کاکولیات از بریگیڈئر(ر) صولت رضا

کاکول ایک ایسا لفظ ہے جو ہمیشہ سے میرے ذہن محفوظ چلا آرہا ہے ۔ مجھے خود بھی علم نہیں کہ یہ لفظ مجھے کیوں اچھا لگتا ہے۔پا ک فوج کے افسروں اور جوانوں کو چلتے پھرتے، سلیوٹ مارتے اور ہر آزمائش کی گھڑی میں بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں تو میرا دل بھی کاکول جانے کو کرتا ہے ۔ بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ کاکول اکیڈمی، پاکستان آرمی کے کمیشنڈ آفیسر بننے کے آرزو مند نوجوانوں کی زندگی کا پہلا پڑاؤ ہے۔ایک مرتبہ ایئر وائس مارشل (ر) فاروق عمر کے ہمراہ مانسہرہ جانے کا اتفاق ہوا تو راستے میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کا بورڈ دیکھ کر دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی اکیڈمی میں داخل ہوکر سونے کو کندن بنتا ہوا دیکھوں لیکن یہ خواہش دل میں ہی رہ گئی اور ہم وہاں سے گزر گئے ۔

"کاکولیات" یہ کتاب شروع سے لے کر آخر تک میں نے پڑھی ہے ،جس کے ہر صفحے،ہر پیراگراف ،ہر سطر بلکہ ہر ہر لفظ میں بلِا کی واقعاتی خوبصورتی اور لفاظی نظر آتی ہے کہ پڑھنے والے کا دل جھوم جھوم اٹھتا ہے ۔ اس کتاب میں وہ سب کچھ موجود ہے جو کاکول اکیڈمی میں کمیشن حاصل کرنے والے آرمی آفیسر پر گزرتی ہے ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ میرے لیے واقعی یہ ایک انکشاف کا درجہ رکھتی ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے پی ٹی وی پر قسط وار دکھائے جانے والے ڈرامے "عہد وفا "میں بھی کاکول اکیڈیمی کے ماحول کی چند جھلکیاں دیکھنے کو ملی تھیں ۔ جو اپنی مثالِ آپ تھیں ۔

