گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں، میں نے
تفصیل سے ذکر کیا تھا کہ پاکستان کو خارجی محاذ پر کس طرح کے مسائل اور
مشکلات کا سامنا ہے۔ بظاہر یہ مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ افغانستان کا بحران
جلدی حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ امریکہ اپنی شرمناک شکست کی شرمندگی کا ملبہ ہم
پر ڈال رہا ہے۔ داخلی طور پر دہشت گردی کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا
ہے۔ اگر افغانستان کے حالات بگڑتے ہیں اور امریکہ کو شکایات پیدا ہوتی ہیں
تو بھی امریکہ ہمیں کو ذمہ دار ٹھہرائے گا۔ اس صورتحال کے نتائج کیا نکلیں
گے، اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
آج میں ملک کے اندر پائی جانے والی صورتحال کا کچھ ذکر کرنا چاہتی ہوں جہاں
عوام آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی سے عاجز آتے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک
معتبر ادارے کی طرف سے کئے جانے والے عوامی سروے میں جب پوچھا گیا کہ آپ کا
سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ تو عوام کی بھاری اکثریت نے مہنگائی کا نام لیا۔
کہنے کو اور مسائل بھی ہیں۔ تعلیم کے مسائل، صحت کے مسائل، امن و امان کے
مسائل، بے روزگاری کے مسائل، کرونا کے پیدا کردہ مسائل، کرپشن کے مسائل،
بنیادی حقوق کے مسائل، خواتین کے ساتھ مسلسل ہونے والی واردتوں کے مسائل،
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں مسائل، انصاف کے حصول میں مشکلات
کے مسائل، گھریلو تشدد کے مسائل، طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے مسائل، غرض
چاروں طرف طرح طرح کے مسائل بکھرے پڑے ہیں لیکن مہنگائی جس رفتار سے بڑھ
رہی ہے اور جس طرح اس نے نہ صرف غریبوں بلکہ متوسط طبقے کے لوگوں کو
پریشانی کر دیاہے، اگر اس کو روکنے کا کوئی بندوبست نہ ہوا تو غربت کا ایک
طوفان اٹھے گا جو شاید کسی کے قابو میں نہ رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کاویڈ
19 کے انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت کے تقریبا پہلے دو
سال اس وبا کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا لیکن اسی وقت مہنگائی نے سر
اٹھانا شروع کر دیا تھا، بے روز گاری بڑھنے لگی تھی، معیشت کمزور ہو گئی
تھی۔ جی۔ڈی۔پی کی شرح صفر سے بھی نیچے چلی گئی تھی اور غیر ملکی قرضوں کا
بوجھ بڑھنے لگا تھا۔ معیشت کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں حکومت کی بے
حکمتی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حکمران جماعت نے اقتدار
میں آنے سے پہلے اپنا کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا، اس کے پاس اپنی کوئی
معاشی ٹیم ہی نہیں تھی، لہذا معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے تھوڑے تھوڑے
عرصے بعد سے ٹیکنوکریٹس آزمائے جانے لگے۔ عملا نتیجہ وہی نکلا جو آئے دن
نیا ڈاکٹر یا حکیم تبدیل کر لینے والے مریض کا ہوتا ہے۔ ایک تنقید یہ بھی
کی جاتی ہے کہ حکومت نے سب سے زیادہ توجہ احتساب کے عمل پر دی۔مہنگائی، بے
روزگاری، تعلیم یا صحت کے بجائے اس نے کرپشن کو اپنی سب سے بڑی اور پہلی
ترجیح بنایا۔ نیب کو سب سے زیادہ طاقت دی، اسکی سرپرستی کی اور اسے وسائل
فراہم کئے۔ نیب نے بھی حکومت کو مایوس نہیں کیا اور اس کے سیاسی مخالفین کو
اپنا خاص نشانہ بنائے رکھا۔ چلیں سیاست میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے لیکن دو
ایسے طبقے بھی نیب کی زد میں آگئے جن کے احتساب کی براہ راست زد حکومتی
کارکردگی اور ملکی معیشت پر پڑی۔ ان میں سے ایک طبقہ تھا بیوروکریسی کا اور
دوسرا صنعتکاروں، تاجروں اور سرمایہ کاروں کا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سرکاری
ملازم سہم گئے ۔ ہاتھ پر پاتھ رکھ کر بیٹھ گئے۔ فائلیں رک گئیں۔ کارکردگی
سست پڑ گئی اور ایک طرح سے سارا نظام مفلوج ہو کے رہ گیا۔ اس کا گلہ خود
حکومتی وزراء بلکہ خود عمران خان بھی کرتے رہتے ہیں کہ بیوروکریسی ان سے
تعاون نہیں کررہی۔ ادھر تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار ڈر گئے۔ وہ اعتماد
