خواہ اظہار کا کوئی بھی پیرایہ اختیار کر لیاجائے مگر بات
تو اصل حقائق کی ہوتی ہے ۔جن سے نظر چرانا ناممکن ہوتا ہے۔یہ تو سچ ہے کہ
بار بار تلخ حقائق سے پردہ اٹھانا اچھا نہیں لگتا مگر کیا کیا جائے کہ کہنے
والوں نے کہا ہے ’’کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن ۔۔ظلم سہنے سے
بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے ‘‘ہمارے ہاں بہتری کا سورج طلوع ہی نہیں ہورہا اگر
کہیں ہوتا بھی ہے تو بس تشہیری اور کاغذی کاروائیوں تک محدود رہتا ہے۔ جس
کا بعدازاں حکومت نواز صحافی اور ترجمان عجیب بھونڈے طریقے سے دفاع کرتے
نظر آتے ہیں ۔دور مت جائیں دو دن پہلے ہی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں تاریخی اضافہ کیا ہے جس پر ہر شخص پریشان ہے کہ پہلے سے نوکریوں
اور کاروبار کے لالے پڑے ہیں ،دوکانیں ویران اور بازار سنسان ہیں، مہنگائی
نے سب کی مت مار رکھی ہے ۔اس پر کورونا ،ڈینگی اور دیگر امراض کے ساتھ ساتھ
جان لیوا بیماریوں کی ادویات کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ جن کے دن کا
آغازو انجام دوائی سے ہوتا ہے وہ پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی اور اپنے پیاروں کی
ادویات پوری کر رہے ہیں تو ایسے میں مسلسل ٹرانسپورٹ کے بڑھتے کرایے کیسے
ادا کریں گے ؟کیا ایک وقت کی روٹی بھی کسی کو میسر آئے گی ؟لیکن حکومت نواز
صحافیوں اورترجمانوں نے کمال ہنر مندی سے اس ظالمانہ تجویز کی منظوری کے جو
جواز دیے ہیں انھوں نے سب کو ششدر کر دیاہے۔ان کا کہنا ہے کہ پٹرولیم
مصنوعات کی قیمتیں ابھی بھی خطے میں پائی جانے والی قیمتوں میں سب سے کم
ہیں اور عالمی منڈی میں پانی سستا ہے اور تیل مہنگا ہو چکا ہے تو شکر کریں
کہ اﷲ نے پانی سستا رکھا ہوا ہے ۔افسوس! فکر آخرت نہیں ۔۔قیامت تو یہ ہے کہ
پیر سے روٹی بھی 12اور نان 18کا ملے گا کیونکہ 45 روپے میں خریدی جانے والی
گندم کی قیمت 80 روپے وصول کی جا رہی ہے ۔ریاست مدینہ کے نام لیواؤں کی
مسیحائی اور تبدیلی کی حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے تبھی تو پاکستان تحریک
انصاف کوصوبائی دارلحکومت جیسے اہم ترین کنٹونمنٹ بورڈزکے انتخابات میں نا
قابل یقین شکست کا سامنا ہوا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈ ز کے الیکشن حکومتی جماعت کے
لیے لمحہ فکریہ ہیں اور مستقبل کا واضح تعین کرتے ہیں کیونکہ پنجاب کے بڑے
شہروں میں جس طرح وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ ادھر ادھر کے دلائل سے
کور نہیں کیا جا سکتا۔پنجاب کے بڑے شہر میں صرف تین سیٹیں لینا، پھر
راولپنڈی میں اور ملتان سے تو مکمل ہی صفایا ہو گیا ہے ۔۔غیر تسلی بخش
پرفارمنس کیوجہ سے عوامی بد اعتمادی کی اور کیا نشانی ہو سکتی ہے ؟ کسی بھی
قسم کی تاویلیں اور جواز پیش کئے جائیں مگر سچ یہی ہے کہ تبدیلی سرکار جیت
کا سہرا سجانے میں اتنی مگن رہی کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ عوام نئے مسیحا
کی تلاش میں بھٹک چکے ہیں کیونکہ انھیں یقین ہوچکا ہے کہ جمہوریت کے نام پر
وطن عزیز ایسے سیاست دانوں کے نرغے میں ہے جن کی حماقتوں ،سیاسی اکھاڑ
پچھاڑ ،ادھر ادھر کی سکیموں ،حریفو ں سے ہاتھ ملانے،نام نہاد جاہلانہ نعروں
اور خودی اور خوداری کو بھلاکر اغراض کے لیے تماشا بننے اور تماشا بنانے ،اور
ایک دوسرے کی ٹانگیں توڑنے اور ٹانگیں کھینچنے کے سوا ان کو کچھ نہیں آتا ۔انکی
انھی مکاریوں اور شعبدہ بازیوں کی وجہ سے‘ اس ملک کی ناؤ کبھی آمریت اور
کبھی نام نہاد جمہوریت کے‘ طوفانوں سے ‘نبرد آزما رہی اور اب پھر حالات یہ
بنے ہوئے ہیں کہ ’’تیور ترے اے رشکِ قمر دیکھ رہے ہیں ۔۔ہم شام سے اندازِ
سحر دیکھ رہے ہیں ‘‘۔
چلیں مان بھی لیں کہ مافیاز زیادہ طاقتور ہیں ۔انھیں ختم کرنے کے لیے
تبدیلی سرکارہاتھ پاؤں مار رہی ہے مگر ہاتھ پاؤں مارنا الگ بات ہے اور
کارگر حکمت عملی اپنانا الگ بات ہے ۔تین برسوں سے حتی الامکان کوشش ہو رہی
ہے مگر بات نہیں بن رہی’’ اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ اور’’ جس کی لاٹھی اس کی
بھینس‘‘ والا معاملہ بنا ہوا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ مافیاز کو قابو کرنا
کس کا کام ہے اور اگر قابو کرنے والے مگر مچھوں کی گردن دبوچنے میں ناکام
ہیں تو انھیں ہم پر مسلط کیوں کر رکھا ہے ؟عوام کو’’تقریری ٹانک‘‘ نہیں
ریلیف چاہیے !سبھی جانتے ہیں کہ میاں شہباز شریف نے ڈینگی کے خلاف ایسی مہم
چلائی اور رنگ میں بھنگ ڈالنے والوں کو یوں قابو کیا کہ ڈینگی کا صفایا
ہوگیا۔ یہاں تک کہ خان صاحب خود بھی ڈینگی برادران کہنے پر مجبور ہو گئے
تھے تو آج آپ کیا کر رہے ہیں ؟ ہر طرف کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہیں پوراپنجاب
کچرا کنڈی بنا ہوا ہے ۔موسم سرما نے دستک دی ہے اور مچھروں نے راگ سنانا
شروع کر دیا ہے ۔ وبائی امراض کے خلاف حکومتی پالیسیاں سوالیہ نشان کیوں
ہیں جبکہ کورونا کے ساتھ ہیپاٹائٹس ،ڈینگی اور مختلف انواع کے وبائی امراض
اور وبائی بخار بھی سر اٹھا چکے ہیں۔ایسے میں چاہیے تھاکہ حفاظتی تدابیر پر
غورو فکر اور توانائی صرف کی جاتی مگر الٹا عوام الناس پر زندگیاں تنگ کرنے
کی تجویزیں منظور کی جارہی ہیں۔۔ جبکہ حسب روایت کرسیوں کے پرستار صوبائی
سطحوں پر اپنے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں جبکہ خصوصی طور پر پنجاب حکومت کے جوڑ
توڑ اور مسلم لیگ ن میں رسہ کشی بارے نئی سے نئی خبریں اور افواہیں گردش کر
تی پھر رہی ہیں ۔کسی کو ملک و قوم کی فلاح کی خیر کی پرواہ نہیں ہر کوئی
اقتدار کی ہوس میں اندھا ہوچکا ہے ۔عوامی شعور کو روٹی اور نوکری کی فکر
نگل گئی ہے ۔تعلیمی ادارے آئے روز بند کر دیے جاتے ہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے
تعلیم و صحت حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے بلکہ کسی سوچے سمجھے
منصوبے کے تحت عوام کو ان بنیادی سہولتوں سے محروم کیا جارہاہے ۔یہ صرف ہم
نہیں کہہ رہے بلکہ دنیا کہہ رہی ہے کیونکہ خان صاحب ہر پلیٹ فارم پر تبدیلی
راگ سنایا کرتے تھے۔تاجکستان مشترکہ بزنس فورم پر شاعر نے جس طرح وزیراعظم
عمران خان کی کنٹینر پر کی جانے والی باتوں اور موجودہ پالیسیوں پر شاعرانہ
تنقید کی ہے وہ بھی قابل غور ہے کہ ’’اتنے ظالم نہ بنو کچھ تو مروت سیکھو
‘‘ تو خان صاحب نے غصے میں کہا کہ ہم سے بزنس کی باتیں کریں شعرو شاعری پھر
کریں گے ۔یقینا ’’کاغذ کی ناؤ سدا نہیں چلتی ‘‘حالات و واقعات کو دیکھ کر
یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غیر معیاری پرفارمنس حکومت کو لے ڈوبے گی ۔۔ |