میں جب یہ کہتا ہوں کہ لوگ ،اکثر
سیاست دانوں ، ان کی باتوں اور ان کی چالوں سے تنگ آچکے ہیں اور جمہوریت کے
نام سے بھی انہیں نفرت ہونے لگی ہے تو ممکن ہے مجھے بعض لوگ آمریت کا حامی
یا غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار سمجھتے ہوں لیکن دراصل نہ تو میں دانشورانہ
باتیں کرنے کا عادی ہوں اور نہ ہی عوام کو فوری فائدہ نہ پہنچانے والی
باتوں کو پسند کرتا ہوں، میں تو بس وہی لکھتا ہوں جو دیکھتا ، سنتا اور
محسوس کرتا ہوں مجھے کسی بھی سیاسی پارٹی اور کسی بھی سیاست دان سے کوئی
غرض نہیں ہے، مجھے تو سیاست دانوں کی کسی بھی بات کا کوئی اعتبار بھی نہیں
ہوتا میں ان کی باتوں اور دعوؤں کو اب صرف اسی طرح سنتا ہوں جیسے کسی لا
اوبالی مگر جذباتی بچے کی گفتگو سنی جاتی ہو جذباتی بچہ جو بغیر سوچے سمجھے
بڑی بڑی باتیں کرتا رہتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کی باتوں کو کسی
نے سنجیدگی سے سن بھی لیا تو اس کی باتوں یا دعوؤں کے پورا نہ ہونے پر اسے
کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا او ر اسے کچھ لوگ بچہ سمجھ کر ، تو بہت سے معصوم
سمجھ کر اور کوئی بے وقوف سمجھ کر معاف کرتے رہیں گے۔۔۔۔پھر جس طرح کسی
پالتوں کتے سے محبت ہوجاتی ہے اسی طرح لوگ اس سے بھی محبت کرتے رہیں گے اسے
آزماتے رہیں گے اس وقت تک جب تک وہ اپنے آپ کو آزمائش کے لیئے پیش کرتا رہے
گا۔
لیکن میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ میں الحمداللہ مسلمان ہوں اور اللہ کی ذات
پر یقین ہونے کے ساتھ اس کی ہدایت کے مطابق جینا جانتا ہوں مجھے یقین ہے کہ
اللہ سب سے بڑی چال چلنے والا اور بڑی تدبیروں والا ہے میں تو سیاسی شخصیات
سے بھی مایوس نہیں ہوں جن کے بارے میں اوپر میں نے لکھا ہے کیونکہ نہ جانے
کب انہیں اللہ سیدھے راستے کی طرف موڑدے اور نہ جانے کب انہیں سر خرو بھی
کردے ۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ ہدایت اسے ہی دیتا ہے جو دل میں خوف خدا
رکھتا ہے جسے دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر ہوتی ہے۔
کراچی سمیت ملک کی جو صورتحال ہوگئی ہے صرف اور صرف مفاد پرستی کے باعث
ہوئی ہے ہمارے حکمران اور سیاست دان جمہوریت اور سیاست کے نام پر عوام کو
صرف دھوکہ دے رہے ہیں اور ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ سیاست میں سب جائز ہے
دراصل بے حس اور مفاد پرست سیاست دانوں کا نعرہ ہے یا یوں بھی کہا جاسکتا
ہے کہ یہ ان کا فارمولہ ہے ۔ جس طرح تاجروں کے لیئے یہ بات کہی جاتی ہے کہ
شرعاً آٹے میں نمک کے برابر منافع لینا جائز ہے اسی طرح سیاست دانوں نے
سیاست کے نام پر آٹے میں نمک کے مساوی عوام کے لیئے کچھ کردینے کو جائز جان
لیا ہے اور اسے عوامی اور ملکی سیاست کا نام دیدیا ہے۔
اگر ہم موجودہ بڑے بڑے سیاست دانوں اور ان کی جماعتوں کا جائزہ لیں تو قوم
اور ملک کے لیئے کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جسے نظریاتی کہا جاسکے
ہاں یہ ضرور ہے کہ تقریبا سارے ہی نظریہ ضرورت کے نام پر اپنی ذاتی ضروریات
