الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے معاملے میں اپوزیشن
جماعتوں کویہ جان کر خوش ہونا چاہیے کہ وفاقی حکومت آئندہ انتخابات میں
پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی
ہے، اپوزیشن یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ جو ریاستی مشینری رکھتا ہے اس کے
لیے دھاندلی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا مگراس عمل سے حکومت کی نیک نیتی
کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم ملک میں شفاف انتخابات کی
صورت میں اپنا ایک اور وعدہ پورا کر نے جارہے ہیں،اس کے لیے وفاقی حکومت
انتخابی اصلاحات کے لیے اپوزیشن کی تجاویز کی منتظر ہیں،کیونکہ الیکٹرونک
ووٹنگ مشین کے معاملے میں بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا
دعویدار ہے وہاں پر یہ مشین کامیابی کے ساتھ استعمال ہورہی ہے جبکہ دیگر
بین الاقوامی ملکوں میں اس مشین کا استعما ل کامیابی سے جاری ہے اور جن
لوگوں کو اس پر اعتراض ہے ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے ،
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں رہا ہے جہاں پر انتخابات ہمیشہ سے ہی
مشکوک رہے ہیں،اس معاملے پر باتیں تو سب نے کی مگر کسی ایک معاملے پر آج تک
اتفاق نہیں ہوپایا،اپوزیشن کو اگر حکومت کی اننچاس اصلاحات پر ہی اعتراض ہے
تو وہ اپنی کوئی پالیسی یا رائے دینے سے بھی گریزکیوں کررہی ہے ،یہ تووہ
لوگ ہیں جو دوہزار گیارہ سے شور مچاتے رہے کہ الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے
ای وی ایم پر جانے کی ضرورت ہے بھلے ہی الیکشن کمیشن بھی اعتراض کرے مگر
اپوزیشن جو کہ پارلیمنٹ میں موجود ہے تو پھراصل فیصلہ تو پارلیمنٹ نے ہی
کرنا ہے مگر اس کے لیے اپوزیشن اور حکومت میں اتفاق رائے کا ہونابہت ضروری
ہے،کیونکہ قومی اسمبلی ہی ان آرڈیننس کا جائزہ لے گی،اور سینٹ اس مسودہ
قانون پر غور کریگی ،اور قومی اسمبلی میں اکثریت کی بنا پر ہی یہ مسودہ
منظورہوگامگر اس سلسلے میں حکومت کوقدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا
پڑرہاہے، حکومت اس وقت تمام اسٹیک ہولڈر ز کو مطمئین کرنے کی کوشش کررہی ہے
حکومت نے جس دن سے اس مسئلے کے حل کے لیے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا ہے
اسی دن سے تنقید کی زد میں ہے ،الیکشن کمیشن کے تحفظات کو دور بھی کیا
جاسکتاہے مگر مل بیٹھ کر کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جن جن ادوار میں دھاندلی
کا شور مچا ہے ان ادوار میں الیکشن کمیشن پر سب سے زیادہ الزامات لگائے
جاتے رہے زیادہ پرانی بات نہیں ہے 2013کے الیکشن کمیشن پر بہت بڑے بڑے
الزامات لگے جو جوڈیشنل کمیشن کے روبرو کسی حد تک درست ثابت ہوئے،اور آج جب
حکومت نے الیکشن کمیشن پر لگے داغوں کو دھونے کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہے تو
خود الیکشن کمیشن ہی اس کی مخالفت میں سب سے آگے دکھائی دیتاہے،مگر حکومت
کا ایک بڑا پن یہ ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے ہر اعتراض کا جواب دینے اور
نشاندہی والی غلطیوں کو سدھارنے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے یہ جانتے ہوئے
کہ پاکستان کا جو الیکشن کمیشن ہے وہ ہندوستان کے الیکشن کمیشن سے زیادہ
طاقتور اور خود مختار ہے، یہ بات جان لینی چاہیے کہ درحقیقت ای وی ایم ٹھپہ
مافیا کی موت اور دھاندلی کی روک تھام کے لیے اہم قدم ہے، الیکشن کمیشن اگر
یہ سمجھتی ہے کہ اس کی لاگت یا درستگی اس کا مسئلہ ہے تو یہ غلط ہوگا
کیونکہ حکومت خود کہہ رہی ہے کہ اس کی ساری ذمہ داری ہم خود
