وطن عزیز میں فی الحال دو طرح کی ریاستیں ہیں ایک جہاں بی
جے پی برسرِ اقتدار ہے اور دوسرے جن میں غیر بی جے پی جماعتوں کی حکومت ہے
۔ دونوں جگہ قانون ساز اسمبلی ہے اس لیے قوانین خوب بنتے ہیں اب ان میں سے
کتنے پر عملدرآمد ہوتاہے یہ اور بات ہے۔ بی جے پی والے صوبے مثلاًاتر
پردیش اور گجرات میں اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کے لیے ’لو جہاد‘ کا ہواّ
کھڑا کرکے مبینہ طور پر جبراً تبدیلیٔ مذہب کو لے کر سخت قوانین بنائے جاتے
ہیں ۔ اس کی مثال ہریانہ ہے کہ جہاں کسانوں کے معاملے میں جب بی جے پی
سرکار بہت بدنام ہوگئی تو وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کو اچانک جبراً
تبدیلیٔ مذہب سے نمٹنے کے لیے قانون کی ضرورت کا خیال آگیا اور انہوں نے
اس سلسلے میں جلد ہی ایک مسودہ تیارکرنے کا اعلان کردیا۔ ان کے مطابق
ہریانہ کے کئی حصوں سے مذہب کی تبدیلی کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ ان
واقعات کو روکنے کے لیے ایک قانون کی ضرورت ہے۔ منوہر لال شاید نہیں جانتے
مذہبی آزادی میں اس کی تبدیلی کا بنیادی حق شامل ہے۔ اس پر قدغن لگانا
سراسر لاقانونیت ہے لیکن۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ گجرات کے ’لو جہاد
قانون‘ کی کچھ شقوں پر گجرات ہائی کورٹ نے سخت اعتراض کرکے روک لگا دی ہے۔
شادی کے ذریعہ سے جبراً یا دھوکہ دہی سے مذہب تبدیلی کے لیے سزا دینےکی
خاطرگجرات کی ریاستی حکومت نے 15 جون کو مذہبی آزادی (ترمیم) ایکٹ 2021 کو
نوٹیفائی کیا ۔ جمعیۃ علماء ہند کے گجرات شاخ نے قانون کی کچھ ترمیم شدہ
دفعات کو غیر آئینی قرار دے کر گجرات ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو ایک اہم
عبوری فیصلہ سامنے آیا۔ چیف جسٹس وکرم ناتھ نے آئندہ سماعت تک دفعہ 3، 4،
4 اے سے لے کر دفعہ 4 سی، 5، 6 اور 6 اے کے نفاذ کو روک دیا کیونکہ ان کے
مطابق اگر ایک مذہب کا شخص کسی دوسرے مذہب کے فرد کے ساتھ طاقت استعمال کیے
بغیر، کوئی لالچ دیے بغیر یا دھوکہ کا استعمال کیے بغیر شادی کرتا ہےتو
ایسی شادیوں کو غیر قانونی اورمذہب کی تبدیلی کے مقاصد سے کی گئی شادی قرار
نہیں دیا جا سکتا۔ گجرات ہائی کورٹ کی کی بنچ نے لوگوں کو غیر ضروری
پریشانی سے بچانے کے لیے یہ عبوری حکم دیا ہے۔
اس عدالتی فیصلے کے بین السطور یہ پیغام چھپا ہوا ہے کہ سیاسی دباو کے تحت
غیر فطری انداز میں جب ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں اور ان پر عملدرآمد کی
کوشش ہوتی ہے تو عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک مثال
گزشتہ دنوں گجرات کے شہر بڑودہ میں سامنے آئی جہاں ایک 25 سالہ خاتون نے
جون 2021 میں گوتری پولیس تھانہ کے اندر ایف آئی آر درج کرائی ۔ اپنی
شکایت میں اس نے فروری 2021 کو زبردستی اور دھمکی دے کر شادی کرنےو مذہب
تبدیل کرانے کا الزام عائد کیا ۔ لیکن آگے چل کر اس نے خود ایسی کسی بھی
بات سے انکار کر دیا اور ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر بتایا کہ اس پر شادی
اور مذہب تبدیلی کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
کسی کے دباو میں اس نے پہلی ایف آر آئی درج کرائی تھی لیکن جب حالات
معمول پر آئے تو وہ سچ بولنے لگی۔ اب وہ چاہتی ہے کہ اس کی جانب سے 17 جون
2021 کو درج کردہ ایف آئی آر مسترد کر دی جائے۔اس طرح گجرات مذہبی آزادی
ترمیم (لو جہاد) قانون کے تحت درج مقدمہ میں ایک دلچسپ موڑ آ گیا اورعدالت
کویہ حکم دینا پڑا۔
ایک طرف تو عوام کا جذباتی استحصال کرنے کی خاطراس طرح کے قوانین وضع کیے
جاتے ہیں لیکن دوسری جانب کچھ غیر بی جے پی ریاستوں میں ہجومی تشدد جیسے
اہم مسئلہ پر بھی قانون سازی ہو رہی ہے۔ مغربی بنگال میں ماب لنچنگ سے
متعلق اسمبلی میں بل منظور کرکےاس سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو تاعمر
قید کی سزا یا متاثرہ کے موت ہوجانے پر پھانسی کے ساتھ پانچ لاکھ جرمانہ
لگانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس قانون کی حمایت اسمبلی کے حزب مخالف
جماعتوں نے تو کی مگر بی جے پی نے بھی مخالفت نہیں کی حالانکہ گوناگوں
وجوہات کی بنا پر تائید سے بھی گریز کیا ۔اب جھارکھنڈ اور بہار جیسی
ریاستوں میں اس طرح کے قانون کا مطالبہ ہونے لگا ہے جبکہ مر کز کو بھی
ہجومی تشدد کی روک تھام کے لئے ایسا سخت قانون وضع کرنے کے لیے کہا جارہا
ہے۔ ماب لنچنگ پر قانون کے ذریعہ لگام لگانے والی مغربی بنگال ملک میں
دوسری ریاست ہے۔ اس سے قبل راجستھان کی ریاستی حکومت ایسا قانون بناچکی ہے
۔ ہجومی تشدد میں اضافہ کی ایک وجہ سماج کے غنڈہ عناصر میں قانون کے خوف کا
نکل جانا ہے۔ اس نےبدمعاشوں کے حوصلے بلند کردئیےہیں ۔ اسی لیے آئے دن ایسی
کوئی نہ کوئی واردات سامنے آجاتی ہے۔ اس معاملے میں تساہلی برتنے والے یا
مجرمین کے بجائے الٹامظلومین پر کارروائی کرنے والے پولیس افسران کی سرزنش
بھی ضروری ہے۔
ہجومی تشدد میں انتظامیہ کی جانبداری کا جیتا جاگتا ثبوت پہلو خان کا
معاملہ ہے۔ یکم اپریل 2017 کو وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ اپنی ہی گاڑی میں
سرکاری منڈی سے گائے خرید کر راجستھان سے ہریانہ کے نوح ضلع جا رہے تھے۔ ان
کو جے پور،دہلی شاہراہ پر بہروڑ کے پاس مبینہ گئو رکشکوں نے روکااور گائے
کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر حملہ کر دیا۔ دو دن بعد پہلو خان کا قریب کے
ایک اسپتال میں انتقال ہوگیا ۔ اس معاملے میں دو عدد ایف آئی آر درج
ہوئیں۔ ایک پہلو خان پر حملہ آور بھیڑ کے خلاف تھی اور دوسری میں خود پہلو
خان، ان کے بیٹوں اور ٹرک کے ڈرائیور کو ملزم بنایا گیا تھا۔ ان پر گایوں
کو غیر قانونی طریقے سے ریاست کے باہر اسمگلنگ کا الزام لگا تھا۔ دوسری
والی ایف آئی آر پر چارج شیٹ داخل ہونے تک راجستھان میں سرکار بدل گئی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرحوم پہلو خان اور ان کے بیٹوں کو راجستھان ہائی
کورٹ نے 2019 میں بری کر دیا ۔ اس کے علاوہ حملہ کرنے والے سبھی ملزمین کو
بھی دو سال قبل الور کی ایک ذیلی عدالت نے بری کر دیا ۔
اس دوسرے فیصلے کو پہلے تو راجستھان حکومت نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور
اس کے بعد پہلو خان کے بیٹوں نے بھی اپیل داخل کرکے کہا کہ اس معاملے میں
کئی گواہوں نے ملزمین کے نام بتائے تھے۔ اپیل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ
لنچنگ کے دوران پہلو خان کو جو سنگین چوٹیں آئی تھیں، انہی کے سبب وہ فوت
ہوئے ۔ اس ہجومی تشدد کے دوران استعمال کیے جانے والا اسلحہ بھی ملزمین کے
پاس سے برآمد ہوا تھااور گواہوں کے بھروسے لائق بیانات بھی تھے اس کے
باوجود ذیلی عدالت نے اس کا نوٹس نہیں لیا اور ملزمین ویپن یادو، رویندر
کمار، کالو رام، دیانند، یوگیش اور بھیم سنگھ کو بری کر دیا۔ پہلو خان کے
بیٹوں ارشاد اور عارف کی عرضی کو قبول کرتے ہوئے راجستھان ہائی کورٹ کے
جسٹس گووردھن بردھر اور جسٹس وجے بشنوئی کی بنچ نے اس کو راجستھان حکومت کی
اپیل کے ساتھ جوڑ دیا ہے نیز ملزمین کے خلاف نئے سرے سے وارنٹ جاری کر دیا
ہے۔ ہجومی تشدد پر وزیر اعظم سے لے کر موہن بھاگوت تک سبھی بہت کچھ لفاظی
کرتے رہتے ہیں لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ مجرمین کو کوئی سزا
نہیں ملتی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پہلو خان جیسے مظلومین کے قاتلوں کو اگر ان
کے کرتوت کی قرار واقعی سزا مل جائے تو یقیناً ہجومی تشدد کے واقعات پر کسی
حد تک لگام لگے گی۔ مایوسی چونکہ کفر کا پیش خیمہ ہے اس لیے یہ شعر امید کی
کرن جگاتاہے؎
شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے
|