ایمانداری،امانت اور دیانت ایک بنیادی اخلاقی صفت ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے کہ
"وہ مومن ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی پابندی کرتے
ہیں"(المومنون8:)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
"اس کا ایمان نہیں جس میں امانت نہیں۔"
وطن عزیز میں 90 کی دہائی سے لے کر ابتک سب سے زیادہ جس نعرے پر سیاسی
جماعتیں الیکشن لڑتی آئی ہیں وہ نعرہ "بد دیانتی" ہی رہا اگرچہ اسے نعرے کا
ٹائٹل تو نہ بدلا مگر ہر باراس کا مفہوم بدل کر سیاسی جماعتیں عوام کو
سہانے خواب دکھاتی آئی ہیں اور یوں ایک ہی ٹائٹل کے مختلف مفہوم بتا کر
عوام سے ووٹ لیے گئے تاہم بد دیانتی کے یہ الزامات ہمیشہ کرسی اقتدار پر
برا جمان رہنے والی سیاسی جماعت کے قائدین پر لگائے گئے اور عوام نے بھی اس
مہمکو بھر پور سپورٹ کیا یہی وجہ ہے کہ اب2021ہے مگر نعرہ آج بھی وہی ہے
مگر موجودہ حالات میں عوام اب اس نعرے سے اکتاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔
قارئین۔۔۔۔۔! آج میں آپ کو ایک عظیم شخصیت جس نے ہمیں برصغیر پاک و ہند میں
علیحدہ شناخت دلوائی انکی زندگی کے حوالے سے کچھ ایسے واقعات کی روداد
سناتا ہوں کہ جن میں ایمانداری جھلکتی نظر آتی ہے آج کی سیاسی جماعتیں اس
پیمانے پر ذرابھی نہیں اُترتیں۔
ذیل میں حضرت قائد اعظمؒ کی زندگی کے اہم پہلو پر مشتمل چند واقعات آپکی
نظر کرتا ہوں۔
……٭قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ایک مشہور تاجر عبدالکریم سے مقدمے کی
پیروی کے لئے 5000روپے وصول کیے ان دنوں قائد اعظم ؒ مقدمے کی فیس 500روپے
روزانہ کے حساب سے لیتے تھے تاہم قائد اعظم محمد علی جناح اپنی خداداد
صلاحیتوں کی بدولت مذکورہ مقدمے کو تین دن میں ہی جیت گئے آپ نے 1500روپے
فیس رکھ کر باقی رقم اپنے مؤکل کوواپس کر دی۔
……٭ایک مرتبہ ایک مؤکل نے مقدمے جیتنے کے بعد خوشی میں جذباتی ہو کر مقررہ
فیس سے زیادہ رقم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی خدمت میں بھیج دی تو آپ نے
اپنی فیس رکھ لی اور باقی رقم اپنے مؤکل کو واپس کر دی۔
……٭قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور کہا کہ میں
آپکی فیس ادا نہیں کر سکتا مگر میری خواہش ہے کہ آپ میری وکالت کریں
۔کامیابی کے بعد جو کچھ ہو سکا آپکی نذر کر دوں گا۔آپ نے مقدمہ کی پیروی کی
اور کامیاب بھی ہو گئے اس شخص نے کچھ رقم پیش کرنا چاہی لیکن آپ نے یہ کہہ
کر انکار کر دیا کہ پہلے فیصلہ ہو چکا ہے کہ فیس نہیں لی جائے گی۔
……٭قائد اعظم گولکنڈہ فیکٹری کیس کے سلسلے میں ایک فریق کی وکالت کے لئے
حیدرآباد گئے تو انگریز ریزیڈنٹ نے انہیں فون پر کھانے اور تبادلہ خیال کی
دعوت دی جسے انہوں نے یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ میرا سارا وقت میرے مؤکل
کا ہے جس کے مقدمے کی پیروی کیلئے میں آیا ہوں ،یہ دو ٹوک انکار کسی معمولی
اہلکار کو نہیں تاج و تخت برطانیہ کے نمائندے کو تھا جسکی حیثیت نواب اور
راجے سے بڑھ کر تھی۔
……٭حصول پاکستان کی جدوجہد کے دوران جماعتی چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کے
دوران بھی آپ انتہائی محتاط رہتے تھے جیسے ہی کوئی منی آرڈر یا دستی طور پر
کوئی رقم وصول ہوتی وہ اسی دن متعلقہ بینک اکاؤنٹ میں جمع کروادیتے ،رقم کی
رسید فوری طورپر اسے بھجوا دیتے اگر بینک بند ہو جاتا تو علیحدہ لفافے میں
رقم رکھ کر اس پر اپنے ہاتھ سے یہ نوٹ لکھ دیتے کہ یہ رقم فلاں مد میں جمع
کروائی جائے اور رقم بھیجنے والے کو باقاعدہ رسید بھجوائی جائے۔الٰہ آباد
کے اجلاس میں حضرت قائد اعظمؒ نے اپیل کی تو ایک لڑکے نے اسٹیج پر آکر چندہ
پیش کرنا چاہا تو آپ نے فرمایا
"میں یہاں کوئی چندہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دوں گاجن صاحب کو چندہ دینا ہو
باقاعدہ منی آرڈر کریں اور رسید حاصل کریں"
سرحد کے مسلم لیگی رہنما سردار اورنگزیب نے کہا کہ اس بچے کی دل شکنی ہوگی
اسے اجات دے دیجئے کہ وہ ڈائس پر آکر چندہ پیش کرے مگر حضرت قائد اعظمؒ نہ
مانے ،یہی وجہ ہے کہ انکا بدترین دشمن بھی قائداعظمؒ پر قوم کے ایک پیسے کے
ضیاع کا الزام عائد نہیں کرسکتا۔
قارئین۔۔۔۔۔۔! جس پاکستان کے معرض وجود میں آنے کیلئے ہمارے عظیم قائد نے
جو جدوجہد کی آج کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان اس سے کوسوں دور
ہیں۔
قائد اعظمؒ نے ایسا سیاسی معاشرتی کلچر چھوڑا تھا کہ جسے آج بھی پڑھ کر رشک
آتا ہے مگر موجودہ سیاسی کلچر پر نگاہ دوڑا کر تومتعدد سوالات ذہن میں
نمودار ہوتے ہیں کہ کیا پاکستان کو اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ ہم اس ملک
کے وسائل کو لوٹیں ،اس ملک کی ثقافت کو تباہ کریں ،اس ملک کی شناخت پر اپنی
کم عقلی اور بد دیانتی کے باعث مختلف دھبے لگوائیں ایسے بے شمار سوالات ہیں
جو ہر پاکستانی میری طرح اپنے ذہن میں رکھتا ہے مگر اسکے پاس کوئی ایسی
شخصیت موجود نہیں جس سے ان سوالات کے جوابات حاصل کر سکے اور نہ ہی کوئی
پلیٹ فارم صرف سوشل میڈیا ہے جس پر وہ اپنے دل کا غبار مختلف پوسٹوں کی
صورت میں نکالتا نظر آتا ہے دوسری جانب ارباب اقتدار عام آدمی سے یہ حق
چھیننے کیلئے بھی میدان کارساز میں متحرک نظر آرہے ہیں دوسری جانب پاکستان
بھر کے قلمکار اس وقت حکومت کی جانب سے کئے جانیوالے اس اقدام پرسراپا
احتجاج ہیں اور پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا بھی دے چکے ہیں تاہم اگر حکومت
پیچھے نہ ہٹی تو نومبر میں دوبارہ صحافتی حلقے اسلام آباد میں ہونگے اور اس
بار کا احتجاج اور دھرنا اس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہوگا جب تک حکومت وقت
صحافیوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کر کے ایک کالے قانون کو پاس کروانے کے
ارادے سے دستبردار نہیں ہو جاتی ۔
سنسر شپ کا جوموجودہ ماحول ہے اسکی ماضی قریب یا بعید میں کہیں مثال نہیں
ملتی تاہم اس کے باوجود ارباب اقتدار کو اطمینان قلب نہیں وہ اس سے مزید
آگے جانا چاہتے ہیں اور اسکے لئے وہ ہر جمہوری اوراصول و ضوابط کی دیوار
گرانے کی کوشش کر رہی ہے۔
قارئین ضروری ہے کہ ہر شخص اب اپنے تئیں اپنا احتساب کرے اور دیکھے کے
پاکستان کے بعد آزاد ہونیوالی قومیں جو ہمارے ہمسائے میں موجود ہیں وہ کیسے
اتنی ترقی کر گئیں اور ہم آج کیوں ہر حوالے سے پستی کا شکار ہیں ہر شخص کو
سوچنا ہوگا اور احساس کی کفیت سے نکل کر عملی اقدامات کرنا ہونگے کیونکہ
پاکستان کو اس وقت دنیابھر میں کھویا ہوا مقام دوبارہ واپس دلوانے کیلئے
ہمیں اپنے تئیں بھی دیانتدار ،ایماندار بننا ہوگا۔
حضرت قائد اعظمؒ نے جو اصول اپنی زندگی میں اپنا کر ہمیں راستہ دکھایا ہمیں
اس راستے پر چلنا ہوگا ہمیں حق اور سچ کا ساتھ دینا ہوگا اور حق کی فتح
کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی جو قومیں اپنے محسنوں کے نظریے کو چھوڑ دیتی ہیں
تباہی انکا مقدر بن جاتی ہے۔آج کے پاکستان میں ہم اپنے قائدؒ کے بتائے ہوئے
نظریے سے کوسوں دور ہیں ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا ۔
قارئین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! حضرت قائد اعظمؒ کے نظریے کو اپنا کر ہی ہم کامیابی
حاصل کر سکتے ہیں اور انکے نظریے کی جھلک اوپربیان کئے گئے چند واقعات سے
صاف واضع ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں حق اور سچ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین |