راہل کی ریلی کیا کچھ رنگ لائیگی؟

راہل گاندھی کی علی گڑھ کسان ریلی (9جولائی ، ہفتہ )کتنی کامیاب رہی، اس پر تو بحث ہوسکتی ہے، البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ یوپی کے موجودہ سیاسی منظر نامے کا یہ ایک اہم اور منفردواقعہ ہے۔منفرد اس اعتبار سے کہ ریاست میں جو سیاسی سرگرمیاںنظر آرہی ہیں،وہ سب احتجاجی نوعیت کی ہیں۔ ان میں غم و غصہ کا اظہارتو ہے ،عوام کی نبض ٹٹولنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔اس کے برعکس راہل گاندھی کہ یہ مہم عوام سے راست رابطہ قائم کرنے اوران کے مسائل سے سیدھے آگاہی حاصل کرنے کی مہم ہے۔یہ کہنا توقبل از وقت ہے کہ انتخابی سیاست پراس کا کتنا اثرپڑیگا؟البتہ میڈیا نے جس طرح اس کواہمیت دی اورپورے ملک میں چرچا چلی اس کا اثرتو ہوگا ہی۔ایسے سیاسی ماحول میں جب کہ مرکزی حکومت کے کئی وزیر بدعنوانی کے الزام میں گھرے ہوئے ہیں ، سرکار کی شبیہ جن کی وجہ سے خراب ہورہی ہے، اگر حکمراں پارٹی کے کسی لیڈر کا قد عوام کی نظروں میں بڑھتا ہے ، اس کی صاف ستھری اورپر عزم شبیہ ذہنوں میںجمتی ہے، تو یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔

چند ماہ قبل ان کی ممبئی کی مہم اور اب دہلی کے قریب گریٹر نوئیڈا میں بھٹہ پارسول سے علی گڑھ تک کی  یوپی میں ان کی چار دن کی یہ مہم مثبت سیاست کا نیا تجربہ ہے۔ اس لئے ان کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ سیاسی مشاہدین کےلئے سیاستدانوں کی پدیاتر ائیں اوررتھ یاترائیں نئی نہیں ہیں، لیکن راہل گاندھی کی اس پیدل یاترا میںجو نیا عنصر نمایاں طو ر پر نظر آیاہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے سنا زیادہ ، کہا کم۔ انہوں نے کسانوں کے حالات کو سمجھنے کےلئے سیاسی دلالوں پر انحصار نہیں کیا ،بلکہ ان سے سیدھا رابطہ قائم کیا۔خود چل کر ان کے گھر گئے ، ان سے بات کی، خواتین نے بھی اپنا دکھ درد بیان کیا اوران کے بچوں کے ساتھ بھی گھل مل گئے۔انہوں نے بے تکلف ماحول میںلوگوں کو اپنی مشکلات بیان کرنے کا موقع دیا اور ہر جگہ ایک ہی بات کہی،’ آپ کی مشکلات کی وجہ یہ ہے کہ آپ متحد نہیں ہیں‘۔ ریلی میں بھی پارٹی لیڈروں سے زیادہ کسان نمائندوں کو وقت دیا گیا۔عوام کےلئے یہ خوشگوارتجربہ تھا کہ قومی سطح کا ایک قدآور لیڈر، بن بلائے خودچل کر ان کے پاس آئے۔ ان سے کچھ مانگے نہیں بلکہ ان کے دکھ درد میںشریک ہوجائے۔ جن کسانوں نے ان کے پہلو میں بیٹھ کر ان سے باتیں کیں،جن بہنوں نے ان کےلئے دال روٹی بنائی، ان کو کھانا کھلایا، اورانہوں نے جس طرح بے تکلف چارپائی پر بیٹھ کر، گود میںتھالی رکھ کر کھانا کھایا، جن بزرگ خواتین کو شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرنے اور روائتی انداز میں اپنی دعاﺅںسے نوازنے کا موقع ملا ، جن کے گھر میں انہوںنے بغیر بستر کی چارپائی پر رات گزاری، اور جن معصوم بچوں کو اپنی گود میں بٹھایا ان سب کی خوشی کا کیا ٹھکانہ؟ کیا وہ ان لمحوں کوکبھی بھلا سکیں گے؟ ان کا اب تک کا تجربہ تو یہ رہا ہے کہ لیڈر آئے، تقریر کی اورعوام کی بات سنے بغیرچل دئے۔راہل کا یہی انداز ان کو دیگرہم عصر لیڈروں سے ممتاز کرتا ہے۔وہ جہاں جاتے ہیں ، گھل مل جاتے ہیں۔ ان کا اس طرح پیش آنا دلوں کو بھاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی لیڈر جو خودہٹو بچو کے عادی ہیں، جن کو بس اپنی کہنے کی فکر ہوتی ہے، مگرعوام کی سننے کی فرصت نہیں ہوتی، حواس باختہ ہیں اور اس مہم کو ’نوٹنکی ‘ بتا رہے ہیں۔

