اسلام آباد اور واشنگٹن کے
درمیان ”یاری دوستی “ کی گہرائی کا اندازہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کی
فوجی امداد روکنے سے ہوتا ہے۔ امریکی عہدیداروں کی طرف سے پاکستان، افواج
پاکستان اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف جس طرح پراپیگنڈہ مہم جاری ہے اس
سے بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خطرناک نہج تک
پہنچ چکے ہیں۔ یہ حقیقت اب تسلیم کرنا پڑے گی کہ امریکہ کبھی بھی پاکستان
کا دوست نہیں رہا۔ اس نے صرف اپنے مفادات کے چکر میں پاکستان سے دوستی
کی۔دہشت گردی کی عالمی جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بنا کر اس کے
امن وامان، معیشت اور کاروبارزندگی کو تباہ کردیا گیا۔ حتیٰ کہ اس جنگ کی
آڑمیں اس کی خفیہ ایجنسیوں نے یہاں اپنے نیٹ ورک بنا لئے۔ اب امریکہ چونکہ
افغانستان سے واپس جا رہا ہے لہٰذا ایک طرف پاکستان کو دی جانے والی امداد
بند کی جارہی ہے تو دوسری طرف ہمیں دہشت گردی کی ایسی دلدل میں دھکیل
کرجارہا ہے جس سے باہر آنا پاکستان کے لئے انتہائی دشوار ہوگا۔
امریکہ نے پاکستان کی جو فوجی امداد روکی ہے وہ دراصل پاک افغان سرحد پر
پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے سرانجام پانے والی خدمات کا معاوضہ تھا ۔
وائٹ ہاﺅس کے چیف آف اسٹاف بل ڈیلی نے امدادکی معطلی کی تصدیق کرتے ہوئے
کہاہے کہ پاکستان نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جنہوں نے اس کی کچھ فوجی
امداد روکنے کاجوازفراہم کیا، پاک امریکا تعلقات پیچیدہ اورمشکلات
کاشکارہیں اورتعلقات بہتر ہونے تک فوجی امدادکی کچھ رقم جاری نہیں کی جائے
گی۔ دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل اطہر عباس نے امریکی اقدام
پراپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ امداد روکنے کی کوئی سرکاری اطلاع
نہیں دی گئی ہے،ان کا کہناتھاکہ پاک فوج نے سوات اور جنوبی وزیرستان سمیت
ہرجگہ پرامریکی امدادکے بغیر کاروائیاں کی ہیں۔ ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود
ہے کہ بیرونی امدادکے بغیربھی دہشت گردی پرقابوپاسکتے ہیں۔ ادھر امریکی
اخبار کاکہناہے کہ معطل کی گئی امدادمیں کچھ فوجی سامان ایسابھی ہے
جوپاکستان لینے کے لیے تیارنہیں۔
امریکی فوجی ٹرینرزکی بیدخلی اور شمسی ایئربیس سے ڈرون آپریشن بندکیے جانے
کی دھمکیوں پر امریکا ناراض ہے اور پاک فوج کودباﺅمیں لاناچاہتاہے۔
اوباماانتظامیہ کایہ اقدام امریکی فوجی تربیت کاروں کوملک سے نکالنے
اوردہشت گردوں کے خلاف موثرکاروائی کے لیے دباﺅڈالنے کی غرض سے کیاگیاہے۔
قبل ازیں امریکی اخبارنیویارک ٹائمزنے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ امریکی
انتظامیہ پاکستانی فوج کو دی جانے والی امداد میں سے کچھ معطل اور کچھ
منسوخ کر رہی ہے۔ امریکی جریدے کے مطابق اوباما انتظامیہ نے یہ اقدام
پاکستان کی جانب سے امریکی فوجی تربیت کاروں کو ملک سے نکالنے اور پاکستانی
فوج پر دہشتگردوں کے خلاف زیادہ موثر کاروائی کرنے کے لیے دباﺅ ڈالنے کی
غرض سے کیا ہے۔جریدے کے مطابق تین سینئر امریکی اہلکاروں نے بتایا کہ
امریکی انتظامیہ کے اس اقدام سے پاکستان کو فوجی امداد اور سازو سامان کی
مد میں 800 ملین ڈالر کی امداد متاثر ہو گی جس میں پاک افغان سرحد پر لگائی
جانے والی پاکستانی فوج کے اخراجات کی مد میں 300 ملین ڈالر ہیں اور اس کے
