کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو ،جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

فن صحافت یعنی خبر رسانی کی ابتداء غالباً خبرگیری سے ہوئی ۔ پرانے زمانے میں ذرائع ابلاغ کے جدید ذرائع مہیا نہیں تھے اس لیے حکمراں اپنے صوبیداروں کی مدد سے کام کاج چلایا کرتے تھے۔ یہ جاننے کے لیے کہ ان نمائندے کہیں عوام پر ظلم و جبر تو نہیں کررہے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کا خاطر خواہ فائدہ لوگوں تک پہنچا رہے ہیں یا نہیں ایک متوازی اور آزاد خبر رسانی کا ادارہ تشکیل دیا جس کا مقصد عوام کی خبر گیری تھا۔ اس زمانے میں بادشاہ وقت اپنا واقعہ نگار یا اخبار نویس کا تقرر کرتا جو آزادانہ طور پر بغیر کسی دباو کے عوام کی مشکلات و پریشانیوں سے حکمراں کو آگاہ کرتا ۔ اس وقت چونکہ انہیں انتخاب لڑنے کی مجبوری نہیں تھی اس لیے ان خبروں پر توجہ دی جاتی اور سیاسی اثرات کا پاس و لحاظ کیے بغیر بلا تفریق مذہب و ملت ضروری اقدام کیے جاتے۔ جمہوریت نے سب کچھ الٹ دیا ہے۔ اخبارات عوام کا سچ سرکار کو بتانے کے بجائے حکومت کا جھوٹ لوگوں میں پھیلانے کے آلۂ کار بن گئے ہیں۔ اشتہار کی لالچ دے کر اخبار نویسوں کے ضمیر کو خریدا جاتا ہے ۔ اس کا بڑا مظاہرہ وزیر اعظم کی 71ویں سالگرہ پر ہوچکا ہے۔

تاریخ کے صفحات میں دورِ جہانگیری کا ایک واقعہ رقم ہے ۔ مودی جی کے گجرات میں ایک صوبہ دار نے احمدآباد کے واقعہ نگار کے ساتھ بدسلوکی کی۔ واقعہ نگار نے بادشاہ کی خدمت میں شکایت بھیجی کہ ’’عبداللہ خاں صوبے دار نے سچی روداد لکھنے کے جرم میں خانہ زاد کو اس کے گھر سے پاپیادہ بلواکر اس کی توہین کی۔‘‘ اس پر بادشاہ نے صوبہ دار کو معزول کرتے ہوئے حکم دیا کہ اسے بھی پیدل گھر سے شہر کے باہر تک لایا جائے اور پھر گھوڑے پر سوار کرکے حاضر کیا جائے۔ شاہی ایلچی کے احمدآباد پہنچنے سے پہلے صوبہ دار کو اس حکم کی اطلاع مل گئی اور وہ ہیبت زدہ ہوکر شہر سے دربار کی جانب چل پڑا ۔ راستے میں بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے زبردستی گھوڑے پر سوار کرکے دربار میں پیش کردیا۔ بادشاہ نے صوبہ دار کواس کے عہدہ سے معزول کرکے اس کی باریابی بند کردی۔ اس واقعہ سے ابتدائی دور میں ہی صحافت کی قدرو قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس وقت اخبار نویسوں کی اولین ذمہ داری اپنے علاقے کے حالات کی بے کم و کاست اطلاع سرکار دربار تک پہنچانے کی ہوتی تھی ۔ اخبار نویس اگر اپنے فرائض کی انجام دہی میں سہواً یا ارادتاً کوتاہی کرتا تو اس کو جرم کی نوعیت کے مطابق برخاست کردینے سے لیکر پھانسی تک کی سزادی جاتی۔

مغلوں کے عہد میں اخبار نویس یا واقعہ نگار کی مدد سے بادشاہِ وقت عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کیا کرتا تھا۔ اس لیے یہ خیال پوری طرح درست نہیں ہے کہ ہندستان میں صحافت کی بنیاد انگریزی حکمرانوں کے دور میں ہوئی ۔ عوام کو اپنا غلام بنائے رکھنے کی خاطر انگریزوں نے عوامی ذرائع ابلاغ یعنی اخبارات و رسائل کو فروغ دیا لیکن آگے چل کر ان کا استعمال غلامی کے خاتمہ کی خاطر ہونے لگا۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ آزادی کے بعد جدید غلامی کا طوق عوام کے گلے میں ڈالنے کی کی خاطر غیروں کے بجائے اپنوں نے ذرائع ابلاغ کا استعمال شروع کردیا ۔ انگریزوں کا وفادار سنگھ پریوارجب برسرِ اقتدار آیا تو یہ معاملہ بامِ عروج پر پہنچ گیا ۔ مودی یگ میں جبر و استحصال کو خوشنما بنا کر پیش کرنےکی خاطر چاپلوس گودی میڈیا کی ایک بڑی فوج منظم کی گئی۔ ان کی حالت یہ ہے کہ جب وہ عوامی مظاہروں مثلاً شاہین باغ یا کسانوں کے احتجاج میں جاتے ہیں تو ان کو رسوا کرکے بھگا دیا جاتا ہے۔ ٢٩ جنوری ١٧٨٠ ء کو ایک فرنگی جیمس اگسٹس ہکی کی ادارت میں جاری ہونے والا ”ہکیز بنگال گزٹ“ بھی دینک جاگرن سے زیادہ آزاد تھا۔

”ہکیز بنگال گزٹ“کو ہندوستان کی عوامی صحافت کا سرخیل مانا جاتا ہے۔اس ہفتہ وار اخبار کا مدیر اعلیٰ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کاروں پر سخت تنقید کے سبب سرکاری عتاب کا شکار ہوتارہا۔کئی بار جیل اور پریس کی ضبطی نے اسے اخبار بند کرنے پر مجبورتو کردیا لیکن اس نے اپنے اصولوں سے مداہنت نہیں کی اور بے خوف ہندوستانی صحافت میں حکومت سے ٹکراؤ کی لازوال روایت سے قائم کردی۔ اسی زمانے میں فارسی کا ’جامِ جہاں نما‘جاری ہوا مگر اسے عوامی بنانے کی اختیار اردو میں ضمیمہ شائع کیا جانے لگا ۔ ابتداء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہمدرد سمجھا جانے والا یہ اخبار بھی آگے چل کرسرکاری جوروستم کا شکار ہوا۔ اس کے بعد دہلی میں مولوی محمد باقر نے دہلی اردو اخبار کی بناء ڈالی اور اپنے لہو سے ایک لازوال شمع روشن کردی۔ مولوی محمد باقر کے بیٹے محمد حسین آزاد نے اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھایا اوروہ خود بھی انگریزی استعمار کے معتوب ہوئے لیکن ڈٹے رہے مصالحت نہیں کی۔

ملک کی موجودہ دگر گوں صورتحال میں بہت سارے جوانمرد صحافی اپنا مال اور جان داوں پر لگا کراپنا فرض منصبی ادا کررہے ہیں ۔ اس میدان میں صدیق کپن جیسے مسلمان صحافی کا نام تو نظر آتا ہے مگر اردو والے کم دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کی وجوہات پر غور کرنا ضروری ہے۔ اردو صحافیوں کو دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ایک تو جن کا تعلق گودی میڈیا سے ہے اور دوسرے جن کا ضمیر اس زمانے میں بھی زندہ اور تابندہ ہے۔ اس معاملے میں اگر دیگر زبانوں سے موازنہ کیا جائے تو اردو والوں کی حالت بہتر معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہمارے یہاں سرکار کی چاپلوسی کرنے والے نہیں کے برا بر ہیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مثلاً موجودہ حکومت کی حمایت کو اردو زبان کے قارئین یکسر مسترد کردیتے ہیں ۔ اس کی ایک اہم وجہ امت کا ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا مزاج بھی ہے اور صحافی بھی چونکہ ملت کا حصہ ہوتے ہیں اس لیے ان کے اندر یہ صفت ازخود پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اردو صحافت کے لیے مواقع محدود ہوجانے کے سبب اس زبان کے صحافی کا خریدار ندارد ہے ۔

اس کے باوجود یہ سوال اہم ہے کہ حکومت کو اردو صحافت سے خطرہ کیوں محسوس نہیں ہوتا ؟ شاید اس لیے کہ ہم لوگ دن رات اپنے ماتم میں مصروف رہتے ہیں اور اس سے سرکار کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے یہاں ان موضوعات قلم کم اٹھایا جاتا ہے جو حکومت کے لیے باعث خسارہ ہوں۔ ایسے مضامین کم لکھے جاتے ہیں کہ دوسری زبان کے لوگ اسے ترجمہ کرکے اپنے قارئین تک پہنچانا ضروری سمجھیں ۔ مختصر یہ کہ ہم ان کے گھر میں گھس کر مارنے کے بجائے اپنے گھر کےاندر رونے دھونے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس لیے ظالم و جابر قوتیں ہمیں قابلِ اعتناء نہیں سمجھتیں اور نظر انداز کردیتی ہیں ۔ ان کے عتاب کا کوڑہ تو انہیں لوگوں پر برستا ہے جن سے سنگھاسن ڈولتا ہے۔ سی پی جے (کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ ) کے مطابق پچھلے بیس سالوں میں 53 صحافیوں نے اپنی جان عزیز کا نذرانہ پیش کیا ۔ ان میں 9 مسلمان ہیں اور 2 کے علاوہ باقی سب کشمیری ہیں۔ ان اعدادو شمار کے مطابق عصرِ حاضر میں صحافت کے وقار کا تحفظ کرنے والوں میں اپنی آبادی کے تناسب میں مسلمان بھی پیش پیش ہیں ۔