راہل پر یہ اعتراض لغو ہے کہ ان کی یہ مشقت اورکسانوں سے اظہار ہمدردی محض انتخابی سیاست ہے۔ جمہوریت میں جمہور کے مسائل کو سننا ، مشکل وقت میں ان کی ڈھارس بندھانا اور پھر اس مشکل کو حل کرنے کی تدبیر کرنا، سب سیاسی اقدام ہوتے ہیں۔ وہ ایک قومی سیاسی پارٹی کے جنرل سیکریٹری ہیں، ان کی والدہ اور وہ خوداسی ریاست سے چن کرلوک سبھا میں آتے ہیں، اس لئے ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یو پی میں پارٹی کے تن مردہ میں جان ڈالنے کی جدوجہد کریں ۔اگر اس مقصد کےلئے وہ کسانوں کے دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں، تواس میں اعتراض کی گنجائش کہاں؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اعتراض بی ایس پی اور بی جے پی، دونوں کی طرف سے کیا جارہا ہے۔غور سے دیکھئے تو راہل کے خلاف دونوں سیاسی مہم میںبڑا تال میل نظر آتا ہے۔ ہر چند کہ بھاجپا صدر گجندر گڈکری یہ دعوا کررہے ہیں کہ بی ایس پی سے ان کی پارٹی نے کنارہ کرلیا ہے،اور آئندہ بھاجپا، بی ایس پی سے کوئی گٹھ جوڑ نہیں کریگی۔ مگر ان کا یہ فرمانا ہرگز قابل اعتبار نہیں۔ ماضی میں بھی بھاجپا نے اس طرح کے اعلانات کئے تھے مگروقت آنے پر اقتدار کی خاطر بی ایس پی سے ناطہ جوڑنے میں گریز نہیں کیااور دومرتبہ مایاوتی کومسند اقتدار تک پہنچا یا گیا۔ جھارکھنڈ میں جے ایم ایم کے ساتھ غیر اصولی گٹھ جوڑ کرکے بھاجپا نے دکھادیا ہے کہ اقتدار کی خاطر وہ کسی سے بھی ہاتھ ملاسکتی ہے۔ ہندتووا کے علمبردار سیاست دانوں کےلئے یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔آزادی سے قبل ان کے اولین نظریہ ساز ’ونایک دامودرساورکر ‘کی قیادت میں ہندو مہاسبھا نے اقتدار میں شریک ہونے کےلئے سندھ اوربنگال میں مسلم لیگ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا تھا۔اور بھاجپا کی پیش روجن سنگھ کے جنم داتا شیاما پرساد مکھرجی نے بھی اس کو صاد کیا تھا۔غیر اصولی سیاست اور سیاسی موقع پرستی کیونکہ اس کے خمیر میں شامل ہے ،اس لئے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ تیسری بار پھربی ایس پی کا سہارا بن جائےگی۔

بھاجپا کا یہ اعتراض اس لئے بھی بے معنیٰ ہے کہ بھٹہ پارسول میں پولیس کی زیادتیوں کے بعد جب گاﺅں کو پولیس چھاونی میں تبدیل کردیا گیا اور کسان باشندے پولیس زیادتیوں سے خوف زدہ ہوکر اپنے گھروںسے بھاگ کھڑے ہوئے تھے تب بھاجپا خاموش تماشائی بنی رہی اور اس کے کسی لیڈر میں ادھر کا رخ کرنے ہمت نہیں ہوئی۔ البتہ ایک صبح جب پولیس کو چکمہ دے کر راہل گاندھی اچانک وہاں پہنچ گئے، تب بھاجپا کے کئی لیڈروں نے ادھر کارخ کیا ۔ لیکن جب پولیس نے ان کو روک دیا تو راہل کی کامیابی کو مایاوتی سے میچ فکسنگ کا نام دینے لگے۔ہاں یہ بات درست ہے کہ دفعہ 144 کے نفاذکے باوجود مایاوتی سرکار نے اس یاترا کو اورکسان پنچایت کو ہوجانے دیا۔نا پولیس مزاحم ہوئی اور نہ کہیں لاٹھیاں چلیں۔ مایاوتی سرکار کی اس حکمت عملی کے دواہم سیاسی اسباب ہیں۔اول تو یہ اگرراہل کی اس مہم کوروکنے کی کاروائی ہوتی تو اس کے اثرات زیادہ گہرے ہوتے اورپوری ریاست میں ہوتے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ مغربی یوپی کے کسان ہمیشہ سے آنکھیں بند کرکے پہلے چودھری چرن سنگھ کے ساتھ رہتے تھے ، اور اب ان کے سیاسی وارث اور صاحبزادے اجیت سنگھ ووٹرہیں۔راہل کے اس مہم کے مخاطب یہی کسان تھے، اس لئے اگر مغربی یوپی میں راہل کی مقبولیت بڑھتی ہے اور اجیت سنگھ کی گھٹتی ہے تو یہ مایاوتی کی اس پالیسی کے عین مطابق ہوگا جس کا مظاہرہ انہوں نے گزشتہ ماہ مارچ میں جاٹ ریزویشن تحریک کے دوران کیا تھا۔ انہوں نے کافورپور(نزد مرادآباد) میں زاید از دو ہفتہ تک ریلوے لائن پر ’اکھل بھارتیہ جاٹ آرکشن سنگھرش سمیتی‘ کے غیر واجب دھرنے کی پشت پناہی کی اور جاٹوں میں (جو عموما کسان ہیں)سمیتی کے صدر یشپال ملک کا قد بڑھانے میں مدد کی۔ اس کا مقصد جاٹوں سے ہمدردی نہیں بلکہ اجیت سنگھ کے اثر کو کمزور کرنا تھا۔

بی ایس پی نے علی گڑھ ریلی کو ناکام قرار دیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ اس میں دو لاکھ کسانوں کے پہنچنے کا دعوا کیا گیا تھا مگر چند ہزارہی آئے۔یہ صحیح ہے کہ ریلی میں شرکاءکی تعداداندازے کم تھی، چنانچہ راہل گاندھی دو گھنٹے تاخیر سے جلسہ گاہ بلائے گئے۔ مگر یہ راہل کی ناکامی نہیں ، کانگریس کی تنظیمی کمزوری ہے۔ پہلے منڈل اور پھر کمنڈل کی سیاست نے ریاست کے عوام سے کانگریس کا ناطہ توڑ دیا ہے اور ریاستی قیادت مقامی اور ضلع سطح پر تنظیمی ڈھانچہ کوفعال کرنے کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ آزادی کے بعد سے ریاست میں کانگریس کی کامیابی کا دارومدار برہمن، مسلم اور پسماندہ طبقات کی یکمشت تائید پر ررہتا تھا۔منڈل نے دلتوں اور پسماندہ طبقات کو اس سے دورکردیا اور کانشی رام ومایاوتی کی قیادت ان کو راس آگئی۔ نرم ہندتووا کی حکمت عملی کے تحت بابری مسجد کا تالہ کھلوائے جانے اور پھر شلانیاس کرائے جانے سے مسلمان اس سے بددل ہوگئے۔ رہی سہی کسرمسجد کی شہادت اور پھر اس کے ملبے پر عارضی مندر کی تعمیر کی سازش میں نرسمہا راﺅ حکومت کے رول نے پوری کردی۔ برہمنوں کو بھاجپا زیادہ راس آگئی جو ملک بھر میں ’برہمنی ‘ نظام کے قیام کےلئے فرقہ ورانہ سیاست کررہی ہے۔چنانچہ یوپی میں کسی بھی طبقہ میں کانگریس کے تئیں اب ایسا جوش و خروش نہیں رہ گیا ہے کہ وہ خود گھروں سے نکل پڑتے اور ریلی میں پہنچ جاتے۔دوسری طرف ریلیوں میںلوگوں کے لانے کےلئے جس طرح کی ترغیب اورتنظیم درکار ہوتی ہیںوہ بھی نظر نہیں آئیں۔ جو لوگ گھروں سے نکلنے کو آمادہ تھے وہ اس دن کی شدید بارش سے مجبور ہوگئے۔بہت سے لوگ راستوں میںجام اوردیگر رکاوٹوں کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے۔ اس کا موضوع( زمین کی جبری سرکاری خرید اور بلڈروں کو اونچے داموں پر فروخت کا مسئلہ ) عام دلچسپی کا نہیں تھا۔عدالتی احکامات کے بعد اب یہ سیاسی موضوع رہابھی نہیں۔ اس کے باوجودراہل کو دیکھنے کافی لوگ پہنچے اور میڈیا نے پل پل کی خبریں دیں۔ ریاستی قیادت نے اب یہ اعلان کیا ہے کہ آئندہ راہل گاندھی ریاست کے مختلف علاقوں اور طبقوں کے مسائل پر مہم چلائیں گے۔ لیکن سیاسی مہمات کی کامیابی کےلئے جیسی جیسا ہمہ گیرتنظیمی ڈھانچے ضرورت ہے، یو پی کانگریس کے پاس نہیں ہے۔ ریاستی صدر ریتا بہوگنا بیشک مخلص اور محنتی ہیں، مگروہ مایا وتی کے مقابلے کی لیڈر نہیں ہیں۔ ان کی ٹیم بھی کچھ مضبوط اور متحرک نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تنظیم کو جلد از جلد مضبوط اور متحرک کیا جائے۔ جن مرکزی لیڈروں کوریاست میں ہمہ وقتی ذمہ داری دی گئی ہے ، ریاست کے عوام میں ان کی اپیل بھی کمزور ہے ۔خصوصاً مسلم قیادت کا بحران شدید ہے۔بس ایک پر کشش چہرہ راہل گاندھی کا ہے ، مگر وہ ہوا کے جھونکے کی طرح آتے ہیں اور چند روز ریاست میں ہلچل کے بعد چلے جاتے ہیں۔اگرراہل گاندھی یوپی میں ڈیرہ ڈالیں اور دگ وجے سنگھ وزیر اعظم کو بدلنے کا شگوفہ چھوڑتے رہنے کے بجائے یوپی کے عوام کو یہ بتائیں کہ پارٹی یوپی کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر کس کو بٹھانے کی خواہاں ہے تو عوام کی توجہ کانگریس کی جانب بڑھ سکتی ہے؟

(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163297 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.