باباجی کے دونوں اعتراض درست تھے،میں خودبڑے عرصے سے
محسوس کررہاہوں،میری تحریرمیں ایک بیزاری،ایک لاتعلقی سی آچکی ہے۔وہ
تلخی،وہ آگ اوروہ سلگتاہوادردختم ہوتاجارہاہے جواس تحریرکی پہچان
تھا۔ایساکیوں ہورہاہے؟میں اکثرخودسے سوال کرتا ہوں۔ہربار میں خودکویہی جواب
دیتاہوں،کوئی نیا موضوع ، کوئی نیاایشونہیں۔میں نے باباجی کوبھی یہی
جوازپیش کیا۔میں نے انہیں بتایا “باباجی!مہنگائی پرکتنے کالم لکھے گئے
ہیں؟بیروزگاری،جہالت اوربیماری پراورکہاں تک لکھوں؟بد امنی،حکومتی بے
حسی،لوٹ کھسوٹ،کرپشن،دفتری تاخیر،سرخ فیتہ اور سیاسی مکرو فریب پرکتنے ٹن
مضامین چھپ چکے ہیں؟آخر انسانی دماغ کی بھی ایک حدہوتی ہے،آپ سیاپابھی ایک
حدتک کرسکتے ہیں،بچہ ماں کوکتناپیارا ہوتاہے، بچہ مر جائے توماں بین کرتی
ہے،روتی ہے چلاتی ہے لیکن کتنی دیر؟ایک گھنٹہ، ایک دن یاایک ہفتہ،آخربین
چیخوں،چیخیں سسکیوں اورسسکیاں آہوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں،دلِ مضطرب کوچین
آجاتاہے۔ ایک ہلکی سی کسک،دردکی ایک تھوڑی سی آہٹ باقی رہ جاتی ہے”۔
کالم نویسوں کے کالم بھی ایک بین،ایک چیخ ہوتے ہیں۔یہ چیخ یہ بین بتاتے ہیں
کہ لوگو!تمہارے ساتھ ظلم ہوگیا،تم لٹ گئے،تم بربادہوگئے ۔اس چیخ،اس بین
پرلوگ متوجہ ہوجائیں اورظالم ٹھٹک کررک جائے توکالم اورکالم نویس کافرض
پوراہوگیالیکن اگرظالم ان چیخوں،ان بینوں کے باوجود ظلم کرتارہے،ایک لمحے
کیلئے اس کاہاتھ نہ رکے،اس کے ماتھے پرشرمندگی کاپسینہ تک نہ آئے،تووہ
چیخ،وہ بین ایک فضائی آلودگی کے سواکچھ نہیں ہوتی۔لوگ بھی اگراس چیخ اوراس
بین کومعمولی سمجھیں اورایک روٹین کادرجہ دے دیں توبھی یہ چیخیں یہ بین
آوازوں کے جنگل میں ایک جھاڑی،سوکھی سڑی اورایک کچلی گھاس سے زیادہ حیثیت
نہیں رکھتی۔ چوکیدار کے”جاگتے رہو”کے اعلان سے اگرچورگھبرائیں اورنہ ہی اہلِ
محلہ کی آنکھ کھلے توچوکیدارکیاکرے گا؟اس کی پتلیوں میں بھی نیند ہچکولے لے
گی ،اس کاضمیربھی جمائیاں لینے لگے گا۔
یقین کیجئے میں جب لکھنے بیٹھتاہوں توخودسے سوال کرتاہوں،کس کیلئے لکھ
رہاہوں؟ان لوگوں کیلئے جوغلامی سہنے کی عادت، زیادتیاں برداشت کرنے کی خوجن
کی نس نس میں بس چکی ہے،جواپنے اوپرہونے والے ظلم کی داستان کوبھی ایک
افسانہ سمجھ کر پڑھتے ہیں،جواپنے قتل کے گواہ پرہنستے ہیں یااس حکومت کیلئے
جو خدا ترسی کی اپیل کوپاگل اورقنوطیوں کا”واویلا”سمجھتی ہے ۔ میں اس نتیجے
پرپہنچ چکاہوں آپ بیل کولیکچر کے ذریعے چیتانہیں بناسکتے۔بھیڑیئے کے دل میں
بھیڑ کیلئے ہمدردی بھی نہیں جگا سکتے،لہنداصاحبو!سچی بات ہے سیاپے کی یہ
نائین(پیغام دینے والی مائی)تھک چکی ہے۔آخرقبرستانوں میں اذان دینے کی ایک
حد ہوتی ہے!
