آخرکار نئی افغان حکومت کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اﷲ
مجاہد بھی کہہ اٹھے ہیں کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے عمران خان کی
کوششیں قابل ستائش ہیں پاکستان کایہ کہنا کہ ہم افغانستان میں کسی ملک کی
مداخلت نہیں چاہتے مگر تعاون کا خیر مقدم کریں گے ہمیں یقین ہے کہ پاکستان
افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کررہا امارت اسلامیہ پاکستان،
قطر، چین اور دیگر ملکوں کو افغانستان کا خیرخواہ سمجھتی ہے۔ طالبان ترجمان
نے افغان میڈیا سے گفتگو میں یہ بھی کہا کہ افغان حکومت کو تسلیم کئے بغیر
حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تنقید یک طرفہ نقطہ نظر ہے بہتریہ ہوگا کہ
وہ ہمارے ساتھ ذمہ دارانہ طور پر برتاؤ کرتے ہوئے نئی افغان حکومت کو تسلیم
کرلیں افغان عوام کے نزدیک داعش کے خیالات نفرت انگیز ہیں القاعدہ کی
دھمکیوں سے متعلق خبریں پراپیگنڈا ہیں مشکلات کے باوجود افغانستان میں جلد
استحکام آ جائے گا عالمی برادری کے مثبت مشوروں کی قدر کریں گے اسی
تناظرمیں وزیراعظم عمران خان نے خطے کی موجودہ صورت ِ حال میں کہا ہے کہ
پاکستان اکیلا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ باضابطہ
تسلیم کرنے سے متعلق پڑوسی ممالک کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرینگے۔ بی بی سی کو
انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا افغانستان میں جامع حکومت تشکیل نہ دی گئی
تو وہاں خانہ جنگی ہوگی۔ افغانستان کو دہشتگردوں کی جائے پناہ کے طور پر
استعمال نہیں ہونا چاہیے جو پاکستان کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں اس لئے
عالمی برادری کوچاہیے کہ وہ طالبان کو مزید وقت دینا چاہیے، ان سے متعلق
کچھ کہنا بہت جلدی ہوگا افغانستان میں لڑکیوں کو سکول جانے سے روکنا غیر
اسلامی ہوگا افغانستان میں جامع قیادت اور انسانی حقوق کے احترام اور
خواتین کو حقوق ملنے افغان خواتین مضبوط ہیں دنیا ان کو وقت دے وہ خود اپنے
حقوق لے لیں گی۔ یہ حقوق لینے میں انہیں ایک دو یا تین سال لگ سکتے ہیں
کیونکہ طالبان کہہ چکے ہیں کہ خواتین کو قومی دھارے میں مرحلہ وار شامل
کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے طالبان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ جامع
حکومت تشکیل دیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خد شہ ہے جلد یا بدیر وہاں خانہ
جنگی ہو گی جس کا مطلب عدم استحکام اور شورش ہو گا جس سے افغانستان
دہشتگردوں کیلئے ایک آئیڈیل مقام ہو سکتا ہے جو پریشان کن ہے۔جبکہ پی پی پی
کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہاہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ افغانستان میں ایک
وسیع البنیاد حکومت کے لئے اپنا کردار ادا کرے خواتین اور بچوں کی حفاظت
بھی یقینی بنا یاجائے وزیراعظم عمران خان کی یہ بات کو خوش آئند ہے کہ
پاکستان طالبان حکومت کو صرف اس وقت تسلیم کرے گا جب بین الاقوامی سطح پر
کوئی اتفاق رائے پیدا ہو جائے۔ بلاول بھٹونے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ
اسی قسم کا اتفاق رائے پاکستان میں بھی پیدا کریں گے۔ بدقسمتی سے پاکستانی
پارلیمان افغانستان کے حالات تبدیل ہونے کے بعد اب تک اس مسئلے پر بحث کے
لئے نہیں بلائی گئی اور نہ ہی پاکستان میں دوسرے شراکت داروں سے اب تک کوئی
مشورہ کیا گیا ہے۔ بی بی سی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
افغانستان سے صحافیوں کی جانب سے شکائتیں آرہی ہیں اور خواتین اپنے حقوق کے
لئے احتجاج کر رہی ہیں۔ ہمیں اس بات پر فکر ہے کہ بچیوں کو سکول نہیں جانے
دیا جا رہا۔ اگر طالبان خودکو بین الاقوامی برادری سے تسلیم کرانا چاہتے
ہیں تو افغانستان کی نئی حکومت کو بین الاقوامی توقعات پر پورا اترنا ہوگا
اور ایسا کرنے کے لئے ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی پاکستان کو ضرورت
اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ کی مرضی اور منشاء کے مطابق خارجہ پالیسی بنائی
جائے نہ کہ کسی فرد واحد کی کیونکہ پاکستان میں جمہوریت کے لئے فضا کم ہوتی
جا رہی ہے۔ جمہوری لوگوں کو چاہیے اپنے سیاسی نظام میں ایک فعال کردار ادا
کریں اور اس کے لئے پارلیمنٹ اور میڈیا کو استعمال کیا جائے افغانستان کی
صورتحال کے پاکستان پر اثرات کے شدید خطرات موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ
تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات
بھی ہیں۔ ہم نے پرتشدد انتہاپسندی کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا ہے اور میں
نے اپنی والدہ سابق وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو انہی لوگوں کی وجہ
سے کھو دیا ہمیں افغانستان میں جنگ سے یہ سبق ملا ہے کہ انتہاپسندی کے خلاف
جنگ صرف اسلحے اور بم سے نہیں لڑی جا سکتی۔یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر مسلمہ
حقیقت ہیں لیکن اس وقت افغانستان میں نئی حکومت اور بھارتی حکمرانوں کی
پاکستان دشمنی کے باعث عمران خان کو سوچ سمجھ کر فیصلے کرناہوں گے اس کے
بغیرپاکستان کے افغانستان سے تعلقات خوشگوارنہیں ہوسکتے۔
|