موجودہ حالات میں حکومتی حزب جماعت اور حزب اختلاف کا کردار

ٓ۸۲ فروری ۸۰۰۲ءکو ہونے والے موجودہ الیکشن کے نظام سے بنے والی حکومت نے عوامی مینڈیٹ کو بھاری اکثریت سے حاصل کرتے ہوئے ایک بڑی جمہوری کامیابی سے ہمکنار کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابتدائی دور میں مسلم لیگ نون ، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی نے پاکستان پیپلز پارٹی سے الحاق کرتے ہوئے صوبائی اور وفاق میں حکومتیں بنائیں۔۔۔۔۔۔۔ہم آہنگی کے اختلاف اور دیگر امور کے بار بار ٹکراﺅکے سبب ان جماعتوں میں آگے ساتھ بڑھنے کی سکت نہ رہی ،ہر پارٹی یہی چاہتی تھی کہ وہ دور حکومت سے زیادہ سے زیاد ہ استفادہ کرے لیکن حکومت وقت نے ان کی حدیں شائد مخصوص کر رکھی تھیں اسی وجہ سے پیپلز پارٹی نے سب کو اپنی اپنی حدود میں ساتھ لیکر چلنے کا ارادہ کیا اور جب تک یہ جماعتیں ساتھ تھیں اس وقت تک پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں بھی نوازا۔۔۔۔۔صدر آصف علی زرداری نے ہمیشہ کوشش رکھی کہ سیاسی معاملات کو گفت و شنید کے ذریعے ہی طے کیا جائے اور سب کو اپنا اپنا حصہ ملتا رہے تاکہ حکومت اپنی منزل کی جانب احسن طریقے سے گامزن رہے لیکن شائد دیگر سیاسی پارٹیوں کو یہ مشورہ مناسب نہیں لگا اور انھوں نے جلد بازی دکھائی، پاکستان مسلم لیگ نون نے کچھ ہی عرصہ میں علیحدگی کا اعلان کیا اور پھر ایک سیاسی مخالفت کا علم بلند کر ڈالا لیکن یہ کامیابی کی طرف نظر نہیں آتے شائد سابق صدر مشرف سے ساز باز کرکے سعودی عرب میں جا بسنا ان کے لیئے سیاسی موت کا باعث ثابت ہورہا ہے اس کے علاوہ آئے روز پنجاب حکومت میں کرپشن اور ظلم و ستم کے واقعات میڈیا میں عیاں ہوتے رہے ہیں اور حکومت پنجاب اپنی رٹ قائم کیئے ہوئے ہے کہ انہیں جمہوری حق دیا جائے جبکہ یہ ایک صوبہ میں حکومت کررہے ہیں اگر پنجاب میں جہاں کی عوام نے انہیں ایک اور موقع دیا ہے تو مسلم لیگ نون کو چاہیئے کہ وہ اپنے اس دور حکومت میں پنجاب کی عوام کیلئے عوامی فلاح و بہبود کے کام پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے عملی جامع پہنائیں نہ کہ سیاسی جنگ و جدل میں وقت گزار دیں ۔۔۔۔۔اگرمسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف عوام کو نہتا چھوڑ کر اپنی جان بچانے کیلئے ملک سے باہر چلے گئے تو یہ ایسا نہ کرتے تو ممکن ہے پاکستان کی عوام انہیں قید سے آزادی دلادیتی دوسرے لفظ میں یہ عوام سے قریب تر نہیں کہ انہیں عوام کے ان جذبات اور طاقت پر یقین نہیں ۔۔۔۔ جلسہ و جلوسوں میںتو بہت کہا جاتا ہے کہ میں عوامی خدمتگار ہوں ، عوامی نمائندہ ہوں لیکن جب مصیبت آں پڑجائے تو کہاں کی عوام اور کہاں کا ملک؟؟؟؟اگر یہ حالات کا مقابلہ اپنے ہی ملک میںرہتے ہوئے کرتے تو یقینا عوام انہیں کال کوٹھری سے بھی باہر نکال لیتی کسی بھی لیڈر کو یہ زیب نہیں د یتا کہ اپنی جان بجانے کے خاطر عوام کو اکیلا چھوڑدیں ، لیڈر وہی ہوتا ہے جو ہر قیمت، ہر حالات اور ہر وقت اپنی عوام سے جڑا ہو اور اپنے ملک میںرہتے ہوئے اپنی عوام کے درمیان رہے۔۔۔۔۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میںچند ایسے سیاستدان گزرے ہیں جنھوں نے عوام کے درمیان اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے اور وہ ہمیشہ امر ہوگئے ہیں ان میں شہید لیاقت علی خان، شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو وغیرہ۔۔۔۔ میں اپنے گزشتہ کالموں میں پاکستانی سیاسی حالات کے تحت نئے پلان بیان کرچکا ہوں جس میں نظام کی تبدیلی لازمی ہے اور اس ایسا نظام مروج کیا جائے جس میں کسی بھی غلطی کا امکان نہ پایا جائے جو سب کیلئے اور بالخصوص عوام کیئے سومند ثابت ہو ، میرے مشوروں اور مسودوں میں کمپیوٹرائز نظام کو ووٹنگ کے وقت،اندراج ڈیتا اور نادرا کے کمپیوٹر سے مروج ہو ، اس کے ساتھ ساتھ انتظامی امور جن میں محکمہ پولیس، محکمہ خفیہ تحقیقات ، عدلیہ وغیرہ شامل ہیں ۔۔۔۔۔۔ پولیس کے محکمے میں نفری کم کردی جائے لیکن جدید اسلحوں، گاڑیوں، پرکشش مشاہروں، علاج و معالجہ ،گھر، فیول اور دیگر مراعات دی جائیں تاکہ ذہنی و نفسیاتی طور پر ملک و قوم کی خدمت میں سرشار نظر آئیں ،تقرر کے وقت کم از کم تعلیم گریجویٹ، نفسیاتی جانچ پڑتال رکھی جائے اور تھانوں کو کمپیوٹرائز کر کے نیٹ ورک کردیا جائے تاکہ ایک تھانہ دوسرے تھانہ کی رپورٹ سے آگاہ رہے اور بر وقت عدلیہ میں کیفیت بھی جان سکے۔ ۔۔ ان تمام مشوروں اور بیانات سے اب لگتا ہے کچھ بھی حاصل نہیں کیونکہ موجودہ دور حکومت اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے پاکستانی عوام اور ووٹرز سچائی اور خلوص کا رشتہ ختم کرڈالا ہے قطع نظر اس بات کے کہ انہیں دوبارہ بھی ان ہی عوام کے پاس جانا ہے اور ووٹ حاصل کرنے ہیں ، پاکستانی سیاست ، سیاسی کرائم کی اس حد تک پہنچ گئی ہے جہاں اسے نہ ووٹرز کی مجبوری رہی اور نہ عوام کی سپورٹ کیونکہ موجودہ نظام اور اب کمشنری نظام میں الیکشن کے دن کرپٹ سیاستدان اپنے تابع بیوروکریٹس سے مکمل نا جائز استفادہ کرتے ہیں اور ریاستی طاقت کے تحت اپنے من پسند امیدواروں کا کامیاب کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یوں تو حزب اختلاف آئے روز سیاسی نظام، انتظامی نظام اور دیگر نظام پر نقطہ چینی کرتے رہتے ہیں لیکن جب انہیں اقتدار حاصل ہوتا ہے تو یہی اپوزیشن پارٹیاں انہی حزب جماعت کی طرح کرپشن و لوٹ مار میں ملوث نظر آتی ہیں اپنے دور اقتدار میں نظام کی تبدیلی کو کیوں بھول جاتے ہیں۔۔۔؟؟؟ پاکستانی سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کاکردار انتہائی مسخ دکھائی دیتا ہے گویا سیاست قریب سے ہی نہ گزری ہو۔۔پاکستان کی عمر میں آدھی فوجی مارشل لاءاور باقی جمہوریت میں گزری ہے لیکن جب بھی جمہوری حکومتیں بنی ہیں ، سیاستدانوں کا کردار اس جانور کی طرح رہا ہے جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔۔۔حیرت اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ فوجی حکومتوں میں عوامی سطح پر کام کیئے گئے جیسے لوکل گورنمنٹ کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوتے نچلی سطح پر سٹی گورنمنٹ کا قیام ، منتخب نمائندوں کو منصب فراہم کرکے عوامی مسائل کو حل کرنے کیلئے ان کی خدمات حاصل کرنا۔۔۔۔۔ موجودہ دور حکومت ایک طرف تو جمہوریت کا علم اٹھائے پھرتی ہے اپنے بلند و بالا جلوسوں اور جلسوں میں عوامی میندیٹ کی باتیں اور احترام کا ذکر کرتی ہے تو دوسری جانب وہ بیوروکریٹس کو منتخب امیدواروں سے زیادہ اختیارات اور ان کے نظام کو رائج کررہی ہے ان حالات میں حز ب اختلاف سیاستدانوں نے اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں اور کانوں میں سیسہ ڈال رکھا ہے گویا حکومتی جابرانہ نظام دکھائی نہیں دیتا۔ ۔۔۔یہاں میں صدر پاکستان آصف علی زرداری کی دانشمندی، حکمت عملی، دانائی، سیاسی بصیرت کو مان گیا کہ انھوں نے تمام سیاستدانوں کو کس طرح قابو کرڈالا، آصف علی زرداری کیلئے یوں تو حزب اختلاف سیاسی جماعتیں ان کی کردار کشی کرتی ہیں لیکن اگے ہی لمحے یہی جماعت صدر پاکستان کے گھٹنے میں بیٹھی نظر آتی ہیں ، کبھی کبھی یہ حقیقت کا گماں ہوتا ہے کہ اس سیاسی لشکر میں سب کے سب ایک ہی ہیں کوئی اپنے عیب چھپاکر پارسا بنتا ہے تو کوئی سچائی کے ساتھ اپنے اعمال پیش کردیتا ہے ۔۔۔۔ حقیقت تو یوں محسوس ہوتی ہے کہ سب کے سب لٹیرے ہیں جو اپنے چہروں میں معصومیت، پارسا، سچا، مخلص کا میک اپ سجائے بیٹھے ہیں ۔۔۔ اس حقیقت کو ہم ایوان میں دیکھتے ہیں کہ یہی منتخب کردہ سیاستدان ایوان میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ اپنی پارٹی کا رونا روتے ہیں اور عوامی مسائل کو در گزر کیئے رہتے ہیں ، انہیں تو صرف اور صرف اپنی ذات اور اپنے لیڈروں ، کارکنوں کی بقاء کی فکر رہتی ہے ، عوام کس حال سے گزر رہی ہے انہیں اس بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔یہ ہے ہمارے منتخب نمائندوں کا کردار؟
Jawed Siddiqui
About the Author: Jawed Siddiqui Read More Articles by Jawed Siddiqui: 310 Articles with 273734 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.