اٹھائینگے۔،تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف
کراتے ہوئے اپوزیشن اور دیگر اسٹیک ہولڈر ز کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ
اصلاحات کے حوالے سے حکومت کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت شروع کریں مگر ایسا
لگتا ہے کہ اپوزیشن نے ٹھان رکھی ہے کہ حکومت جس بھی منصوبے کا سنگ بنیاد
رکھے توہم نے اس حکومتی منصوبے کی جڑیں بغیر سوچے سمجھے اکھاڑ پھینکنی ہیں
بس انکار میں گردن ہلاتے رہو۔حالیہ ضمنی انتخابات میں جس انداز میں سیاسی
جماعتوں نے ایکدوسرے پر الزام تراشیاں کی اور مبینہ بے ضابطگیوں کے شکایات
کی تھی اس کے بعد 19مئی کو حکومت کی جانب سے وزیراطلاعات فواد چوہدری اور
مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے انتخابی دھاندلی کو روکنے کے لیئے
انتخابی اصلاحات کے نئے طریقہ کار تحت الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو آئندہ
انتخابات کے لیئے پیش کر کہ تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت بھی مانگی اور
مزید تجاویز دینے کی بھی درخواست کی تھی،جس پر اپوزیشن جماعتیں جن کا ایک
نام آجکل پی ڈی ایم بھی ہے انہوں نے حکومت کی تجویز کردہ الیکٹرانک ووٹنگ
مشین کے استعمال کو مسترد کردیا، اور کوئی متبادل چیز پیش کرنے کے بھی
جسارت نہ کی،اب بڑے دل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ عام
آدمی کو بھی اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ آئے اور اپنی رائے کا اظہار کرے
حکومت نے کامسیٹس یونیورسٹی کی تیار کردہ ووٹنگ مشین سیاستدانوں اور میڈیا
کے معائنے کے لیئے پارلیمنٹ ہاؤس میں نمائش کے لیئے رکھی ہے۔ کیونکہ ای وی
ایم ایک بہترین ٹیکنالوجی ہے اور اس کی تمام تمام تر خوبیوں کے ساتھ جہاں
اپوزیشن میں نہ مانو کی رٹ لگائے ہوئے ہے وہاں الیکشن کمیشن کے مطابق آئندہ
انتخابات میں بڑے پیمانے پر مشین کے استعمال کے لیئے وقت کم ہے اور یہ کہ
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا سافٹ ویئر اور ہارڈویئر دیکھا نہیں جا سکتا ،یعنی
الیکشن کمیشن کا اعتراض بھی موجود ہے تاہم میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے
مطابق اس کے متبادل اگر حکومت یا الیکشن کمیشن کے پاس کوئی فارمولا ہے تو
وہ ضرور سامنے آنا چاہیے۔اعتراض تو دور بھی کیے جاسکتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ
وفاقی حکومت بیرون ملک میں موجود پاکستانیوں کو بھی ان کے ووٹ سے محروم
نہیں کرنا چاہتی اور ظاہر ہے کہ کسی بھی فرد واحد کی زاتی خواہش کے نتیجے
میں جو ہمارے 90لاکھ پاکستانی دنیا بھر میں موجود ہیں انہیں ووٹ کے حق سے
محروم نہیں رکھا جاسکتا،یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ملک میں ستر سالوں سے
انتخابی سیٹ اپ پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں دنیا میں جب بھی ٹیکنالوجی کا
استعمال شروع ہوتا ہے تو کچھ لوگ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں جو کہ آگے بڑھنے
کی جستجو رکھنے والوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہوتی ، میں سمجھتا ہوں کہ
اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کی اس کوشش پر تنقید کرنے کی بجائے ایک بار
بیٹھنا ضرور چاہیے اورکم از کم اپنی رائے کا اظہار ضرور کرنا چاہیے ،نہیں
تو یہ سمجھا جائے گا کہ اپوزیشن جماعتیں یہ چاہتی ہی نہیں ہے کہ الیکشن
شفاف ہو ان کی جیت یہ ہی ہے کہ ٹھپے لگائیں جائیں اور جن جعلی ووٹوں کا
طریقہ کار ان کے پاس گزشتہ کئی دہائیوں سے چلا آرھا ہے وہ یونہی چلتا ر
ہے،آپ کی فیڈ بیک کا انتظاررہے گا ۔ |