کہتی ہوں سچ کے جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

منڈل اور کمنڈل کی لڑائی پھر سے زور پکڑنے لگی ہے۔ یہ سنگھ پریوار کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ اس نے ملک میں اپنی سیاست چمکانے کی خاطر مسلمانوں کے خلاف ایک جعلی اتحاد قائم کررکھا ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے سامنے آنے والے حقائق اس دیوار میں دراڑ ڈالنے کا کام کریں گے ۔ بہار سے شروع ہونے والا یہ طوفان اب مدھیہ پردیش کی سرحدوں میں داخل ہوچکا ہے۔ پسماندہ ذاتوں کی تنظیم او بی سی مہاسبھا نے 18؍ ستمبر کو اپنے 5 نکاتی مطالبات کو بروئے کار لانے کی خاطر بی جے پی رہنما اوما بھا رتی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ۔ اس موقع پر مردم شماری میں ذات پات کی شمولیت کے علاوہ نجی شعبوں میں ریزرویشن کی مانگ بھی کی گئی ۔ اوما بھارتی کا تعلق دراصل پسماندہ طبقہ میں شامل لودھ سماج سے ہے اس لیے بی جے پی کے دیگر رہنماوں کے بجائے ان سے ملاقات کرنے کی اپنی سیاسی اہمیت ہے۔

اوما بھارتی نے وفد سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریزرویشن کا فائدہ اٹھانا ہے تو کرناٹک کے لنگایت سماج کی مانند متحد ہونا پڑے گا ۔ دراصل کرناٹک کا لنگایت سماج تو اپنے آپ کو ہندو مذہب سے خارج کرنے کا مطالبہ بھی کرتا رہا ہے اور اس کے لیے تحریک بھی چلا چکا ہے ۔ اس کے باوجود اوما بھارتی کا اس کی مثال پیش کرنا بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک ذات پات کے تشخص اور مفاد نے ہندوتوا کے نظریہ پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ممکن ہے ان کا دل اس وقت ٹوٹ گیا ہو جب پچھلے سال وزیر اعظم نریندر مودی نے رام مندر کا شیلا نیاس کیا۔ وہ اس میں شمولیت کی خاطر گاڑی سے ایودھیا تو پہنچیں مگر تقریب میں شرکت نہیں کی ۔ ان کو شریک کرنے کی خاطر سمجھانے منانے کی کوئی خاص سعی نہیں کی گئی۔ ہندو توا سے ان بیزاری کا دوسرا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بی جے پی نے تو ان کا سیاسی مستقبل دریا برد کر دیا ہے ایسے میں اگراوما کے ڈوبتے کمنڈل کو منڈل کے تنکے کا سہارا مل جائے تو کیا برا ہے؟

اوما بھارتی نے مذکورہ نشست میں جو گفتگو کی اس کے ذرائع ابلاغ میں آجانے سے تنازع کھڑا ہوگیا ۔اس کی انہیں صفائی پیش کرنی پڑی مگر ایسا کرتے ہوئے انہوں نے بی جے پی کی کھال ادھیڑ دی ۔ وہ بولیں سرکاروں نے تو زمین تک نجی شعبوں کو سونپ دی ہے ۔ اب ریزرویشن کے لیے نجی سیکٹر پر دباو بناو۔ جب تک پرائیویٹ سیکٹر میں ریزرویشن نہیں ملےگا تب تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اوما بھارتی نے بی جے پی کا نام تو نہیں لیا لیکن ملک میں مرکز کے علاوہ کئی ریاستوں کے اندر بی جے پی کی حکومت ہے اس لیے سرکاروں کا اطلاق اس پرخوب ہوتا ہے۔ دراصل ریزرویشن کوہٹائے بغیر عملاً چھین لینے کا سب سے آسان طریقہ نجکاری ہے ۔ یہی موجودہ حکومت کی دکھتی رگ ہے جس پر ’ہم دو اور ہمارے دو کی سرکار ‘ کہہ کر راہل گاندھی نشتر زنی کرتے رہتے ہیں اور سرکار تلملا اٹھتی ہے ۔
اوما بھارتی کا یہ اعتراف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ او بی سی مہاسبھا نے مدھیہ پردیش کی بی جے پی سرکار کو ان کے مطالبات پر جلد فیصلہ نہیں کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ اپنے مطالبات کی خاطر وہ بی جے پی کے ارکان پارلیمان، ارکان اسمبلی اور وزراء کی پرزور مخالفت کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں ۔وطن عزیز میں یہ عام خیال پایا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے وزراء تو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن طاقت کا اصل سر چشمہ بیوروکریسی ہےاور وہ لوگ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنے لوگوں کے ذریعہ بیورو کریسی کو قبضے میں لے کر آر ایس ایس اپنی مرضی چلاتا ہے اور کسی جماعت کے اقتدار میں آجانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اوما بھارتی نے ان تمام مفروضات پر خاک ڈالتے ہوئے کہا کہ:’’بیوروکریسی کی اوقات کیا ہے؟ ہم انہیں تنخواہ دے رہے ہیں ‘‘۔ اس بیان کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ تنخواہ سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ وزرائے کرام کی جیب خاص سے ادا کی جاتی ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ عوام کے بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس سے ہی سرکاری خزانے کا پیٹ بھرتا ہے اور اسی پر وزراء عیش کرتے ہیں ۔

