ہمارے قومی لیڈروں! ذرا تم بھی
تو سوچو تمھارے رویوں نے قوم کو کتنے دکھ دئے ہیں؟
ہمارے رویوں نے قوم کوکتنے دکھ دئے ہیں ،کبھی کسی نے ایسا سوچنے کی زحمت
گوارا کی ہے؟غالباً نہیںبلکہ یقینانہیں۔کبھی کسی نے یہ نہیں سوچاکہ اُس نے
اِس قوم کوکیادیا۔بلاتفریق رنگ ونسل، عقیدہ ومذہب،نظریات وسیاست، ہمارے یہ
تمام لیڈر اگرصرف نااہل ہوتے توپھر بھی کسی حد تک کام چل جاتا۔مگر یہ ٹولہ
صرف نااہل ہی نہیں بلکہ خودغرض ،مفاد پرست ،پرلے درجے کے جھوٹے،مکار اورنہ
جانے اسی طرح کی کس کس خوبی کے حامل افراد پر مشتمل ہے ۔ بیان کردہ تمام
اوصاف کے حامل یہ ہمارے” قومی لیڈر “ ہربات پر قوم سے قربانی مانگتے ہیں ۔دال
،چاول، آٹا اوراشیائے ضروریہ کی مہنگائی سے لے کر فوجی بوٹوں کی پالش کے
اخراجات تک ،بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ سے لے کر نئے نوٹ چھاپ کر وقت
دھکیلنے کی روش تک ،ہڑتال کی کال پر بند ہونے والے ذرائع روزگار سے لے
کرگلی محلے میں سبزی بیچنے والے کے جلتے ہوئے ٹھیلے تک ، ڈرون دہشت گردی
کاشکار ہونے والے معصوم بچوں سے لے کر ٹارگٹ کلنگ کانشانہ بننے والے بے
گناہوں تک ،ووٹ کی پرچی ڈالنے سے لے کر موت کی پرچی نکلنے تک ہر معاملے
اورہر موقع پر قوم سے قربانی مانگنے والے یہ ہمارے لیڈر جو ذاتی طورپر کسی
پرائیویٹ فرم کے چپڑاسی بننے کے قابل بھی نہیں،ان سے کسی خیر خواہی
اوربہتری کی توقع رکھناخود کودھوکہ دینے کے برابر ہے۔بظاہر زہر میں بجھے یہ
الفاظ، ایک اکیلے میرے ہی نہیں، بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں بیٹھے محو سفر ان
لوگوں کے ہیں۔ جو اپنے بچوں اوراہل خانہ کاپیٹ پالنے کیلئے روزانہ چالیس
پچاس کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد اپنی اپنی روزی کے ٹھکانو ںپر بمشکل
پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ گھر سے روزی کی تلاش میں نکلنے والے عام
پاکستانی ”توکّل“ کی اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے
فضل وکرم کے اپنی گھر باعافیت واپسی کی کوئی اور امید نہیں رکھتے ۔بلکہ گھر
خیریت سے پہنچنے کے فوری بعد باوضو ہوکر سرسجدے میں رکھ لیتے ہیں کہ
یاالہٰی تیراشکر ہے کہ ایک اوردن خیریت سے گزرا۔ان ہی طرح کے حالات سے
گزرنے والے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جوکسی نادیدہ دہشت گرد کے بم کانشانہ
بننے یاکسی قاتل کی چلائی ہوئی گولی کی پیاس اپنے لہوسے بجھانے کے بعد
”قومی لیڈروں“ کی آواز پر” لبیک“ کہتے ہوئے قربانی دے دیتے ہیں۔ اوران کے
لواحقین اسے تقدیر کاحکم سمجھتے ہوئے یہ زخم کھاکراورفوری طور پراس زخم کو
بھول جانے کی کوشش کرکے پھر سے نئے جذبے اورنئے ولولے کے ساتھ” قومی لیڈروں“
کے اگلے حکم کی بجاآوری کیلئے تیار ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے لیڈروں نے کبھی یہ
نہیں سوچاکہ ان کے رویوں نے قوم کوکتنے دکھ دئے ہیں ،کبھی کسی لیڈر نے ایسا
سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔
یہ نوحہ نہیں کیونکہ نوحہ گری میرے مسلک میں نہیں ہے۔یہ ایک کوشش ہے سوئی
ہوئی قوم کوجگانے کی ۔اوراپنے مفادات کی خاطر جاگے ہوئے قومی لیڈروں کے نیم
مردہ ضمیر جھنجوڑنے کی ۔بتائیے کہ یہ کون سی دانائی ہے،یہ کون سی خدمت خلق
ہے ،یہ کونسی سیاست ہے ،یہ کونسے نظریات کاپرچارہے،یہ کونسامذہب ہے ،کہ ایک
وزیر باتدبیر نے بیان دیا،دوسرے لیڈ رنے احتجاج کی کال دی ،اوربیس تیس
