا۔ نمبر والے فون بہت بعد میں آئے۔پہلا خود کار فون 1914 میں شملہ میں نصب کیا گیا۔ تقسیم کے وقت ہندستان اور پاکستان میں کل بیاسی ہزار (82000) کے قریب فون کام کر رہے تھے ۔ ان میں تقریباً بارہ ہزار سے کچھ زیادہ (12346) فون پاکستان کے حصے میں آئے۔اس محکمے کو ابتدا میں ڈاک اور تار کے محکمے کے ساتھ نتھی رکھا گیا۔ یوں ٹیلی فون 1949 میں وجود میں آنے والے پاکستان کے ڈاک اور تار ڈیپارٹمنٹ ( ٹیلی فون اور ٹیلی گرا ف ڈیپارٹمنٹ )کا حصہ رہا۔ 1962 میں اسے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کا نام دے کر ایک خود مختار کارپوریشن بنا دیا گیا ۔ اسوقت اس ادارے کے تحت پاکستان بھر میں تقریباً دو ہزار ایکسچینج کام کر رہے ہیں جن کی ملکیتی عمارتوں کی مالیت کھربوں روپے ہے اور یہ ادارہ پاکستان بھر میں لینڈ لائن فون ، انٹر نیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن کا بنیادی ڈھانچہ مہیا کر رہا ہے۔ یو فون کے نام سے ایک موبائل فون کمپنی بھی اس کا حصہ ہے۔ دوسری موبائل سروس مہیا کرنے والی کمپنیوں میں Jazz سات کروڑ کسٹمر کے ساتھ پہلے نمبر پر ، ٹیلی نور پانچ کروڑ کسٹمر کے سا تھ دوسرے نمبر پر اور زونگ چار کروڑ کسٹمر کے ساتھ تیسرے نمبر پرہیں۔ PTCL کی کمپنی سوا دو کروڑ کسٹمر کے ساتھ چوتھے اور آخری نمبر پر ہے۔جو قابل افسوس ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن کا بنیادی اور وسیع ڈھانچہ ہونے کے باوجود PTCL پاکستان کے زیادہ تر حصے میں انٹر نیٹ فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ PTCL کا زیادہ بھروسہ لینڈ لائن پر تھامگر آج کے حالات میں وہ ایک ڈوبتی کشتی ہے۔ دنیا بھر میں لینڈ لائن ختم ہو رہی ہے۔ حال ہی میں برطانیہ نے اپنی رواہیتی لینڈ لائن کو2025 تک ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے کیونکہ نئی ڈیجیٹل اصلاحات کے نتیجے میں تمام گھروں اور کاروباری مراکز کو فون کالز کے لئے انٹرنیٹ موجود ہو گا۔

اگلے پانچ سال میں پاکستان میں بھی PTCL کی لینڈ لائن فطری طور پر فارغ ہو جائے گی۔ مگر افسوس کہ ہمارا PTCLجیسا ادارنئے حالات سے نپٹنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ بلاشبہ اس کا انٹر نیٹ بہترین ہے مگر اس کے عملے کی کارکردگی اور طرز عمل کسی طرح بھی جدید انداز کار اور اصولوں سے ہم آہنگ نہیں۔ میں ذاتی طور پر اس برے انداز اور ناقص کارکردگی کا شکار رہا ہوں۔ میرے پاس PTCL کا انٹرنیٹ ہے۔ کئی ماہ بڑی روانی سے چلتا رہا۔چھ سات ماہ پہلے لائن خراب ہو گئی۔ڈیڑھ دو ماہ کی کوشش کے باوجود صحیح نہ ہونی کی وجہ سے میں نے کوشش کی کہ جب تک لائن صحیح نہیں ہوتی اسے کم سے کم ادائیگی پر کر دوں مگر اس میں کچھ مشکل تھی وہ مشکلات دور ہو گئیں تو بھی لائن صحیح نہ ہو سکی۔ بل البتہ لگاتار آ رہا ہے۔پہلے دو تین ماہ تو میں نے امید کے بھروسے ادائیگی کر دی اب میں ادائیگی نہیں کر رہا۔ مستقل میں میں ڈیفالٹر شمار ہونگاچاہے میری غلطی ہے یا نہیں۔ دنیا میں کہیں بھی یہ نہیں ہوتا کہ کوئی کمپنی آپ کو سروسز مہیا نہ کرے مگر وصولی پر اصرار کرے۔ مگر PTCL یہ کرتا بھی ہے اورغلطی ماننے کو تیار بھی نہیں ہوتا۔میرا انٹرنیٹ پچھلے چھ سات ماہ سے بند ہے ۔ ریکارڈPTCL کے پاس بھی ہے مگر ان کی بے حسی کے سبب لگتا ہے اب سوائے عدالتی کاروائی کے کوئی دوسرا حل نہیں۔

ایسی صورت حال میں حکومت کے ذمہ داروں کا یہ فرض ہے کہ PTCL کو مجبور کریں کہ وہ دنیا بھر کی دیگر کمپنیوں کی طرح جب کسی شخص کو مہیاکی گئی کوئی سروس اگر لمبے عرصے تک تعطل کا شکار رکھیں تو اس دوران کی ادائیگی بھی وصول نہ کی جائے۔بہت سی کمپنیاں جو تمام خوبیوں کے باوجود اپنے عملے کے طرز عمل کی اصلاح نہیں کرتیں، فلاپ ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی بہت سے انتہائی اچھی کاریں کچھ علاقوں میں اس لئے ناکام ہو گئیں کہ ان کی سیل کے بعد کی سروس ناکام تھی۔ PTCL بھی بہترین ڈھانچہ رکھنے کے باوجود اس لئے ناکام ہے کہ ان کی بعد کی سروس ناکارہ ہے۔اس کا سٹاف کواپریٹو نہیں اسے عوام کی پرواہ نہیں وہ اپنی موج سے کام کرتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت کے باوجود رویے کے اعتبار سے PTCL ایک خالص سرکاری ادارہ ہی نظر آتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری ادارے بھی آج کے مقابلے کی فضا میں اپنی ذمہ داریوں کو جانیں اور اسی انداز اور سپرٹ سے کام کریں جس طرح پرائیویٹ ادارے اور ان کے ملازم کرتے ہیں ۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443131 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More