اس کے بعد اوما بھارتی نے ایک درست بات کہہ دی کہ :’’ہم انہیں پوسٹنگ دے رہے ہیں ، پروموشن اور ڈیموشن دے رہے ہیں‘‘ ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سارا کاروبار سرکار دربار کے رحم و کرم پر ہوتا ۔ اس ترقی کی خاطر سرکاری ملازم کی جو حالت ہوتی ہے اس کو اوما اس طرح بیان کرتی ہیں کہ :’’ان کی کوئی اوقات نہیں ہے ۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہم بیوروکریسی کے بہانے اپنے سیاست چلاتے ہیں(یا سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں)۔ اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں ہے۔ اس کی روشنی میں ملک کے اندر بشمول مسلمانوں میں سرکاری ملازمت کا جو بخار چڑھ رہا ہے اس کے جائزے کی ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ملازمت سرکاری ہو یا نجی اس سے بیروزگاری دور ہوجاتی ہے لیکن اس کے بارے میں سوچنا کہ یہ عزت و وقار بڑھائے گی یا ملی مسائل کو حل کرنے میں کوئی بڑا کردار ادا کرے گی ایک خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ ملت کے کام کرتے وقت مسلمان سرکاری افسران دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہچکچاتے ہیں ۔ اس کا اطلاق سب پر نہیں ہوتا کیونکہ استثناء بھی ہوتا ہے۔

اوما بھارتی یہ بھی کہتی ہیں :’’ مجھے پتہ ہے کہ بیوروکریسی ہماری چپل اٹھاتی ہے ۔ یہ قوم تو ہماری چپلیں اٹھانے والی ہوتی ہے‘‘۔ آگے انہوں نے یہ بتایا کہ : ’’ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ بیوروکریسی نیتاوں کو گھماتی ہے۔ میں مدھیہ پردیش کی وزیر اعلیٰ اور مرکزی وزیر رہی ہوں ۔ بیورو کریٹ وہی فائل لے کر آتے ہیں ،جو انہیں بتا دیا جاتا ہے کہ اس میں کرنا کیا ہے؟ ‘‘ اس طرح یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ سرکاری ملازم اپنے سیاسی آقاوں کے آلۂ کار ہوتے ہیں ۔ ان کی ادنیٰ سے ادنی ٰمزاحمت بھی برداشت نہیں کی جاتی اور ایسی جرأت دکھانے والے افسران کو بے مصرف شعبوں میں تبادلہ کرکے گویا کالا پانی پر بھیج دیا جاتا ہے۔ موجودہ سیاسی نظام پراوما بھارتی کے مذکورہ بیان سے ہنگامہ برپا ہوا تو انہوں نے اپنی صفائی میں ٹویٹ کیا :’’ بیوروکریسی سچے اور نیک ارادہ والے نیتا کا ساتھ دیتی ہے‘‘۔

یہ ایک احمقانہ دلیل ہے کیونکہ اول تو موجودہ سیاست میں سچے اور نیک رہنما چراغ لے کر ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتے اور اگر مل بھی جائیں تو وہ اپنے تحت کام کرنے والوں کو پریشان نہیں کرتے اس لیے بیوروکریسی کو ان سے خطرہ نہیں ہوتا ۔ اصل فساد تو جھوٹے اور بد ارادہ سیاستدانوں کا پھیلایا ہواہے جو اپنے جبر و استحصال کی منصوبہ بندی بیوروکریٹس کے ذریعہ کراتے ہیں ۔اپنی ساری بدعنوانی اور ظلم و ستم پر ان کی مدد سے پردہ ڈالتے ہیں۔ ہرش مندر جیسے لوگ جب انکار کرتے ہیں تو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیاجاتاہے ۔بعد میں بھی ان پر ای ڈی کا چھاپہ پڑتا ہے۔ آلوک ورما کو ہراساں کیا جاتا ہے اور سنجیو بھٹ جیسے دلیر پولس افسر کو بے بنیاد الزامات میں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اپنا مذکورہ بیان واپس لینے کے بجائے اوما بھارتی نے اعتراف کیا کہ میری زبان غلط تھی مگر میری نیت اچھی تھی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ:’’ آج سے میں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ غیر رسمی بات چیت میں بھی زبان کو قابو میں رکھوں گی‘‘۔ اپنی بے قابو زبان سے اوما بھارتی نے جو حقائق پیش کردیئے اس کے لئے عوام کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے بقول غالب؎
صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450105 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.