ریاست خداد اور ہمارا عمومی رویہ۔

ریاستی اداروں پر کلام کرنے سے قبل یہ یاد رکھیں کہ کہیں آپ کے الفاظ دشمن کا ہتھیار تو نہیں بن رہے۔

مشاہدہ ہے کہ چند لوگ محض بہت تھوڑے سے دنیاوی فائدے کی خاطر ریاستی اداروں کیخلاف لکھنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔جنکی معلومات ریاست کے بارے میں ناقص ہے وہ بھی بڑھ چڑھ کر سوشل میڈیا پر" بے باک" تبصرے کرتے ہوئے دکھائ دیتے ہیں۔ علم کی کمی اور اپنی بات پر اڑ جانے کی عادت نے اعتدال کی راہ کو سرے سے ختم کردیا ہے۔ جسکا نتیجہ ملک میں پھیلنے والی شدت پسندی کی صورت میں نکلا ہے اور اسکا خمیازہ قوم آنے والے وقتوں میں بھی بھگتے گی۔ رحم،نیکی جیسی اقدار پر کھڑے معاشرے دنیا میں اپنی حیثیت منواتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب معاشرہ ان اقدار سے عاری تھا مگر جب اسلام ان کے دلوں میں غالب آیا تو انکا احوال کچھ یوں تھا:
"ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن"
(اقبال رحمہ اللہ علیہ )

کثرت سے یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اداروں کیخلاف بات کرنا معمول بن گیا ہے ۔تنقید کا حق ہر کسی کو ہے مگر تنقید کی آڑ میں ریاستی اداروں پر کیچڑ اچھالنا قطعا مناسب نہیں۔ یہ رویہ عوامی سطح پر انارکی کو قوت دیتا ہے۔

آج ریاست اندرونی اختلافات سے بری طرح دوچار ہے قومیت،لسانیت ،فرقہ واریت نے وہ گھاو دیئے ہیں جس نے ہماری یکجہتی کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ کیا ریاست سے مخلص ہونا ہمارے اسلاف کی روایات میں سے نہیں ہے ؟ اختلاف کا راستہ صبر سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اور صبر کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ملک کی سالمیت آج داو پر لگی ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔موجودہ دور میں مملکت خداداد تہذیبی، فکری، معاشی سماجی ،ہر محاذ پر پسپا ہے۔

اس تناظر میں اگر آپ ریاست کی بھلائ کیلئے کام کرنا نہیں چاہتے تو براہ کرم اس میں شر پھیلانے کی وجہ بننے سے گریز کریں۔ حقائق کو اس تناظر میں نہ دیکھیں جو آپکو بھاتا ہو اسکے برعکس معاملات کو وسیع تر تناظر میں اور غیر متعصب ہوکر دیکھنے کی کوشش کریں۔

یہ بات جان لیں کہ دشمن آپکو آپکی افواج اور ریاست سے کبھی مخلص ہوتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتا اور اپنی اس نوعیت کی سازشوں میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہے۔ ریاست پاکستان آج لاتعداد محاذ پر دشمن سے نبرد آزما ہے اور ہر محاذ پر اسکو قوم کی یکجہتی درکار ہے۔ قوموں کے فنا ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ باہمی یکجہتی کو فراموش کردیتی ہیں اور اپنے ذاتی اغراض کو اپنی تمام تر کوششوں کا محور بنالیتی ہیں۔

بہتر یہی ہے کے دشمن کا بازو بننے کے بجائے اپنوں سے مخلص رہیں۔ اپنے حصے کا کام کریں نتائج کا کا ذمہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں۔ ہونے والی برائی کی نشاندہی کیساتھ اسکے سدباب کی کوشش کریں۔
دشمن کو یہ پیغام دیں کہ لاکھ اختلافات کے باوجود ہمارا اپنی فوج اور ریاست پر اعتبار قائم ہے۔
دعا ہے اللہ معاملات کی صحیح سمجھ عطا فرمائے
خدا آپ کا حامی و ناصر ہو ۔
" متلاشی حق"
سید منصور حسین (مانی)
 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 22757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.