ہمارے بھارت کے وزیر اعظم آجکل بھارت میں ہی ہیں اور آج انھوں نے پارلیمنٹ
میں یہ بات کھل کر کہی کہ ’بھارت چھوڑو(Quit India)‘ کا نعرا ایک مسلمان نے
ہی دیا تھا لیکن نعرہ دینے والے مسلمان کا نام نہیں لیا۔اب یہ تو میں نہیں
کہوں گا کہ ان کو نام یاد نہ رہا ہوگا،ہوسکتا ہے نام لینا ضروری نہ سمجھا
ہو۔یوسف ظفر مہر علی ایک مجاہد آزادی تھے جن کی خدمات اور دیگرمعلومات کے
بارے میں آپ سے شیئر(ساجھا) کرنے کی خواہش ہو رہی ہے۔ یوسف ظفر مہر علی کی
طرح بے شمارمسلم مجاہد آزادی تاریخ کے اوراق میں بند پڑے ہیں۔ایک اطلع کے
مطابق انڈیا گیٹ ،دلّی پر پہلی جنگ آزادی کے شہیدوں کے کل نام95300درج ہیں
جن میں61350نام مسلمانوں کے ہیں باقی دیگر لوگ ہیں۔
یوسف ظفر مہر علی کی پیدائش۲۳؍ ستمبر1903کوبمبئی جو اب ممبئی ہے میں ہوئی
تھی۔ ان کے دادا نے بمبئی میں ایک کپڑا مل لگوائی تھی۔شاید بمبئی کی یہ
پہلی کپڑا مل تھی اس طرح سے ان کے والدبمبئی کے بڑے تاجر تھے۔یوسف ظفر مہر
علی نے شاردا کالج بمبئی سے ہائی اسکول پاس کیا ۔ایلفنسٹن کالج سے تاریخ
اور معاشیات سے بی․اے․کی ڈگری حاصل کی اور پھر سرکاری کالج سے قانون کی
پڑھائی کرنے لگے۔لیکن وہ تعلیم کے دوران بھی بھارت کی آزادی کے لیے سرگرم
رہے۔
یوسف ظفر مہر علی عام طور پر یوسف مہر علی کے نام سے مشہور تھے۔اس لیے میں
بھی ان کا رائج نام ہی استعمال کروں گا۔یہ امیر گھرانے کے فرد تو تھے ہی
ساتھ ہی پھیلا ہوا کاروبار بھی تھا اس کے باوجود ملک کی آزادی کے لیے مشقت
جھیل رہے تھے۔غریب مزدور اور کسانوں کی پریشانیوں کی طرف بھی پوری توجہ
تھی۔
اسی دوران 1928میں انگریزوں کاسات ممبران پر مشتمل ’سائمن کمیشن‘ بمبئی
پہنچا۔ان کے آنے کا مقصد کچھ ضابطوں میں سدھار کرنا تھا۔اس کمیشن میں
انگریزوں کے علاوہ کوئی بھی بھارتی شامل نہیں کیا گیا تھا۔یہ بھارتیوں کی
بے عزتی تھی جس سے بھارتیوں میں غصّہ ٹوٹ پڑا۔ اسی سال یوسف مہر علی نے
’بامبے یوتھ لیگ‘ قائم کیا اور سائمن کمیشن کے خلاف مہم چھیڑ دی۔اس کے بعد
بامبے بندر گاہ پرنو جوانوں کو قلی کی شکل میں پہنچنے کا منصوبہ بنایا
حالانکہ منصوبہ لیک ہو گیا اور انگریز ہوشیار ہو گئے مگر یہ بے خوف مجاہد
ذرا بھی ڈرا نہیں اور اپنی تنظیم کے نوجوانوں کے ساتھ بامبے بندرگاہ پہنچ
گیا۔وہاں پرسائمن کمیشن کے ممبران کی مخالفت ،کالا جھنڈااور ’سائمن گو بیک‘
کے نعروں سے کی۔ایسے میں ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ یوسف اور ان کے نوجوان
ساتھیوں کی گونج اتنی شدید تھی کہ راتوں رات اس احتجاج کی خبرآگ کی طرح
پھیل گئی جس کے بعد مہاتما گاندھی کے ساتھ ہی ہر کسی کے زبان پر ’سائمن گو
بیک‘ کی آواز بلند ہونے لگی۔
بھارت بھر میں انگریزوں کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور ’سائمن گو بیک‘ کے
نعرے کے ساتھ ہی یوسف مہر علی کا نام بھی مشہور ہو گیا۔ان کی بے خوفی
اورمقبولیت سے انگریزوں کو ایک ڈر ستانے لگا اسی وجہ سے انگریزوں نے ان کی
قانون کی پریکٹس کرنے پر روک لگا دی لیکن یوسف مہر علی کے جوش میں کوئی کمی
نہیں آئی۔
آگے جب سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو یوسف اور ان کے نوجوان رضاکاروں
نے عوامی حوصلوں کو برقرار رکھنے کے لیے انتھک کوششیں کیں۔
اس کے بعد نمک تحریک شروع ہوئی جسمیں یوسف بڑے جوش و خروش کے ساتھ کود
پڑے۔اس تحریک میں کئی کانگریسی نیتاؤں کو جیل ہو چکی تھی لیکن یوسف نے اُس
وقت تک اس تحریک کو جاری رکھا جب تک وہ بھی جیل نہیں چلے گئے۔1930میں ان کو
گرفتار کیا گیا اورچار ماہ کی قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔1932میں ان کو
دوبارہ جیل ہوئی۔اس بار ان پربرٹش حکومت کے خلاف سازش کرنے میں کے جرم میں
سزا ہوئی تھی۔اس درمیان انہیں کئی انقلابی رہنماؤں سے ملنے کا موقع ملااور
ان سے کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔
جیل سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے ’جے پرکاش نرائن‘، ’اشوک مہتا‘، ’نریند
دیو‘اور ’مسانی‘ جیسے لوگوں سے رابطہ قائم کر کے کانگریس سوشلسٹ پارٹی سے
جا ملے۔اس کے تنظیم کو متحد کیااور کسان کوآپریٹیو سوسائٹیزاور ٹریڈ
یونینوں کو مضبوط بنانے کی کوششیں کرنے لگے۔
1938کی عالمی سقافتی کانفرنس میں بھارتی وفد کی قیادت کی اور یہاں انہوں نے
محسوس کیا کہ مغربی ممالک کے مقابلے میں بھارتی مسائل پرادب کی کمی ہے۔جس
کے بعد انہیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ’لیڈر آف انڈیا‘ نام کی کتاب
تصنیف کی۔
اگلے کچھ سالوں تک برٹش کے خلاف جنگ جاری رکھی اور’ ستیہ گرہ‘تحریک میں بڑا
کردار ادا کیا۔کہتے ہیں کہ ان کو کُل آٹھ بار جیل جانا پڑاپھر بھی انہوں نے
ہمت نہیں ہاری اور لگا تارکچھ نہ کچھ کر دکھانے میں لگے رہے۔1942میں یہ
لاہور جیل میں تھے کہ آئی․این․سی․ نے بامبے میئر کے انتخاب کے لیے نامزد
کیا۔انتخاب میں حصہ لینے کے لیے انکو رہا کرنا پڑا اوروہ بڑی آسانی کے ساتھ
انتخاب جیت گئے۔
آزادی کی تحریک کوآگے بڑھانے کے لیے،گاندھی جی کے سامنے کئی نیتاؤں کے کہے
گئے نعرے پیش کیے گئے لیکن گاندھی جی کوکوئی نعرا پسند نہیں آیا۔اسی وقت
مہر علی نے اس تحریک کو Quit India (بھارت چھوڑو) نام دیا جسے گاندھی جی نے
پسند کیا اس کے بعد انگریزوں کے خلاف ’بھارت چھوڑو‘تحریک شروع ہو گئی۔اس
تحریک کو مقبول بنانے کے لیے یوسف مہر علی نے Quit India نام کی ایک کتاب
بھی تخلیق کر ڈالی۔اس تحریک میں بہت سے نیتا شامل ہو گئے۔انگریزوں نے ان کو
اور ان کے ساتھیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔جیل میں یوسف مہر علی کو دل کا
دورا پڑا۔جیل حکام نے ان کو کسی بڑے اسپتال میں بھیجنے کی سفارش کی ۔مہر
یوسف علی نے ایک شرط رکھی کہ میرے ساتھ میرے سبھی ساتھی کا علاج وہیں ہوگا
لیکن حکومت نے شرط نہیں مانی۔
مہر یوسف علی ایک کلا کار بھی تھے، وہ پینٹنگ بناتے تھے۔انہو ں نے 1949میں
اپنی تصاویر کی نمائش کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے آزادی جد جہد کی جھلک
سے اپنی تصویری فنون سے تعارف کرایا۔ ساتھ ہی انھوں نے اور بھی کتابیں
تحریر کیں۔لیکن آہستہ آہستہ یوسف مہر علی کا آخری وقت آ ہی گیا۔آخرکار
۲؍جولائی 1950کو مہر یوسف علی محض47سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملے۔ان
کی موت سے بمبئی میں غم کے بادل چھا گئے کیونکہ عوام ان کو بہت چاہتی
تھی۔انتقال کے دوسرے دن بمبئی کے ہر چیز بند تھی چاہے وہ ٹرین ہو یا اسکول
ہو۔
مہریوسف علی کے کچھ خاص:
٭ وہ نیشنل ملیشیا، بمبئی یوتھ لیگ اور کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے بانی تھے۔
انھوں نے کسانوں اور ٹریڈ یونین کے متعدد تحریکو میں اپنا کردار ادا
کیا۔انھوں نے’ سائمن گو بیک‘ کی اصطلاح تیار کی۔
٭ انہوں نے ’بھارت چھوڑو‘ کی اصطلاح تیار کی اور وہ برطانوی حکومت سے آزادی
کے لیے بھارت کی آخری ملک گیرمہم کے لیے مہاتما گاندھی کے ساتھ’بھار ت
چھوڑو‘ تحریک کاحصہ تھے۔وہ نہ صرف تحریک میں شریق تھے بلکہ سب سے آگے تھے۔
٭ وہ بھارت کی آزادی کے جنگ جو اور سوشلسٹ رہنما تھے۔ وہ 1942میں بمبئی کے
میئراس وقت منتخب ہوئے تھے جب وہ ’لاہور سنٹرل جیل‘ میں قید تھے۔
٭ میئر رہتے ہوئے انہوں نے کئی بڑے کام کیے اور مسلسل مزدوروں اور تاجروں
اور بلدیاتی انتظامیہ کی مضبوطی کے لیے کام کرتے رہے۔
٭ ان کے سوانح نگار’ مدھو دنڈوتے‘ کے مطابق ’وہ دن جب انہوں نے بیچلر ڈگری
حاصل کی تو یہ قومی اہمیت کا حامل نکلا۔ انہوں نے 8؍اگست 1925کو تاریخ اور
اقتصادیات میں بے․اے․پاس کیا۔ 1942میں اسی دن بھارت چھوڑوقرار داد منظور
ہوا۔اور 26؍جنوری 1929کوقانون کی ڈگری حاصل کی جس دن کو آج یوم جمہوریہ کے
نام سے جانا جاتا ہے۔
qq
'زرا یاد کرو قربانی!
|