لاشیں دھڑام سے گرگئیں۔چالیس گاڑیاں نذرآتش کردی گئیں۔پانچ بنک اورمتعدد
دکانیں ہوٹل اورکاروباری مراکز جلاکرراکھ کردےے گئے ۔ایک طرف قیمتی جانوں
کانقصان ہے تودوسری طرف معاشی قتل عام ۔عوام بے چارے توشایددوتین دن کے
وقفے کے بعد ” قومی لیڈروں“ کی طرف سے عوامی قربانی دینے کی ”نئی کال “
کاانتظار کرہی رہے تھے ۔جبھی تویک لخت ایک ہی دن میں بیس تیس لاشیں اٹھاکر
بھی شام کو”معافی نامہ آن ائیر“ہونے پر ہی پرسکون ہوگئے اورتقدیر
کالکھاقبول کرنے میں مگن ہوگئے ہوں گے۔اُس کے علاوہ اربوں روپے کاٹیکہ
معیشت کولگاکرکس کی خدمت کی گئی ہے ۔ اورمعیشت بھی وہ کہ جس کاایک ایک سانس
اندرونی اوربیرونی قرضوں کے حصول اورنئے کرنسی نوٹوں کی پرنٹنگ کامحتاج ہے
۔ایسی معیشت کواربوں روپے کانقصان پہنچاکر کس کوکیاپیغام دیاجانامقصود
تھا۔وہ کونسی عوامی خدمت ہے جو اس طرح کی صورت حال پیداکرکے سرانجام دی گئی
ہے ۔ایک طرف کوششیں جاری ہیں کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری
کریں اوردوسری طرف جلتاہواپاکستان ہے کہ جہاں نہ توبنک محفوظ ہیں اورنہ ہی
ہوٹل ۔نہ دکانیں محفوظ ہیں اورنہ ہی سبزی فروش کی چھابڑی شرپسند عناصر کی
آنکھ سے اوجھل ہوپاتی ہے۔اُوپر سے وفاق کی ہر شاخ پربیٹھے یہ ”ا ل ل و
“سیاسی مفاہمت اورگوڈ گورنس کانعرہ لگاکر کس کو دھوکہ دیناچاہ رہے ہیں۔ ایک
قومی لیڈر نے فرمایاکہ”صدر کی طرف سے نیک خواہشات اورخیر سگالی کاپیغام لے
کر کراچی آیاہوں“ابھی اس بیان کی سیاہی مدھم نہیں ہوئی تھی کہ بیس تیس
لاشیں اوراربوں روپے کامعاشی استحصال قوم کونصیب ہوا۔یہ کیسی سیاست ہے ،یہ
کیسی خدمت ہے جو ہمارے ”مقبول قومی لیڈر“ سرانجام دے رہے ہیں۔سوچنے کی بات
ہے کہ الزامات تو لگتے ہی رہتے ہیں ۔پاکستانی سیاست میں کون ساالزام ہے جو
کسی متحارب لیڈر نے دوسرے لیڈر پر نہ لگایاہو۔کیاہواتھااگر مرزا نے کوئی
بات کہہ دی ،کون سی قیامت آرہی تھی کہ اتنی بڑی قیامت قوم پر توڑ دی گئی
۔قوم کوصبر کی تلقین کرنے اوربار بار قوم سے قربانیوں کاسوال کرنے والے”
قومی لیڈر “خود پر آنے والے چھوٹے سے الزام کوبھی برداشت نہ کرسکے
۔اوردوسری طرف مرزا سے کوئی پوچھے کہ تمہاری اپنی قومی قیادت میں کونسی
خوبی ہے کہ جس پر تم اتنااترا رہے ہو۔کیاہماری موجودہ حکومت عوام کے مسائل
حل کرنے میں مکمل طور پر نہ سہی جزوی طور پرہی کامیابی کادعویٰ کرسکتی ہے
۔درحقیقت یہ سب دوسروں پرالزامات لگائے بغیر سیاست کرنے سے عاری ہوچکے
ہیں۔اس الزام تراشی کی روش کی وجہ سے ہی اگرکوئی کسی دوسرے کی حقیقی کمزوری
بھی بتاناچاہے توعوام ا س پر کان دھرنے کوتیار نہیں کیونکہ یہاں اپنی آنکھ
کاشہتیر نظرانداز کرنے اوردوسروں کی آنکھ کابال عوام کودکھانے کی کوشش جاری
رہتی ہے۔
پاکستانیوں!بہت سا وقت برباد کردیاگیاہے۔ اب مزید وقت برباد کرنے کی کوئی
گنجائش نہیں ہے۔مرنے والوں کانوحہ کرنابھی فضول ہے۔کیونکہ ہمارے نوحوں کی
انہیں کوئی ضرورت نہیں اورنہ ہی وہ ہمارے واویلاکرنے سے واپس آنے والے
ہیں۔وہ وہاں پہنچ چکے جہاں نہ توکسی پر ظلم ہوگااورنہ ہی بے انصافی ہوگی
۔قوم بس صرف اپنے ”قومی لیڈروں“ سے یہ سوال کرتی ہے کہ ایسی نامعقول حرکات
کب تک جاری رکھوگے؟کب تک عوامی استحصال کی روش اپنائے رہوگے؟کب تک یونہی بے
گناہوں کاخون تمھاری تسکین قلب کاسامان کرتارہے گا؟ہمارے قومی لیڈروں!ذرا
تم بھی توسوچوتمھارے رویوں نے قوم کوکتنے دکھ دئے ہیں ؟کیونکہ تم میں سے
کبھی کسی نے ایسا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ |