چند برس قبل کی بات ہے کہ مجھے آسٹریلیا کے ایک ٹی وی
چینل کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام میں شرکت کا موقع ملا ۔ اس پروگرام میں
مختلف لسانی پسِ منظر سے متعلق چیدہ چیدہ شخصیات کے علاوہ فیڈرل امیگریشن
منسٹر اورحزبِ اختلاف سمیت مختلف سیاسی پارٹیوں کے ارکانِ پارلیمنٹ بھی
موجود تھے ۔ یہ پروگرام غیر قانونی انسانی سمگلنگ سے متعلق تھا ۔ باقاعدہ
بحث شروع ہونے سے پہلے میزبان نے اس موضوع پر اپنی تحقیقی فلم دکھائی ۔ اس
فلم کا آغاز میرے لیے دھماکہ دار تھا کیونکہ اسکرین پر کراچی کا صدر بازار
نظر آ رہاتھا۔ چینل نائن کایہی میزبان جو اس وقت ہمارے سامنے بیٹھا تھا صدر
کراچی میں کھڑا ایک ٹریول ایجنٹ کے آفس کے بارے میں بتا رہا تھا ۔ کیمرے نے
میزبان سے ہٹ کر ٹریول ایجنسی پر فوکس کر لیا۔ میزبان نے بتایا کہ یہ ٹریول
آفس در پردہ انسانی سمگلنگ میں ملوث ہے ۔ ثبوت کے طور پر چینل نائن نے ایک
پاکستانی نوجوان کو بیرونِ ملک جانے کا خواہش مند بنا کر دفتر کے اندر
بھیجا ۔ اس شخص کے پاس ایسا خفیہ کیمرہ موجود تھا جو اندر کا منظر اور
گفتگو ریکارڈ کر رہا تھا۔ اندر ٹریول ایجنٹ لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے
آسٹریلیا میں پہنچانے کا طریقہ اور اس کا معاوضہ بتا رہاتھا جب کہ باہر
موجود چینل نائن کے کیمرے یہ ساری گفتگو ریکارڈ کر رہے تھے ۔میزبان نے
بتایا کہ ایسے دفاتر پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود ہیں جو ہزاروں ڈالر
لے کر لوگوں کو انڈونیشیا کے راستے آسٹریلیا کے سمندروں میں دھکیل دیتے ہیں
۔اس نے کئی دفاتر کے نام اور پتے بھی بتائے جو در پردہ انسانی سمگلنگ کا یہ
مذموم کام انجام دیتے ہیں ۔اس فلم کے اگلے سین میں ہم انڈونیشیا کے شہر
جکارتہ کے ایک تنگ گلیوں والے علاقے میں واقع ایک پاکستانی ریستوارن میں
پہنچ گئے ۔ چینل نائن کا یہ میزبان اور اس کا ساتھی یہاں بیٹھے ایک
پاکستانی اور ایک انڈونیشین سے بھاؤ تاؤ کر رہے تھے ۔ یہ بھاؤ تاؤ آسٹریلیا
جانے کے خواہش مند افراد کو غیر قانونی طریقے سے کشتیوں میں بٹھا کر
آسٹریلیا کے ساحلوں تک پہنچانے کے متعلق تھا ۔ وہیں بیٹھے بیٹھے انہوں نے
دس افراد کو آسٹریلیا پہنچانے کی ڈیل طے کر لی جبکہ یہ گفتگوبھی کیمرے میں
ریکارڈ ہو رہی تھی۔ بعد میں میزبان نے دونوں مقامات پرایجنٹ کے سامنے اپنی
اصلیت ظاہر کرکے اسے خوب آڑے ہاتھوں بھی لیا ۔ یوں اس ٹی وی اینکر نے
پاکستان کے مختلف شہروں اور انڈونیشیا سمیت مختلف ملکوں کا سفر کرکے اس ایک
گھنٹے کے پروگرام کے لیے مواد اور معلومات اکٹھی کیں ۔
اس صحافتی تحقیق پر کتنی محنت اور سرمایہ صرف ہوا ہوگا اس کا اندازہ لگانا
چنداں مشکل نہیں ہے ۔اس کے باوجود میزبان نے دورانِ پروگرام اپنی رائے دینے
سے گریز کیا۔ اس نے شرکا کے خیالات توجہ سے سنے اور انہیں پروگرام کا حصہ
بنایا ۔آسٹریلیا میں ٹی وی چینل چند ایک ہی ہیں۔ ان کے بیشتر پروگرام
تفریحی، معلوماتی، کھیل، موسیقی اور ذہنی آزمائش پر مبنی ہوتے ہیں ۔ خبروں
اور حالاتِ حاضرہ کے لیے ہر چینل نے شام کے وقت ایک گھنٹہ مختص کیا ہوا ہے
۔ اس میں بھی سیاسی خبریں بہت کم ہوتی ہیں کیونکہ عوام کو سیاست سے زیادہ
عوامی مسائل کے حل ، معاشی خوشحالی ، امنِ عامہ اور صحت و سلامتی سے دلچسپی
رہتی ہے ۔ اس لیے ٹی وی چینل سیاست دانوں کے بیانات کے بجائے تفریحی ،
معلوماتی اور عوام کے روزمرہ مسائل پر مبنی خبریں اور پروگرام دکھاتے ہیں۔
اس تفصیل اور پسِ منظر کو ذہن میں رکھ کر پاکستان کے ٹی وی ٹاک شوزدیکھیں
تو یوں لگتا ہے کہ عدالت سے باہر عدالت لگی ہوئی ہے اور اینکرز جج بن کر
فیصلے سنا رہے ہوتے ہیں۔یہ ہر فن مولا اور عقلِ کُل رکھتے ہیں۔ وہ بیک وقت
معیشت، سیاست ، حکومت ، انصاف ، مذہب اور عمرانیات پر اتنا عبور رکھتے ہیں