صحافت کی اصل ذمہ داری عوامی مسائل کو اجاگر کرنا اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ ہمارے کچھ صحافی قلم اٹھاتے وقت اچانک دعوت و تبلیغ کے جذبے سے مغلوب ہوجاتے اور ظالموں کے تئیں نرمی کے رویہ کو مثبت صحافت کا نام دیتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ صحافی بھی اسلام کا داعی ہوتا ہے لیکن یہ اسی طرح ہے کہ ایک قاضی بھی داعی ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے لیے بیٹھتا ہے تو کھرا کھرا فیصلہ سنا دیتا ہے۔ اسی طرح صحافی کو بھی کسی ملامت کرنے والے کا خیال کیے بغیر سیدھی سیدھی بات کہہ دینی چاہیے۔ اس فرمانِ خداوندی کے اولین مخاطب صحافی ہیں جس میں کہا گیا ہے:’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ کسی کی لعنت و ملامت سے نہیں مرعوب نہیں ہوتے۔ اس معاملے میں کسی بھی بہانے کی جانے والی کوتاہی ازخود گودی میڈیا کا قلاوہ اپنے گلے میں ڈالنے کے مترادف ہوتی ہے جبکہ علامہ اقبال فرماتے ہیں؎
آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بےباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی

جرأت کےمیدان اردو صحافت کی تابناک روایات کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ اخبار دہلی کا اصل مقصد انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ جنگ آزادی میں اردو صحافت کی عظیم روایت کو مولوی محمد باقر کے فرزند مولوی محمد حسین آزاد نے آگے بڑھایا اور انگریزوں نے انھیں اشتہاری، مفرور قرار دے کر گرفتاری کے لیے 500 روپے انعام کا اعلان کر دیا۔ ان عزیمت پسند باپ بیٹوں کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ آئندہ 200 سال کے اندر وطن عزیز میں صحافت ایک صنعت بن جائے گی اور وہ حق کی شہادت دینے کے بجائے منافقت کا کلمہ پڑھنے لگے گی ۔ امسال صحافیوں کی سب سے قدیم تنظیم پریس کلب آف انڈیا نے 16؍ستمبر کو شہید صحافی مولوی محمد باقر کی 164 ویں برسی پر خراجِ عقیدت پیش کیا۔ پریس کلب آف انڈیا کی منیجنگ کمیٹی کے رکن جناب اے یو آصف کی یہ سعی جمیل قابلِ مبارکباد ہے۔

اس تقریب میں معروف صحافی معصوم مردآبادی کی کتاب ’ اردو صحافت اور جنگ آزادی 1857‘ کے ہندی ایڈیشن کا اجراءبھی عمل میں آیا ۔ اس میں مولوی محمدباقر اور دیگر اردو صحافیوں کی ولولہ انگیز داستان بیان کی گئی ہے۔ اس موقع پر دونوجوانوں صحافیوں ملت ٹائمز کے مولوی شمس تبریز قاسمی اور ٹائمز آف انڈیا کی سواتی ماتھر کو مولوی محمد باقر شہید کے نام سے منسوب سپاس نامہ دیا گیا ۔ اس لیے وہ دونوں جواں سال صحافی بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پریس کلب کی اس نشست میں نامور صحافیوں نے مولوی محمد باقر کو تو خوب دل کھول کر خراج عقیدت پیش کیا لیکن یہ ستم ظریفی ہے 200؍ سال بعد ملک کو پھر ایک بار غلامی کی جانب گامزن ہے۔ فی الحال امبانی اور اڈانی کی حیثیت ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ خطرناک ہے اور انگریزی استعمار کی مانند مودی سرکار ان کو تحفظ فراہم کررہی ہے ۔ ایسے میں جدید غلامی کےخلاف مزاحمت اکبر الہ بادی کا یہ شعرشہید صحافت مولوی محمد باقر کی یاد دلاتا ہے؎
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو


 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220663 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.