میرے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کی دنیا میں آپکا خیر مقدم ہے.
زیادہ تو کچھ بھی نہیں، ہاں مگر کوشش پوری کروں گی کہ میرے احساسات آپ تک
پہنچ پائیں.
استاد کے معنی کی اگر بات کروں تو اس کا مطلب" سیکھانے والا" ہے. اور ضروری
نہیں کہ جو ہمیں کتاب کا علم سیکھائے بس اسی کو استاد کا درجہ دیا جائے
بلکہ میری نظر میں ہر وہ شخص جو آپکی زندگی میں آتا ہے، کچھ نہ کچھ ضرور
سکھا کر چلا جاتا ہے. بھلے ہی وہ ہمیں پریشانیوں کے غار میں قید کر کے کیوں
نہ گیا ہو، یا ہمیں گرا کر آگے کیوں نہ بڑھ گیا ہو. ہر جانے والے اور ہمارے
ساتھ رہنے والے افراد ہمیں روز مرہ کی زندگی کے اُن واقعات سے واقف کرواتے
ہیں جن کے متعلق ہمیں کچھ بھی معلومات حاصل نہیں ہوتی.
صرف انسان کو ہی استاد کا خطاب دے کر میں کائنات کی باقی چیزوں کو چھوڑ
نہیں سکتی. پتہ ہے کیوں؟ کیوں کہ میری نظر میں کائنات کا ذرہ ذرہ ہمیں
زندگی کے مختلف مقامات پر سبق سکھانے کا کام کرتے ہیں. جیسے پھول ہمیں
سکھاتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد رہنے والے سب لوگ ہمارے خیر خواہ نہیں ہوتے،
ٹھیک ویسے ہی جیسے پھولوں کے ساتھ ساتھ پھول نہیں کانٹے بھی ہوا کرتے ہیں.
یہی نہیں بلکہ بدلتے موسم ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ انسان کے آنے جانے کا وقت
ہوتا ہے. جیسے پھولوں کی امد تو بہار لے کر آتی ہے مگر کچھ وقت بعد خزاں
اپنے رنگ دکھا کر جیت حاصل کر لیتا ہے.
ایک کیڑی جو دیوار کا آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکی ہوتی ہے اور بد قسمتی سے
دانہ زمین پرآ گرتا ہے. ایک دانے کے گرنے کے بعد وہ بنا دانہ لیے گھر کو
روانہ نہیں ہوتی بلکہ سارا سفر واپس طے کر کے دانہ لے کر روانہ ہوتی ہے.
کیا ہمیں یہ سبق نہیں سیکھاتی؟ کیا ہمیں یہ، یہ نہیں سکھاتی کہ زندگی میں
ایک بار ہارنے کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ ہم کبھی سرخرو نہیں ہو سکتے؟
وفاداری کی جب بات آتی ہے تو ہم کُتے کی مثال سامنے رکھتے ہیں. تو پھر یہ
کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہوگا کہ ہمیں جانور وفا کرنی سیکھاتے ہیں.
آج کا دور تو جھوٹ اور فریب سے مالامال ہے. اب لوگوں نے منافقت کو اپنا
لباس بنا رکھا ہے. سچائی اس طرح سے ختم ہو چکی ہے جیسے کڑوڑوں سال پہلے
ڈائناسور ختم ہوگئے تھے،اور آج ہمیں انکے ڈھانچے کے علاوہ کچھ اور نہیں مل
رہا. کیا ہم سچائی، وفاداری اور ایمانداری کے شہروں کو یوں بیچ کر ٹھیک کر
رہے ہیں؟ ہم نے اسکے نتیجے پر کبھی غور کیا ہے؟ ذرا غور کیجئے!
کہتے ہیں جس کے پاس صبر جیسی دولت ہو، اسکے پاس سب کچھ ہوتا ہے. رمضان
المبارک کے تیس روزے کیا ہمیں صبر کی دولت حاصل کرنا نہیں سکھاتے؟ کیا ہمیں
وہ یہ نہیں سکھاتے کہ ہر ایک چیز کے ملنے کا ایک مقرر وقت ہوتا ہے؟
میرا یہ سب لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں اساتذۂ کرام کے عہدے کی بے حرمتی
کر رہی ہوں. اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک استاد ہی ہمیں جہالت سے نکال کر
علم کی روشنی سے روبرو کرواتا ہے. اور مثال کے لئے میں دور کا سفر طے نہیں
کروں گی بلکہ مثال میں اپنی ہی دوں گی. آج میں اگر یہ لفظ لکھ رہی ہوں، یہ
اُستادوں کے سیکھانےکے بنا ممکن نہیں تھا. انسانوں کی سکھائی گئی چیزوں کے
بارے میں تبادلہ خیال کرنا میرا موضوع نہیں ہے. میں کہانی کے دوسرے رخ سے
آپ کو مخاطب کروا رہی ہوں.
زندگی ہمیشہ بچپن کے آغوش میں نہیں رہتی. ہمیں بچپن کی بہاروں کو الوداع
کہہ کر تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اور انسان جب ان حقیقتوں کا
سامنا کر رہا ہوتا ہے تبھی اسے مختلف چیزیں سبق سیکھاتی ہیں. ٹھیک اسی وقت
ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ، ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کے زرے
زرے نے چاہے وہ انسان، جانور، پھول، پہاڑ، پانی، موسم، کیڑے مکوڑے وعیرہ
وغیرہ، اپنے اندر ایک استاد کا ہنر پال رکھا ہے، اور وہ اپنی اپنی جگہ اپنا
کام بخوبی انجام دے رہے ہیں.
اور کتنی ہی بے شمار مثالیں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ سیکھانے والا صرف
ایک انسان نہیں ہوتا بلکہ کل کائنات ہوتی ہے. فقط بات اتنی سی ہے کہ ہمارا
چیزوں کو دیکھنے کا نظریہ کیسا ہے.
مصنف - آمینہ فردوس، علمِ نباتات کی طالبہ ہیں. جو سرحدی علاقے جموں وکشمیر
سے تعلق رکھتی ہیں.
|