بریگیڈئر صدیق سالک اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ کیپٹن صولت رضا سنگلاخ فوجی زمین سے پھوٹنے والا تازہ چشمہ ہے ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ صولت رضا بھی چشمے سے سمندر بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔صولت رضا کی فوجی زندگی کا بیشتر حصہ پہاڑوں پر گزرا ۔وہ اپنی امیدوں کے آبگینے اٹھائے کوہ کوہ دمن دمن پھرتا رہا ہے۔ اس کا پہلا پڑاؤ کاکول اکیڈمی تھا جس کی روداد آپ کے سامنے ہے ۔ میں تو پی ایم اے نہیں گیا لیکن وہاں تربیت پانے والوں کا کہنا ہے کہ کاکول ایک کٹھالی ہے جہاں کچے لوھے کو پگھلاکر ملک کے دفاعی حصار کے قابل اعتماد ستون تیار کیے جاتے ہیں ۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ "کاکولیات"بریگیڈئر صولت رضا کی اپنی سوانح عمری ہے اس کتاب میں وہ تمام واقعات نہایت خوبصورتی سے بیان کردیئے گئے ہیں جن سے انہیں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے دوران واسطہ پڑا۔لیجیئے یہ داستان ہم انہی کی زبان سے سنتے ہیں -:ایک روز میں نے پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس کے کنارے بیٹھ کر پاک فوج میں کمیشن کے لیے فارم بھرا۔ یہ میری زندگی کا اہم فیصلہ تھا جسے فیصلہ کن حیثیت دینے کے لیے انٹرویو، میڈیکل ، کوہاٹ مارکہ آئی ایس ایس بی اور فائنل کال کے لیے انتظار کی گھڑیاں ایسے نازک لمحات سے گزرنا باقی تھا۔بہرکیف جلد ہی انٹرویو کال آگئی۔مقررہ تاریخ اور وقت پر ہم حاضر ہوئے ۔انٹرویو ، کمیشن کا سنسنی خیز مرحلہ تھا۔انٹرویو صبح سے دوپہر تک جاری رہا ۔انٹرویو کے بعد پاؤں کے ناخن سے سر کے بال تک سارے جسم کا تحریری اور زبانی معائنہ کیا گیا۔یہاں سے کامیابی کے بعد اگلا مرحلہ آئی ایس ایس بی کا تھا جس کا امتحان پاس کرنے کے لیے ہمیں کوہاٹ جانا پڑیگا ۔ آئی ایس ایس بی کا نام تو سنا تھا لیکن اس سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا ۔ چنانچہ وہاں سے بلاوا آنے کے بعد ہم کوہاٹ جا پہنچے ۔ اس وقت 1971ء کی پاک بھارت جنگ شروع ہو چکی تھی اور ہر جگہ بلیک آوٹ ہمارا استقبال کرتا ۔کوہاٹ میں سائرن اور جانوروں کی چیخ وپکار کے سوا کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔صبح کو آئی ایس ایس بی کا الاٹ کردہ نمبر سینے پر چسپاں کیے امتحانات کی تھوک منڈی میں گھس گئے ،سب سے پہلے دکان سکریننگ ٹیسٹ کی تھی ۔نصف کے قریب امیدوار یہیں سے پلٹ گئے ، جو باقی رہ گئے وہ آخر تک برسرپیکار رہے۔دھڑکتے دل کے ساتھ یہاں سے مبارک باد وصول کی ۔شام ڈھلے لاہور واپس پہنچے ۔ایک ڈیڑھ ہفتے بعد فائنل سلیکشن کی کال بھی آگئی ۔روزانہ رات کو اکیڈمی کے سہانے خواب آتے رہے ۔ایک روز اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنے کے لیے میں ریل گاڑی سے براستہ حویلیاں جا پہنچا۔حویلیاں ریلوے اسٹیشن کے چائے خانے پر پہلے ہی نہ جانے کتنے کیڈٹ چائے پینے میں مصروف تھے ۔میں نے بھی گرما گرم چائے کا ایک کپ پیا ۔ سردی عروج پر تھی ۔اسی اثناء میں ہاکراخبار لے آیا ابھی اخبار کا مطالعہ جاری تھا کہ ایک چاق و چوبند فوجی جوان پر نظر پڑی جس کے بازو پر ریسپشن (استقبالیہ )کا بیج لگا ہوا تھا ۔دوسرے بازو کے کندھے پر چند فیتیاں دکھائی دیں ۔سب اپنا اپنا سامان اٹھا کر اس فوجی گاڑی پر سوار ہوگئے۔گاڑی چلی تو حد نگاہ بلند و بالا پہاڑ ،سرسبز گاؤں اور بل کھاتے ہوئے ندی نالے دکھائی دیئے ۔یہ ایبٹ آباد تھا ۔ایک خوبصورت شہر اور صحت افزا مقام ۔میں اسے پہلی بار سرد اورتازہ ہوا کے ساتھ دیکھ رہاتھا۔بس نے دو تین موڑ کاٹے تو میری نگا ہ ایک بورڈ پر جم گئی جس پر موٹے حروف میں P.M.Aلکھا تھا۔ چند لمحوں کے بعد بس نے سیاہ پھاٹک عبور کیا اور بس ایک بلڈنگ کے سامنے رک گئی ۔بعد ازاں ہمیں ایک ہال نما کمرے میں لیجایا گیا جہاں پاک فوج کے افسر دیدہ زیب وردیوں میں ملبوس ہمیں خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ہم نے کاغذات جمع کرائے ۔پی ایم اے نمبر اور کمپنی نمبر الاٹ ہوا ۔اب ہم جنٹلمین کیڈٹ بن چکے تھے ۔میں ابھی بلڈنگ کے برآمدے ہی میں چل رہا تھا کہ ایک رعب دار آواز سنائی دی ۔ Come here۔میں سیدھا ان کے پاس پہنچا ۔ایک نوجوان کرسی پر براجمان مسکرا رہا تھا ۔میں نے جوابا مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ بڑھایا السلام علیکم ۔ ذرا دیکھ کر جانا سینئر بہت زیادہ ہیں ۔انہوں نے نصیحت کی ۔ میں شکریہ ادا کرکے نیچے اترا ۔ مجھے ٹیپو کمپنی میں پہنچنا تھا ، گائیڈ جو میرا سامان اٹھائے چند قدم آگے چل رہا تھا، مجھے اپنی عینک صاف کرتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا۔ سر آپ یہ کیا کررہے ہیں ۔ابھی کوئی دیکھ لے گا۔ میں نے بیتابی سے پوچھا، کون دیکھ لے گا ۔میری بات پر وہ مسکرانے لگا ۔اسی اثنا میں تین چار کیڈٹ نظر آئے ۔نیلے کوٹ اور ان کی جیب پر پی ایم اے کا سرخ طغری دکھا ئی دیا۔ میں نے سوچا ان سے بھی سلام دعا کرلوں ۔جب وہ قریب آئے تو میں نے مفلر گلے سے اتارا ،اسے زور سے جھٹکا دیا پھر لپیٹ لیا ۔اب ان کے چہروں سے مسکراہٹ ،ہنسی اور قہقہے رخصت ہوچکے تھے ،بے پناہ سنجیدگی اور خاموش غصہ ان کے چہرے پر نمایا ں تھا۔ اخلاقی روایت کے مطابق میں پہلے مسکرایا ۔ادھر سے ہاتھ ندارد ۔ میں نے اپنے ہاتھ دوبارہ جیب میں ڈال لیے اور السلام علیکم کہنے کے بعد کہا ۔آج موسم بڑا خوش گوار ہے ۔آپ کیسے ہیں ؟جواب میں خاموشی ، تاہم ان کی آنکھیں جو مبلغ آٹھ عدد تھیں ،میرا تعاقب کررہی تھیں ۔ایک خوش پوش کیڈٹ پوری قوت سے بولا ۔ you Get Down ، سٹارٹ فرنٹ رول ۔

میں نے گھبراہٹ کے عالم میں نیچے دیکھا تو پکی سڑک۔پھر اپنے آپ کو دیکھا ۔اکلوتا گرم سوٹ ۔ کریم رول سے تو واقفیت تھی میں سمجھا کہ فرنٹ رول بھی کریم رول کا دور نزدیک کا رشتہ دار ہی ہوگا ۔اس لمحے میں خود کو کوسنے لگا ۔کاش سامان اٹھانے والے کی ہدایات پر عمل کرتا۔میں نے سڑک کے کنارے ایک طرف کھسک کر پہلے مفلر اتارا ۔پھر کوٹ اتارنے لگا کہ سڑک پر بیٹھنے سے میلا نہ ہوجائے ۔میری یہ حرکت دیکھ کر وہ شدت سے للکارے ۔ناؤ سٹارٹ فرنٹ رول ۔پھر وہ کہنے لگے اپنا سر سڑک پر رکھو ۔کیوں کا سوال ہی نہیں تھا ۔سررکھا تواحساس ہوا کہ دوست نے دونوں ٹانگیں پکڑ کر ہوا میں بلند کردی ہیں۔اب ہم غیر فطری انداز میں ایستادہ تھے۔کوٹ کی جیب سے سکے گرنے لگے۔انہوں نے اچانک ٹانگیں چھوڑ دیں ۔وہ درخت کے ٹوٹے ہوئے تنے کی طرح پہلے ڈگمگائیں پھر مخالف سمت میں زمین کو چھو لیا ۔دس از فرنٹ رول ۔ رائٹ سر ۔ میں زمین پر لیٹا دوسرے حکم کا منتظر تھا ۔ناؤ گیٹ اپ ۔چلے جاؤ ۔ میں نے رہائی پاتے ہی ہاتھ اٹھا کر یوں سلام کیا جیسے مشاعروں میں شاعر داد وصول کرتے ہیں ۔ سلام کا صلہ یہ ملا۔کہ دوبارہ طلبی ہوگئی۔یہ کون سا طریقہ ہے؟ کیڈٹ اس طرح سلام نہیں کرتے ۔اس مرتبہ ان کا لہجہ نسبتا نرم تھا۔ کہو السلام علیکم سر ۔میں نے ایک مرتبہ سلام کیا تو حکم ملا ایک سو مرتبہ ایسا کہو۔پاکستان ملٹری اکیڈمی میں یہ میرا پہلا دن تھا۔

روڈ مارچ اور لانگ مارچ کے بارے میں توسنتے آئے ہیں لیکن جس روٹ مارچ کا ذکر بریگیڈئر (ر)صولت رضا نے اپنی کتاب "کاکولیات"میں کیا ہے اس کے بارے میں پڑھ کے تو آنکھوں میں آنسو بھرآتے ہیں کہ کس قدر سخت اور خوفناک کسوٹی سے کمیشن حاصل کرنے والے کیڈٹوں کو گزرنا پڑتا ہے ۔ بریگیڈئر(ر) صولت رضالکھتے ہیں کہ پی ایم اے میں آئے ہوئے ابھی تین ہفتے ہی گزرے ہونگے کہ عیدقربان آگئی ،ابھی حقوق اﷲ کے تقاضے بمشکل پورے کیے تھے کہ گھر والوں نے ایبٹ آباد والی بس پر بٹھا دیا۔ابھی پی ایم اے میں پہنچے ہی تھے کہ سینئر کیڈٹ نے سگنل اپ کردیا۔ ان کے حکم پر اٹیچی کیس اپنے سر پر رکھا اور ہم بیرک کے اردگرد چکر لگانے لگے ۔یہاں سے چھٹکارا ملا تو چند دن بعد ہی پلاٹون کمانڈر نے روٹ مارچ کا بتایا ۔نقشے پر ہدایات دیں اور آنریری عہدے تقسیم کیے ۔ ہمارے اردلی نے دو عدد کمبل ،مچھر دانی ،برساتی،گراؤنڈشیٹ ،براؤن بوٹ کا جوڑا،کالے بوٹ ،سوئی سے لے کر دال ماش تک تقریبا چالیس اشیاء سمیت وہ سامان جسے ہم نے روٹ مارچ کے دوران اٹھا نا تھا، پیک کردیا۔جب تمام کیڈٹ قطار در قطار کھڑے ہوگئے تو پلاٹون کمانڈر نے ہم سے مورال کا پوچھا ۔ہم نے بیک آواز کہا مورال بہت اونچا ہے۔چنانچہ ہم نے الوداعی نظروں سے ملٹری اکیڈمی کی خوبصورت عمارت کو دیکھا ابھی ہم بمشکل سو گز ہی چلے ہونگے کہ ایک صاحب پریشان نظرآئے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے وہ اپنا لنچ کمرے میں ہی بھول آئے ہیں ،دوسرے کیڈٹ نے کہا کوئی بات نہیں ڈنر کھا لینا۔یہ بات درست تھی کیونکہ سات دنوں کالنچ وغیرہ ہمارے کندھوں پر سوار تھا۔

پہلے دن کا سورج نصف النہار پر پہنچا تو احساس ہوا یہ روٹ مارچ ہے، تماشا نہیں۔کڑاکے کی سردی میں پسینہ ساون بھادوں کی یاد دلا رہا تھا۔بہرکیف سورج غروب ہوتے ہی کیڈٹس ماضی کی ڈراؤنی کہانیوں کے پس منظرکے ساتھ ایک قبرستان میں جا پہنچے ۔چاروں طرف مہیب خاموشی تھی ۔کیڈٹوں کی نقل و حرکت نے ماحول کو مزید پراسرار بنادیاتھا ۔ہم نے قبرستان کا جائزہ لیا اور یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ چند قبریں پختہ بھی ہیں ۔قبروں کے اردگرد کی پختگی واحد ہمارا سہارا تھی۔ابھی ہم قبرستان میں بستر لگا ہی رہے تھے کہ ایک جانب سے شور اٹھا سانپ سانپ۔کیڈٹ پلاٹون کے ڈانٹنے سے یہ شور سانپ کی طرح غائب ہو گیا ۔سارے دن کی تھکن تھی ۔جی چاہتا تھا کسی خالی قبر میں گھس جائیں ۔ادھر کھلا آسمان اور خنک ہوا ہمیں زندہ رکھنے کا تہیہ کیے ہوئے تھی ۔کہ اچانک بادل کی گرج چمک نے ہمیں چوکنا کردیا۔الہی خیر ۔ بارش آگئی تو کہاں جائیں گے۔اس قبرستان میں تو کوئی چھتا ہوا مقبرہ بھی نہیں ،جہاں پناہ لے سکیں ۔گرج کے ساتھ بجلی چمکی تو یقین ہوگیا کہ بارش ضرور آئے گی ۔دیکھتے ہی دیکھتے بارش شروع ہوگئی ۔دس منٹ کے بعد بارش کے ساتھ پانی بھی آگیا۔کمبلوں کا وزن ڈبل ہوگیا اور ساتھ باندھا ہوا لنچ اور ڈنر قبرستان کے برساتی پانی میں آنکھوں کے سامنے تیر رہے تھے ۔کسی نے افواہ اڑا دی کہ روٹ مارچ کینسل ہوگیا، سب خوش ہوگئے ۔اسی خوشی میں مزید دو گھنٹے بارش برداشت کرلی ۔لیکن یہ افواہ غلط ثابت ہوئی ۔اس خوفناک ماحول میں پی ایم اے کاکول کے شب و روز بہت یاد آئے۔
**************
یہاں اختصار کی خاطر صرف روٹ مارچ کی صرف ایک خوفناک رات کا تذکرہ شامل کیا گیا ہے لیکن سات دنوں میں مکمل ہونے والا روٹ مارچ کب ،کیسے اور کس طرح پایہ تکمیل کو پہنچا ہوگا اس کا اندازہ تو کتاب"کاکولیات " پڑھنے کے بعد ہی قارئین کو ہو گا۔لیکن ایک بات مجھے کہنے میں عار محسوس نہیں ہوتی کہ جتنی پروقار شخصیت کے مالک اس کتاب کے مصنف ہیں اس سے کہیں زیادہ اچھے وہ فوجی افسر بھی رہے ہیں ۔اس کے باوجود کہ اب وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن بریگیڈئر کی فوجی وردی پہنے ہوئے بھی میں نے انہیں دوسروں کو عزت دیتے ہوئے اور احترام کرتے ہوا دیکھا ہے۔حسن اتفاق سے جن دنوں وہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے ،انہی دنوں مجھے کرنل (ر) سردار عبدالرؤف مگسی کے ہمراہ ان کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا ۔پہلی ملاقات ہی اتنی اچھی رہی کہ میرے دل میں بریگیڈئر صولت رضا صاحب کی عزت اور احترام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔

اس کتاب میں السلام علیکم سر اور روٹ مارچ کے علاوہ چند اہم موضوعات پر بھی قلم اٹھایا گیا ہے جن میں صراط کمیشن ، نائٹ کلب ، میس نامہ جدید ، گراؤنڈ در گراؤنڈ، میرا پلاٹون ،ہائے پاسنگ آؤٹ شامل ہیں ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بریگیڈئر (ر) صولت رضا نے اپنی کتاب کے ہرباب کے ساتھ خوب انصاف کیا ہے ،وہ منجھے ہوئے پرخلوص فوجی افسر ہی نہیں ،مایہ ناز لکھار ی بھی ہیں ۔ ڈاکٹر یوسف عالمگیرین نے صحیح لکھا ہے کہ "کاکولیات" کو عسکری ادب میں ایک ٹریڈ مارک کی حیثیت حاصل ہے ۔گویا عسکری ادب ، کاکولیات کے بغیر نامکمل ہے ۔پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں گزرے ہوئے شب و روز اور تربیتی کٹھن مراحل کے حوالے سے "کاکولیات"اولین ترین اور مستند کتاب کا درجہ رکھتی ہے ۔میری نظر میں بریگیڈئر (ر) صولت رضا یہ کتاب لکھنے کے بعد عسکری ادب کی ایسی کہکشاں میں شامل ہوچکے ہیں جن میں ان سے پہلے کرنل فیض احمد فیض ، میجر چراغ حسرت حسن، میجر ضمیر جعفری ،کرنل زیڈ اے سلیری ،بریگیڈئر اے آر صدیقی اور بریگیڈئر صدیق سالک شامل ہیں ۔یہ کتاب بطور خاص پاکستان ملٹری اکیڈمی کے نئے اور پرانے کیڈٹوں کے لیے ایک نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے بلکہ میرے جیسے پاک فوج سے محبت کرنے والوں کے لیے ہر قسم کی دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔میری دعا ہے کہ بریگیڈئر(ر) صولت رضا کو اﷲ تعالی اتنی اچھی صحت اور لمبی عمر عطا فرمائے کہ وہ لیفٹین سے بریگیڈئر تک کے پیش آمدہ واقعات کو بھی قلم بند کریں۔

152صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت کتاب قلم فاؤنڈیشن بنک سٹاپ ،والٹن روڈ لاہور کینٹ کے زیر انتظام شائع کی گئی ہے جس کی قیمت حیرت انگیز طور پر صرف سو روپے رکھی گئی ہے تاکہ لوگ اس کتاب کو خرید کر پڑھ بھی سکیں۔کتاب منگوانے کے لیے [email protected] اور موبائل نمبر 0300-0515101+0321-4788517 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔


 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 662842 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.