علاوہ تربیت اور آلات کی مد میں بھی امداد شامل ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے
مطابق پاکستانی فوج کی افغان سرحد پر تعیناتی کے حوالے سے اخراجات کی مد
میں دی جانے والی رقم پر نظرثانی کی جا رہی ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف
جنگ میں پاکستان کے کردار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
امریکہ کے اس اقدام سے افواج پاکستان کی طرف سے جس ردعمل کا اظہار کیا گیا
اس میں پوری قوم کے دلوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ افواج پاکستان کافی عرصے سے
امریکہ کی بڑھتی ہوئی چیرہ دستیوں پر اپنے جذبات کا اظہار کرچکی ہیں۔ ریمنڈ
ڈیوس کے معاملے اور ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے ان کا دو ٹوک موقف امریکہ
کی آنکھ کا کانٹا بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج نے جو امداد معطل اور
منسوخ کی گئی اس میں کچھ فوجی سامان ایسا بھی ہے جو امریکا نے پاکستان کو
دینا تھا لیکن اب پاکستانی فوج اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس
فوجی سامان میں رائفلز، گولہ بارود اور دیگر فوجی سامان شامل ہے۔اس سے قبل
اس سازو سامان کو اس وقت روک لیا گیا تھا جب پاکستان نے سو سے زیادہ امریکی
خصوصی دستوں کے تربیت کاروں کو ملک سے نکل جانے کا کہا تھا۔ اخبارنیویارک
ٹائمز نے اس سلسلے میں امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاک
امریکاتعلقات کی بحالی اوردہشت گردوں کے خلاف بھرپور کاروائی کی یقین دہانی
کی صورت میں فوجی امداداورسازوسامان کی فراہمی بحال ہوسکتی ہے۔ امریکی
اہلکاروں کے مطابق امریکی فوجی ٹرینرزکو بے دخل کیے جانے اور شمسی ایئربیس
سے سی آئی اے ڈرون آپریشن بند کیے جانے کی دھمکیوں سے امریکاناراض ہے۔گزشتہ
روز چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیر صدارت کور کمانڈرز
کانفرنس میںبھی پاک فوج نے قومی مفاد میں دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رکھنے
کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر دہشت گردوں کے ملک دشمن
عزائم کو ناکام بنانے اور آئی ڈی پیز کی محفوظ واپسی کیلئے تمام ترکوششیں
بروئے کار لانے کے عزم کا اعادہ کیاہے۔
امریکہ کی اس قسم کے ہتھکنڈوں سے یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ وہ افغانستان
سے انخلاءسے قبل پاکستان کے ساتھ روابط کو اس حد تک بگاڑنا چاہتا ہے تاکہ
اس کے اثرات پاک افغان تعلقات تک پہنچیں اور پاک افغان سرحد بھی پاکستان کی
مشرقی سرحدوں کی طرح غیر محفوظ ہی رہے۔ اس نے متعدد دہشت گردوں کو
افغانستان سے پاکستان منتقل کردیا ہے اور پاکستان میں موجود سی آئی اے کے
ایجنٹ انہیں پاکستان میں بطور تخریب کار استعمال کررہے ہیں۔ بہرحال امریکہ
کے اس رویے کے ردعمل میں افواج پاکستان کا جو موقف سامنے آیا ہے وہ پوری
قوم کے لئے حوصلے کا باعث ہے۔ سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایک دوسرے پر
تنقید چھوڑ کر کچھ امریکہ پالیسیوں پر بھی اظہار خیال کریں اور امریکہ پر
واضح کردیں کہ پاکستان کوئی ترنوالہ نہیں۔ پاکستان کا وقار، سالمیت اور
خوشحالی کا انحصار ہماری دفاعی ، معاشی اور سماجی خود انحصاری پر ہے۔اگر ہم
نے یہ منزل طے کرلی تو کسی کو بھی ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات
نہیں ہوگی۔ ضرورت صرف اخلاص اور جدوجہد کی ہے۔ |