ریا ستوں کے تعلقات مفادات کے
گرد گھومتے ہیں یہ مفادات ہی اسے دوستی اور دشمنی کے پلڑوں میں ڈالتے ہیں ،کبھی
ا یک پلڑا بھاری اور کبھی دوسرا پلڑا بھاری ، یہی دنیاوی سیاست کی ریت ہے ا
ور عالمی برادری اسے سفارت کاری اور ڈپلومیسی کہتی ہے اور یہ دونوں لفظ اس
قدر پٹ چکے ہیں کہ لغت سے ان بوسیدہ لفطوں کو نکال دینا چاہیے اسی طرح
قوموں کی برادری میں غیر مشروط امداد اور تعاون کی اصطلاح بھی خاصی مستعمل
ہے لیکن یہ امداد غیر مشروط ہو کر بھی مشروط ہوتی ہے اور یوں طفیلی ریاست
کو ایسے شکنجے میں کس دیتی ہے کہ وہ آئندہ غیر مشروط امداد لینے سے بھی
توبہ کر لیتی ہے۔
پاکستان کا شمار بھی ایسی ہی ریاستوں میں ہوتا ہے جسے گزشتہ 63سال میں
مشروط اور غیر مشروط کی اصطلاحوں سے واسطہ رہا۔حال ہی میں امریکہ نے
پاکستان کی 80 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد روکنے کی بات کی ہے اور جیسا کہ اس
امداد کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ امداد صرف دفاعی مقاصد کے لئے خرچ ہو گی
لہذا اس کے غیر مشروط ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس پر آئی ایس پی
آر کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل اطہر عباس کا کہنا ہے کہ مشروط امر یکی امداد
کسی صورت قبول نہیں ۔ اس موقع پر محب وطن پا کستانیوں کا یہ سوال جائز ہے
کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ امر یکی امداد مشروط نہیں تو پھر
ہمارے ارباب اختیار ہر دوسرے مہینے یہ کیوں واویلا کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے
کولیشن سپورٹ فنڈ کا اکاؤنٹ خالی ہو رہا ہے اسے بھرا جائے ہمارا اس جنگ
میں68 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکاہے اور2001 سے اب تک پاکستان کو صرف18 ارب
ڈالر دئیے گئے ہیں آخر گزشتہ چند ماہ سے یہ آہ بکا کس کے لئے ہے کہ اس جنگ
میں 35 ہزار پاکستانی جاں بحق،چھ ہزار جوان شہید اور ایک لاکھ سے زیادہ
سویلین زخمی ہو چکے ہیں اور یہ رونا کیوں اور کس کے لئے ہے کہ پاکستان کی
سڑکوں سے گزر کر روزانہ80,80 من کی بھاری بھر کم 7 ہزار گاڑیاں افغانستان
میں داخل ہوتی ہیں جس سے قومی شاہرات کا نقصان ہو رہا ہے۔
امریکی مٹی کے مادھو نہیں کہ وہ پاکستان کی کیا کسی بھی ملک کی مفاد کے
بغیر مدد کرے یہاں تو نظریاتی ملکوں کا تعاون بھی درپردہ بعض شرائط رکھتا
ہے تو واشنگٹن کا کون سا پاکستان کے ساتھ اخوت کا رشتہ ہے اور اگر 1954 ءسے
اب تک دیکھیں تو امریکہ 6 بار پاکستان کی امداد روک چکا ہے 1965, ،1971
،1979 ،1990 ،1998 اور1999 ء وہ سال ہیں جب امریکی انتظامیہ نے اپنے مفاد
کو پیش نظر رکھ کر پاکستان پر پابندیاں لگا ئیں اور امداد روکی،لہذا یہ
کہنا کہ امریکہ ہمیں غیر مشروط امداد فراہم کرے گا قرین قیاس ہے ۔
امریکی اور یورپی تو اپنے محصول کی رقم ( ٹیکس منی) کے متعلق اتنے باشعور
ہیں کہ وہ اسے کے غیر پیداواری اور غیر ضروری استعمال کے خلاف آواز بلند
کرتے رہتے ہیں مثلاً امریکی ٹیکس دہندگان افغانستان اور عراق کی جنگ کے
خلاف ہیں ، یہی وجہ ہے کہ براک اوباما نے آتے ہی عراق کا محاذ ٹھنڈا کرنے
کی کوشش کی لیکن جب وہاں کی بچت افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد
بڑھانے کی صورت میں خرچ ہونے لگی تو عوام چلا اٹھے اور اب امریکہ کا یہ حال
ہے کہ وہ شدید ترین مالی خسارے کا شکار ہے جنگی معیشت امریکہ کو لے بیٹھا
ہے دنیا کا مقروض ترین ملک اب اس دلدل سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس
کے لئے جہاں امریکا کے ساتھ ساتھ برطانیہ،فرانس اور کینیڈا نے اپنی فوجیں
افغانستان سے نکالنا شروع کر دی وہیں اتحادی ریاستوں کی جانب سے پاکستان کو
دی جانے والی امداد میں بھی کمی آنا شروع ہو گئی ہے اور 80 کروڑ ڈالر کی
بندش اس کا ثبوت ہے۔
تر جمان پاک فوج کا یہ کہنا باالکل صائب ہے کہ پاکستا ن کو روزانہ کی بنیاد
پر کارکردگی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں امریکہ اگر ہر معاملے میں شک کرتا رہے
گا تو دونوں ملکوں کے عسکری تعلقات میں جو خلیج پیدا ہوئی ہے وہ مزید وسعت
ا ختیار کر جائے گی اور اس خلیج کا باعث بننے کی وجہ ماضی کی طرح اس بار
بھی امریکی عوامل ہی ہیں مثلاً ریمنڈ ڈیوس کیس،ڈرون حملے،ایبٹ آباد آپریشن
، شمسی ایئر بیس کا خالی نہ کرنا ، ملک میں بلیک واٹر کے ایجنٹوں کی
موجودگی، سی آئی اے کے جاسوسوں کا نیٹ ورک، پاکستانی فوج اور خاص کر آئی
ایس آئی کو بدنام کرنا ،پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنا،پاکستان کے
ہمسایہ ریاستوں سے تعلقات کو خراب کرنا اور پاکستان کو عا لمی سطح پر تنہا
کرنا یہ وہ عوامل ہیں، جس پر ہمارے وزیر دفاع احمدمختار کا خون بھی بالاخر
جوش مار گیا اور ان کو کہنا پڑا کہ اگر امریکہ نے اپنا رویہ درست نہ کیا تو
پاکستان مغربی سرحدوں سے اپنی فوج واپس بلا لے گا اور اس سے قبل وزیر اعظم
یوسف رضا گیلانی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو ہر معاملے میں ’یس باس ‘نہیں
مانتے،،اور کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی امریکا کے رویے پر اظہار ناراضی
کیا گیا ایسی صورتحال میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا
کا گزشتہ روز واشنگٹن جانا خاصا اہم خیال کیا جا رہا ہے ،دیکھیں آئندہ چند
دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ |