اور سب بھول گئے حرفِ صداقت
لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہے ظلمت کو ظلمت نہ لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
(جالب)
سلطنت مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دور حکومت میں انگلستان سے
آئے ہوئے انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو درخواست پیش کی کہ وہ آپ کی حکومت
میں تجارت کرنا چاہتے ہیں جس پر تجارت کی اجازت دیدی اور اس طرح انگریزوں
نے برصغیر میں اپنی کمپنی شروع کی جس کانام ایسٹ انڈیا کمپنی تھا، اس کمپنی
کے ذریعے یہاں کے باشندوں کو بھاری مراعات کے ساتھ شامل کیا تاکہ اپنے
ناپاک عزائم کو پروان پہنچا سکیں، بلا ٓخر یہ اپنے مزموم مقاصد میں کامیاب
ہوگئے ، ۷۵۸۱ءمیںجو انگریز تجارت کے بہانے آئے تھے انھوں نے حکومت ہتھیالی۔
جنگ کے بعد مسلمانوں میں یہ خیال جنم لینے لگا کہ ان انگریزوں سے آزادی
حاصل کرنی ہے اسی غرض سے کئی مسلم سپہ سالاروں نے جنگ بھی کی لیکن اپنی
درمیان منافقوں، غداروں کی بناءپر جیتی جنگیں ہاریں ان میں ٹیپو سلطان،
حیدر علی، تیمور لنک قابل ذکر ہیں، یہ سلسلہ یونہی جاری رہا۔ ۔۔پھر سرسید
احمد خان نے مسلم قوم میں تعلیم کے شعور کو بیدار کیا تو مولانا شوکت علی ،
مولانا جوہر علی نے سیاسی ، صحافتی، ثقافتی پہلوﺅں سے مسلم قوم کو یکجا
کرتے ہوئے ان میں مسلم تشخص کو اجاگر کیا اورخلافت راشدہ کی مہم شروع کی ،آپ
برادران نے ایسی اسلامی مملکت کا خاکہ پیش کیا جو مکمل خلافت راشدین کے دور
کی عکاسی کرتاتھا ۔۔۔جوہربرادران کے مطابق اس خطہ میں ایسی اسلامی حکومت کا
قیام کرنا تھا جس میں نظام ریاست مکمل اسلامی نقطہ پر قائم ہو، تا کہ
اسلامی احکامات کے تحت گیر مسلموں کو بھی وہ حق مل سکے جس سے وہ آزادانہ
اپنی مذہبی روایات کو قائم کرسکیں اور مسلمانوں کو مکمل امن و امان کے ساتھ
مذہبی و سیاسی آزادی حاصل ہو ، تمام قوموں کو اپنی روایات کے تحت استحکام
حاصل ہو ، کسی کے ساتھ بھی ناانصافی، اقربہ پروری کا معاملہ پیدا نہ ہو
لیکن زندگی نے ساتھ نہ دیا مگر جوہر برادران یہ شعور برصغیر کے مسلمانوں
میں بیدار کرگئے۔ اسی شعور کے تحت برصغیر پاک و ہند میں آزادی کی تحریک نے
زور پکڑ لیا، ہندوﺅں نے اپنی قوم کے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے کانگریس
بنائی جس میں مکمل ہندوﺅں کا تحفظ شامل تھا۔۔۔ جب قائد اعظم محمد علی جناح
نے دیکھا کہ ہندو صرف اور صرف اپنی قوم کی بقاء کیلئے جدوجہد کررہے ہیں تو
آپ نے کانگریس سے علیحدہ ہوکر خالصتاً مسلمانوں کے حقوق کیلئے ایک سیاسی
پلیٹ فارم بنایا جس کا نام مسلم لیگ رکھا۔ ۔۔۔چند ہی عرصہ میں مسلم لیگ نے
پورے برصغیر پاک و ہندمیں اپنا لوہا منوالیا اور برصغیر کے تمام مسلمان ایک
سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔۔۔۔۔ پھر 23 مارچ 1940 ءکو ایک قرارداد پیش
کی جو لاہور میں منٹو پاک میں منعقد کی گئی، اس قراراد میں مسلمانوں کے
حقوق کے متعلق متفقہ طور پرلائحہ عمل تیا کیا گیا، 14 اگست 1947ءکو پاکستان
معروض وجود میں آیا ۔پاکستان کے بننے کے بعد منٹو پارک میں ایک تاریخی
مینار بنایا جسے مینار پاکستان کہتے ہیں ۔پاکستان کے بننے کے بعد جن مشکلات
سے دوچار ہوا وہ ایک کٹھن مرحلہ تھا لیکن آزادی پاکستان کے متوالوں نے خلوص
نیت کے ساتھ اس کی تعمیر و ترقی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔کم ذرائع ہونے کے
باوجود مسلسل شب و روز کام میں صرف کردیئے، یہاں یہ بات کہنا بھی لازمی ہے
کہ موجودہ پاکستان کے صوبوں نے انصار و مہاجرین کی یادیں تازہ کردی تھیں
اور تمام مسلم قوم ایک جان ، ایک روح دکھائی دیتی تھیں ، نہ ان میں تعصب،
منافقت اور نہ ریا کاری تھی اور نہ کسی کے ساتھ زیادتی۔۔۔ قائد اعظم اور ان
کے رفیق خاص لیاقت علی جناح کے دور حکومت میں پاکستانی قوم خوشحال و خوش
مزاج دکھائی دیتی تھی، دشمنان پاکستان کو گوارہ نہ تھا کہ پاکستان کم عرصہ
میں ترقی کی راہ پر چل نکلا ہے ،کچھ منافقوں نے آگھس بیٹھ کر ان کے درمیان
نفاق پیدا کرنا شروع کردیا ۔سب سے پہلے لیاقت علی خان کو شہید کیا تاکہ
مخلص اعلیٰ کو راستہ سے ہٹایا جائے پھر ان منافقوں نے پاکستانی سیاست میں
نفرت، تعصب، اقربہ پروری ،ناانصافی کو پروان چڑھاتے ہوئے انہیں دور کرنا
شروع کیا، گو کہ ان اندرونی و بیرونی منافقت کی بناءپر پاکستان آہستہ آہستہ
دلدل میں پھنسنے لگا اور آج دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کو خود پاکستانی ایسے
تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ وہ چند گروہ اور چند سیاسی مافیہ ہے
جو ازل سے پاکستان کی آزادی کو ناپسند کرتا تھا، ان سیاست دانوں نے ہمیشہ
سنہرے خواب دکھائے لیکن حقیقت میں ایسا نہ کیا اب تو حال یہ ہے کہ لاشوں کی
سیاست پر اتر آئے ہیں نہ ملک کی پرواہ ہے ، نہ عوام کی جانوں کا خیال۔۔۔۔
یہ تو سب کے سب ایک ہی کشتی کا سوار دکھائی دیتے ہیں جو ملکی خزانے کے ساتھ
ساتھ زمینی دولت کو غیروں کے ہاتھ کوڑیوں کے دام فروخت کر بیٹھے ہیں۔ اپنی
خواہشات میں اس قدر اندھے ہوچلے ہیں کہ انہیں عوام کی غربت کا احساس تک
نہیں۔۔۔۔۔۔۔ آج کے حالات پر ا ب میں کہتا ہوں
مجھے دریا نہیں لکھنا، مجھے صحرا نہیں لکھنا
تسلسل سے سفر میں ہوں ،مجھے ٹھہرا نہیں لکھنا
پرانے رابطوں کی راکھ اب تک دل میں باقی ہے
میری جلتی ہتھیلی پر نیا وعدہ نہیں لکھنا |