کہ تمام سیاسی قائدین ، ارکانِ پارلیمنٹ ، جج، سرکاری افسران ، اساتذہ،
علما، سرکاری افسران ، ماہرینِ اقتصادیات سمیت ہر شعبہ ِ حیات کے ماہرین کو
چیلنج کرتے نظر آتے ہیں ۔ وہ ججوں ، سرکاری حکام ، پولیس اور دوسرے محکموں
کی ترقیوں ، تعیناتیوں اور انتظامی معاملات میں کیڑے نکالنے اور مشورے دینے
میں مصروف ہوتے ہیں ۔ مختلف شعبوں کے ماہرین کے عمر بھر کے تجربوں کو جھٹلا
کر انہیں غلط ثابت کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ و ہ کسی بھی جماعت
، ادارے یا شخص کی نیت اور ارادے سے بھی قبل از وقت آگاہ ہوتے ہیں ۔ مثلاََ
انہیں علم ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان عثمان بزدار کو کچھ عرصے بعد تبدیل
کر دیں گے یا یہ کہ نواز شریف پارٹی کی قیادت شہباز شریف کو نہیں بلکہ مریم
نواز کو دیں گے یا آصف زرداری سیاست سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔
یہ اینکرز باہر نکل کر عوامی مسائل دکھانے کے بجائے سٹوڈیو میں بیٹھ کر
تندو تیز بحث کے ذریعے ہیجان برپا کرتے رہتے ہیں ۔ ان پروگراموں میں علمی ،
عقلی اورمعاشرتی مسائل پر بات نہیں ہوتی ۔عموماََ شخصیات اور ان کے کردار
زیرِ بحث رہتے ہیں جو سب سے آسان ہے مگر فروتر عقل کی نشانی ہے ۔ان اینکر
خواتین وحضرات کی مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں ہیں، جو صحافت کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے۔ ایسے میں ان سے متوازن
اور غیر جانب دار تجزیے کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ بعض میزبان مہمانوں کو
مدعو کر لیتے ہیں لیکن انہیں بولنے کا موقع نہیں دیتے یا پھر ان سے اپنی
مرضی کی بات کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے پروگرام کے ناظرین کو ہیجان
انگیزی اور سر درد کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ اسی طرح ہمارے رپورٹر حضرات
بھی خبر کے ساتھ اپنا تبصرہ دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ وبا کے اس زمانے میں
ہمارے ہاں خبروں کی بھرمار اور ایسی بے مقصد بحث نے لوگوں کو ذہنی مریض اور
چڑ چڑا بنا دیا ہے۔ان کی قوّتِ برداشت ختم ہوتی جارہی ہے ۔ اتنے واویلے میں
اصل خبر کا علم نہیں ہو پاتا ۔اصل خبر جاننے اور متوازن تبصرہ سننے کے لیے
بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی جانب رجوع کرنا پڑتا ہے ۔
ادبی ، معلوماتی ، تعلیمی اور فنون لطیفہ پر مبنی پروگرام دیکھنے کے لیے
آنکھیں ترستی ہیں۔ بچوں کے لیے معلوماتی اور تفریحی پروگرام نہیں ہیں
۔ادیبوں اور کتابوں کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ ادب معاشرتی رویوں کاعکاس ہوتا ہے
اور دلوں میں نرمی اور معاشرے میں مثبت قدریں پروان چڑھاتا ہے۔اعلیٰ
معاشرتی اقدا ر،بزرگوں کی روایات اور قومی تشخص کو اُجاگر کرنے والے
پروگراموں کی سخت کمی محسوس ہوتی ہے ۔ پاکستان کی تاریخ ، جغرافیہ،دلچسپ
مقامات ، دلکش علاقے، مختلف علاقائی ثقافت ، قومی مشاہیر ، کھیل اور ثقافت
دکھانے کا کہیں اہتما م نہیں ہے ۔ جب صرف پی ٹی وی تھا تو کبھی کبھارایسے
پروگرام دکھائی دے جاتے تھے۔ اب وہ بھی ہیجان انگیز خبروں اور مباحثوں کی
دوڑ میں شامل ہو گیا ہے ۔ اگر ہمارے یہ چینل معیاری پروگرام دکھانے سے قاصر
ہیں تو کم از کم قوم کو سیاسی گروہ بندی اور ذہنی خلفشار کی بھٹی میں تو نہ
دھکیلیں ۔ اینکر ز حضرات رجج بن کر فیصلے کرنے کے بجائے عوامی مسائل اُجاگر
کریں ۔ ذرائع نشرو اشاعت قوم کے مزاج کا رُخ بدل سکتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے
انہیں خود کو بدلنا پڑے گا۔ پہلے افراد پھر ادارے اور پھر قوم تبدیل ہوتی
ہے ۔شاعرِ مشرق نے فرمایا ہے :
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا
|