رہادوسرااعتراض تومیں نے پچھلی چاردہائیوں میں سیاستدانوں کے وہ رنگ دیکھے
کہ لفظ سیاست سے مجھے گھن آتی ہے۔یوں لگتاہے کہ میں کسی کچراگھرکی دیوار
پربیٹھاہوں،ایسی دیوارجس میں اصول،انصاف،وفاداری،ایمانداری اورضمیر نام کی
ہروہ خوبی،ہروہ وصف گل سڑرہاہے،جس کی وجہ ایک درندہ اشرف المخلوقات کو نگل
چکاہے،مجھے ان اوصاف،ان خوبیوں کے لاشوں میں کیڑے رینگتے نظر آتے ہیں۔میں
نے ان پچھلی چاردہائیوں میں ان لوگوں کواپنے محسنوں کوگالیاں دیتے دیکھا۔
میں نے فوجی حکمرانوں پرتنقید کرنے والوں کوان کے تلوے چاٹتے دیکھا۔آپ
کویادہوگاکہ جنرل ضیاء الحق نے جب کہاتھاکہ میں ان سیاستدانوں کواشارہ کروں
تویہ دم ہلاتے میرے پاس آجائیں۔میں اس وقت بھی سیاسی تجزیے کے عنوان سے ہی
دہائی دیتارہااورمشرف کے دوراقتدارمیں توکھلی آنکھوں سے اشارے کے بغیردمیں
ہلتیں اور زبانیں نکلتی سب نے دیکھیں ہیں۔موجودہ حکومت کی تشکیل میں
تواشاروں کے ساتھ جہازکی سواری نےایساکمال دکھایا کہ جمال دیکھنے کی تمناہی
باقی نہیں رہی۔
آپ کسی غیرت مندکوگالی دے سکتے ہیں لیکن جس کی آنکھوں کی شرم ہی مرچکی
ہو،جسے پارٹی بدلتے،وفاداری تبدیل کرتے،نظریہ اورمنشوربھلاتے اتنے دیربھی
نہ لگتی ہوجتنی بنیان بدلنے یاجرابیں تبدیل کرنے میں لگتی ہے توآپ اس
کوکتنابرابھلاکہہ دیں گے۔یارو!ان سے تووہ شخص بہترتھاجس نے یہ کہاتھاکہ میں
انکارمیں اتنا آگے جاچکا ہوں کہ میرے لئے واپسی ممکن نہیں اورزہرکےپیالہ
کوامرت دھاراسمجھ کر پی گیا۔باباجی!آپ خودسوچیں!بدبوکے اس جوہڑپر
کیالکھاجائے؟ان غلاظت اور سڑاند بھرے کچرا گھروں سے کون ساسورج طلوع
ہوگا،یہ لوگ کس مستقبل کی بنیادرکھ رہے ہیں۔ مفادات کی کوکھ میں پروان
چڑھنے والے لوگ اپنی انا،اپنا ضمیر اور اپنی زبان گروی رکھ کرجنم لیاکرتے
ہیں۔وہ جمہوریت جو آمریت کے پیٹ میں ہلکورے لے رہی ہو اس سے کیاتوقع کی جا
سکتی ہے؟جولوگ اپنے نظریئے پرقائم نہیں رہ سکے،جواپنے لیڈروں کے نہیں ہوسکے
وہ میرے یاآپ کے کیاہوں گے۔وہ میرے نظریات، میرے احساسات اور میرے جذبات کی
کیاترجمانی کریں گے۔وہ میرے لئے تبدیلیوں کے کون سے سورج تراشیں گے،وہ
انقلاب کے کن سویروں کی پنیریاں لگائیں گے؟ہمارے ان حکمرانوں نے کشمیرکے
مظلوم اوربیکس لوگوں کوکیا پیغام بھیجا، ہرہفتے ایک گھنٹہ سرکاری احتجاج
کااعلان کرکے پہلے دن چندمنٹ کافوٹوسیشن کرکے کہاں غائب ہوگئے؟کوئی
جہادکانام نہ لے،میں خوداس کاوکیل ہوں،تاریخ نے اس دعوے کوبھی اپنے دامن
میں محفوظ کرلیاہے۔
کشمیری توبھارتی فوج کے نافذ کردہ کرفیواورانٹرنیٹ کی پابندیوں کے
باوجوداپنے حق کے حصول کیلئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں اوراس تحریک
کوہرحال میں اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اپناسب کچھ داؤپرلگاچکے
ہیں۔بزدل اورمکارمودی فوج 92سالہ بوڑھے مریض مردِحریت جناب سید علی گیلانی
کے جسدخاکی سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ ان کے جسدخاکی کو چھین کر ان کوعجلت
میں دفن کردیاجبکہ وہ پچھلے بارہ سال سے گھرمیں نظربندتھے اوران کے قریبی
ساتھی “اشرف صحرائی” کوجموں جیل میں شہیدکردیاگیااورباقی ماندہ تمام
ساتھیوں کوجیل کی اذیت ناک کوٹھڑیوں میں بندکررکھاہے۔کیاجیل کی سلاخیں
کشمیرکی آزادی کا راستہ روک سکتی ہیں؟ کیا کشمیریوں کے محبوب لیڈرسیدعلی
گیلانی کوعوام کے دلوں سے الگ کیاجاسکتاہے؟کیامجاہدہ سیدہ آسیہ ا ندرابی کے
عزم کو کمزور کیاجاسکتاہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا نہ کبھی ہوااورنہ ہی اب
ممکن ہے!لیکن ہمارے اس سیاستدان کوکل کلاں تاریخ کس نام سے یادکرے
گی؟پروفیسر حسین عالم تم ہی بتاؤکہ تم توتاریخ کے استاد ہو؟
ربِّ کعبہ کی قسم!میں اپنے وجودپرشرمندہ ہوں،مجھے شرم آتی ہے،میں کس دور،کس
عہدمیں جی رہاہوں۔میں اپنے بچوں،اپنی آئندہ نسل کوکس عہد،کس دور میں چھوڑ
کرجاؤں گا۔میں توہواکے اس جھونکے سے بھی ہلکاہوگیاہوں جواگرچلتی ہے تودنیا
سے بدبوکاایک تولہ، سڑاندکا ایک آدھ ماشہ کم ہوجاتاہے اورباباجی کہتے ہیں
کہ میں ان سیاستدانوں پرلکھوں،شیطان کوبددعائیں دوں،یہ جانتے ہوئے بھی کہ
سیاپوں،بینوں اورچیخوں سے مردے جاگاکرتے ہیں اورنہ ہی بددعاؤں سے شیطان
مراکرتے ہیں۔
|