کے ساتھ آگے آنے اور اپنا سرمایہ کاروبار میں لگانے کا حوصلہ نہ کر پائے۔
اس صورتحال کے اثرات چینی سرمایہ کاری پر بھی پڑے اور سی ۔پیک میں بھی سست
رفتاری آگئی۔ بیرونی سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی رک گیا۔ حکومت کو معیشت کی
جو شرح نمو 5.8 فی صد ملی تھی وہ صفر پر چلی گئی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی ہر انسان کو چاہیے۔ اور کچھ بھی نہیں تو
وہ یہ روٹی شاید پانی کے ایک دو پیالوں کے ساتھ نگل کر ہی پیٹ بھر لے۔ لیکن
یہ روٹی بھی کروڑوں لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اندازہ لگائیے
کہ جو چکی آٹا پچھلی حکومت کے خاتمے کے وقت 35 روپے کلو مل رہا تھا، آج
اسکی قیمت 80 روپے کلو سے زائد ہو چکی ہے۔ عام درجے کے آٹے کا 20 کلو کا
تھیلا اب 1200 روپے تک پہنچ گیا ہے اور دور دراز کے علاقوں میں اسکی قیمت
اور بھی زیادہ وصول کی جا رہی ہے۔ جب آٹا ہی دسترس میں نہ رہے تو غریب آدمی
کہاں جائے؟ اب زرا ان اعداد وشمار پر ایک نظر ڈالئے۔ گزشتہ حکومت کے خاتمے
پر چینی کی قیمت 55 روپے کلو تھی جو آج دگنی یعنی 110 روپے فی کلو ہو گئی۔
جو گھی 145 روپے فی کلو ملتا تھا آج اسکی قیمت 330 روپے کلو ہے۔ بجلی کا
ایک یونٹ اس وقت 8 روپے کا تھا جو اب 22 روپے کا ہو گیا ہے۔ سبزی کی جو
اوسط قیمت 45 روپے کلو تھی، وہ آج 150 روپے کلو ہو چکی ہے۔ کچھ لوگ گڑ
استعمال کرتے ہیں، جس کی قیمت تین سال پہلے 70 روپے کلو تھی اب 140 روپے فی
کلو ہے۔ جو سونا 45 ہزار روپے تولہ تھا آج ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے تولہ
ہے۔ چاول 400 روپے کلو سے 800 روپے کلو ہو گیا ہے۔ جس دال کی قیمت 170 روپے
تھی، اب وہ 280 روپے کلو ہو گئی ہے۔ پٹرول 65 روپے لیٹر سے 123 روپے 30
پیسے فی لیٹر ہو چکا ہے۔ یہ ان چند اشیائے ضرورت کا ذکر ہے جو کسی نہ کسی
طرح ہر شخص کے استعمال میں آتی ہیں۔
حکومت سے پوچھیں تو اس کے پاس بہت سے دلائل ہوں گے۔ اس کے وزراء ان دلائل
کا ذکر بھی کرتے رہتے ہیں لیکن عام لوگ کیا کریں، کہاں جائیں؟ کس دروازے پر
دستک دیں۔ حکومت نے چینی پر کمیشن بٹھایا۔ بہت دعوے ہوئے۔ کسی ایک کا بھی
محاسبہ نہیں ہوا اور چینی کی قیمت بڑھتی ہی چلی گئی۔ گندم سکینڈل پر کمیٹی
بنی۔ رپورٹ آئی۔ کسی کا محاسبہ نہیں ہوا اور آٹا عوام کی پہنچ سے دور ہوتا
چلا گیا۔ ایل۔این۔جی پہ کمیٹی بنی۔پتہ نہیں اس کا کیا بنا لیکن بجلی کی
قیمت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اب تو اتنے بھاری بل آرہے ہیں کہ اچھی خاصی
آمدنی رکھنے والوں کے لئے بھی ان کی ادائیگی مشکل ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں
اضافے پر کمیٹی بنی۔ کوئی فرق نہ پڑا۔ اس دوران بے روزگاری کا سیلاب بھی بے
قابو ہو چکا ہے۔ خود حکومت کی ایک تازہ رپورٹ نے اسکی تصدیق کر دی ہے۔
عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق روزگار کے قابل 70 لاکھ افراد بے
روزگار ہیں۔ آپ انہیں ستر لاکھ کا خاندان سمجھیں۔ ان بے روزگاروں میں 12 فی
صد وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں بیس اور چوبیس سال کے درمیان رہیں۔ عالمی بنک
کے مطابق اس وقت 40 فیصد پاکستانی، اس کے معیار کے مطابق غربت کی لکیر سے
نیچے چلے گئے ہیں یعنی ان کی تعداد آٹھ کروڑ سے زائد ہے۔ گزشتہ حکومت کے
دنوں میں یہ شرح 25 فیصد کے لگ بھگ تھی۔
حکومت کے لئے شاید میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی سب سے بڑا مسئلہ ہو۔ شاید وہ
آنے والے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتی ہو۔
شاید ا س کے نزدیک 18 سال سے کم عمر میں تبدیلی مذہب بڑا ایشو ہو۔ شاید وہ
نیب چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع کو بڑا مسئلہ سمجھتی ہو۔ لیکن خدا کے
لئے مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت کی طرف بھی نگاہ ڈالئے۔ لوگوں کے لئے
زندہ رہنا ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ وہ دوا دارو کوچھوڑ بھی دیں لیکن روٹی تو
ہر حال میں چاہیے نا۔ یہ مسئلہ کون دیکھے گا؟ مہنگائی کے عفریت کو کون قابو
کرئے گا؟
|