کو ترجیح دے رہے ہیں اور اسی کے لیئے مصروف عمل ہیں۔
ملک میں حکومتوں سے چمٹی رہنے یا حکومت قائم کرلینے والی جماعتوں یا
حکومتوں کے قیام کے لیئے جھوٹے اور کھوٹے دعوے کرتے ہوئے سرگرم جماعتوں میں
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، مسلم لیگ ق، مسلم لیگ فنکشنل ، اے این پی اور
ایم کیو ایم ہے ان تمام جماعتوں نے عوام اور ملک کو بہت کچھ دینے کے بجائے
ان سے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے جس جماعت نے عوام کے لیئے جتنے بڑے دعوے کیئے
اتنا ہی کچھ عوام سے لے لیا یقین نہ آئے تو کراچی اور پشاور کی صورتحال
دیکھ کر یا وہاں کے لوگوں سے سنکر اندازہ لگالیں۔
اب کسی کے پاس کوئی بھی نظریہ نہیں ہے روٹی ، کپڑا اور مکان کی بات کرنے
والی پارٹی اب تینوں ہی سے عوام کو محروم کرنے میں مصروف ہے حکومت میں آنے
کے بعد اس نے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیئے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔
ملک پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والی جماعت مسلم لیگ نواز صرف اپنے ہی آبائی
صوبے پنجاب تک محدود ہوکر رہ گئی وہ وفاقی حکومت کے اقدامات سے اس قدر
نالاں ہیں کہ وہ اسے گرانے کے لیئے سنجیدہ کوشش ہی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ
اسے یہ بھی یقین ہے کہ اگر وفاقی سیٹ اپ ختم ہوا تو پنجاب کی حکمرانی بھی
نہیں بچ سکے گی۔
عوامی نیشنل پارٹی پختونوں کے حق کے لیئے سرگرم رہی ہے لیکن اس پارٹی کے
اکثر لیڈر اپنے صوبے میں ہی نہیں رہتے اپنے نصیب کی گولی کا خود انتخاب
کرنے والے اب اپنے ہی عوام کو گولیوں اور بموں کے سائے میں چھوڑ گئے ہیں
کیونکہ صوبے میں امن وامان کی جو صورتحال ہے وہ انتہائی خراب ہے اور لیڈروں
کو بہرحال زندہ رہنا ہے صوبے کے تقریبا تمام ہی شہروں میں لوگ صرف اللہ
توکل پر زندگی گذاررہے ہیں یہ لوگ گھر سے نکلتے ہیں تو انہیں خود واپسی کا
یقین نہیں ہوتا۔لیکن اے این پی نہ صرف صوبے میں حکمرانی کررہی ہے بلکہ وفاق
میں بھی حکومت کے مزے لے رہی ہے۔
مسلم لیگ ق پرویز مشرف کے دور میں آٹھ سال تک حکومت کرتی رہی اور 2008 کے
الیکشن میں عبرتناک شکست سے دوچار ہوئی بعد ازاں ملک کے صدر آصف زرداری نے
انہیں قاتل لیگ کا بھی خطاب دیا لیکن وہ ہی ذاتی مفادات نے قاتل لیگ کو آصف
زرداری کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ بنادیا اور وہ بھی حکومت کا حصہ بن گئی اس
طرح حکومت تو طاقت ور ہوگئی لیکن وہ عوام جن کے نام پر یہ پارٹیاں سیاست
کرتی ہیں ان کی حالت مزید بگڑ گئی۔لیکن دونوں پارٹی کے لوگوں کی پانچوں
انگلیاں اور سر کڑاہی میں ہے ان کے خوب مزے ہیں۔
مسلم لیگ ق کا ویسے بھی عام عوام سے کوئی خاص تعلق نظر نہیں آتا کیونکہ ان
کے آس پاس صرف خواص ہی موجود ہوتے ہیں۔
مسلم لیگ فنکشنل کی بات میں اس لیئے نہیں کرنا چاہتا کہ وہ اپنے روحانی عمل
سے چل رہی ہے یہ اور بات ہے کہ اس روحانی عمل سے بے چاری غریب عوام کا کوئی
تعلق ہی نہیں ہے یہ پارٹی میں بھی صرف خاص لوگوں کی پارٹی کہلاتی ہے اور
پیر پگاڑہ کی ”پیری مریدی“کے باعث چل رہی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ جسکی سیاست اور حق پرستی کے بارے میں سچ لکھنا بہت آسان
ہوتا اگر سچ جھوٹ کہلاتا۔بہرحال یہ حقیقت ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ ملک کی
وہ واحد جماعت ہے جو پیپلز پارٹی کے موجودہ اور سابقہ ادوار میں حکومت میں
رہنے کے باوجود اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرتی رہی۔۔۔۔اسے ہم تاریخیں رقم
کرنے والی پارٹی کہہ سکتے ہیں ،اس کا غصہ جمہوری ادوار میں ہمیشہ ناک پر
رہا لیکن اس نے ہمیشہ ہی عوام کے لیئے حکومت کا ساتھ دیا اب یہ ساتھ دینے
کا صلہ عوام کو کیا ملا ۔۔۔؟ اس کا جواب وہ ہی ہے جو متحدہ کے لوگ خود کہتے
ہیں کہ ان کے پاس اختیارات ہی نہیں تھے ۔ اب ایک بار پھر وہ حکومت سے باہر
ہیں اور اپوزیشن کی سیٹوں پر بیٹھنے کے لیئے بے چین ہے لیکن سندہ کی تقسیم
کی باتیں بھی ان ہی کی صفوں سے آرہی ہیں حالانکہ کراچی میں امن و امان کی
صورتحال تو ان کے حکومت میں رہتے ہوئے بھی اچھی نہیں تھی ٹارگیٹ کلنگ کے
واقعات عام تھے اور روزانہ دس بارہ افراد ہلاک ہوجایا کرتے تھے نہ متحدہ کو
معلوم تھا کہ کون ہیں ٹارگٹ کلرز اور نہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو؟ اب پھر
ایسا عوام کے ساتھ کیا ہوگیا کہ سندہ کی تقسیم کی باتیں شروع ہوگئیں۔
متحدہ کے اپوزیشن میں جانے کے ساتھ ہی ہنگامی بنیادوں کراچی میں کمشنر نظام
کی بحالی اورشہری حکومتوں کا خاتمہ کرنے میں حکومت نے جس تیزی کا مظاہرہ
کیا اس سے ذاتی خواہشات اور مفادات کی بو آرہی تھی،ممکن ہے متحدہ کو اس عمل
سے خدشہ ہو کہ سندہ تقسیم ہوجائے گا حالانکہ اب سندہ کون تقسیم کرے گا یہ
بھی سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ اب سندھ دھرتی کے خلاف ماضی میں سرگرم رہنے
والی قوتیں بھی بظاہر سندھ کی حامی نظر آتی ہیں۔
جماعت اسلامی طویل عرصے سے حکومت میں نہیں ہے لیکن عوام کے لیئے اس کی
تحریک سڑکوں پر نظر آتی ہے لیکن نہ جانے کیوں عام لوگ وں کی بڑی تعداد اس
جماعت سے اب تک دور کیوں ہے۔
تحریک انصاف بھی تیزی سے عوام میں مقبول ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے میرا خیال
ہے کہ عمران خان اپنا ہدف جلد حاصل کرلیں گے اور کسی حد تک کامیاب بھی
ہوجائیں گے لیکن انہیں مزید کامیابیوں کے لیئے اپنے اندر کے ڈکٹیٹر اور کر
کٹر کو کٹم کرنا ہوگا۔
بہرحال میرا سوال صرف یہ ہی ہے کہ کیا ہم آج بھی صرف قربانیاں ہی دیتے رہیں
گے اور ہمارے سیاست دان ملک اور عوام کے حقوق کے نام پر صرف قربانیاں لیتے
رہیں گے؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس پہل بڑے بڑے لیڈرز کی طرف سے ہو
جائے؟؟؟؟
اگر ایسا ہوگیا تو میں مان جاؤں گا کہ ہمارے سیاست دان عوام اور ملک کے
لیئے سیاست کرتے ہیں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے وہ تو عوام کے لیئے اپنی
ذات کو ہی ختم کرچکے ہیں۔ |