ایک ایسے وقت میں جب امریکی
انتظامیہ اپنی عوام کو افغانستان میں مشن کی کامیابی کی نوید سنا کر
افغانستان سے اپنی افواج کی مرحلہ وار واپسی کا اعلان کر چکی ہے ایسے میں
افغانستان میں امریکی و نیٹو مفادات کے سب سے بڑے نگہبان،منشیات کے نامور
سمگلر،طالبان کے مخبر اور وار لارڈ اور سب سے بڑھ کر افغان صدر حامد کرزئی
کے بھائی احمد ولی کرزئی کا اس کے باڈی گارڈ کے روپ میں طالبان کمانڈر
سردار دوست محمد کے ہاتھوں قتل نے صیہونیت کے علمبرداروں میں تھرتھلی مچا
دی ہے۔احمد ولی کرزئی امریکہ کیلئے افغانستان میں کتنی اہمیت کا حامل تھا
اِس کا اندازہ ٹیلی گراف کے اس تجزیے سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے جس میں
اس نے لکھا ہے کہ''حال ہی میں اوبامہ کی طرف سے افغانستان سے 33000امریکیوں
کے انخلا نے امریکی و نیٹو مشن پر اتنا بُرا اثر نہیں ڈالا جتنا ایک احمد
ولی کی موت نے ڈالا ہے''یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے سب کچھ جاننے کے باوجود نہ
صرف اسے منشیات کی سمگلنگ کی کھلی اجازت دے رکھی تھی بلکہ سی آئی اسے نے
اسے اپنے خاص ایجنٹ کا درجہ دے رکھا تھا اور اس کے علاوہ بھاری معاوضہ اور
دیگر ''ضروریات''بھی امریکہ نے اپنے ذمہ لے رکھی تھیں۔احمد ولی کرزئی پر اس
سے قبل بھی کم و بیش آٹھ بار قاتلانہ حملے ہو چکے تھے لیکن ہر بار موت ان
کو چھو کر گزر گئی لیکن گزشتہ دو سالوں میں طالبان نے ایک حکمتِ عملی کے
تحت جس طرح افغانستان کے تمام اہم اداروں مثلاََ پولیس،فوج ،انٹیلی جنس اور
امریکی و نیٹو ترجمانوں کی صورت میں اپنے بندے داخل کئے ہیں اس سے طالبان
کو بے مثال کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ گزشتہ ایک سال میں تقریباََ تیس اہم
امریکی و نیٹو اہلکار اپنے ہی ماتحتوں کے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکے ہیں اور
آخر کار احمد ولی کرزئی بھی اسی حکمتِ عملی کے تحت اپنے قلعہ نما مکان میں
مارے گئے۔حقائق بتاتے ہیں کہ احمد ولی کرزئی کو جنوبی افغانستان میں وہی
حیثیت حاصل تھی جو 90ءکی دہائی میں عبدالرشیددوستم کو روس نے دے رکھی تھی
لیکن آخر کار عبدالرشید دوستم کی طرح احمد کرزئی بھی طالبان مجاہدین کے
ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے۔احمد ولی کرزئی کے امریکہ کی آنکھ کا تارا
ہونیکی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اُس نے طالبان کے گڑھ قندھار میں اپنی
ذاتی ملیشیا کے ذریعے خاصا holdقائم رکھا ہوا تھا اور علاقے میں اس کے
چھوڑے ہوئے جاسوس اکثر امریکہ کیلئے بڑے مددگار ثابت ہوتے تھے اور اس کی
اطلاعات پر ہونیوالے بعض آپریشنز نے طالبان کو خاصا نقصان پہنچایا تھا اسی
وجہ سے احمد ولی کرزئی گزشتہ کچھ عرصے سے طالبان کیلئے ہائی ویلیو ٹارگٹ بن
چکا تھا جسے بہرحال 12جولائی کو کامیابی سے حاصل کرلیا گیا اور اس کا اظہار
طالبان کے ترجمان کے اس واقعہ کے بعد کے بیان سے بھی ہوتا ہے وہ کہہ رہے
تھے''احمد کرزئی کی موت ہماری گزشتہ ایک عشرے کی ایک بڑی کامیابی ہے''جبکہ
اس موقع پر افغان صدر کی بے بسی ان کے لب و لہجے سے نمایاں تھی انہوں نے
کہا کہ ''افغان عوام کیلئے جینے کا یہی طریقہ ہے ہم چاہتے ہیں کہ یہ
خونریزی اب بند ہو اور امن و خوشی کا دور ایک بار پھر لوٹ آئے ''دوسری جانب
مغربی میڈیا پر سوگ کی سی کیفیت طاری ہے اور وہ اس کاروائی کو افغانستان
میں طالبان کی برتری سے تعبیر کررہا ہے یاد رہے طالبان َنے گزشتہ دنوں کابل
ہوٹل میں بھی اس وقت اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا جب وہاں افغان
صوبائی گورنروں کا ایک خفیہ اجلاس منعقد کیا گیا تھا لیکن طالبان نے وہاں
کی ہائی سیکورٹی کے باوجود وہاں کامیاب آپریشن کرکے یہ ثابت کر دیا کہ
افغانستان کے اصل بادشاہ وہی ہیں اور کوئی بدیشی گورا ان پر حکومت کا خواب
پورا نہیں کر سکتا۔احمد ولی کی موت سے امریکہ اپنے ایک وفادار سے محروم تو
ہوا ہی ساتھ ہی ساتھ اس کے لئے اب ایک نیا مسئلہ بھی کھڑا ہو گیا ہے اب اس
کیلئے افغانستان سے پُرامن واپسی شائد ممکن نہ ہو سکے کہ احمد کرزئی کے بعد
اسکی ذاتی تربیت یافتہ ملیشیا جو طالبان کے خلاف امریکہ کا ایک موثر ہتھیار
تھی اب وہ بھی تتربتر ہو جائیگی اور ہو سکتا ہے اُن میں سے کچھ لوگ طالبان
کے ساتھ ہی جا ملیں ۔اس کے ساتھ اس واقعہ نے افغانستان کے دیگر حکام کو بھی
خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے اور ہر وقت اُن کو موت کا خوف سرزد رہتا ہے
کہ ممکن ہے کسی بھی وقت اُن کے عملے میں ہی موجود کوئی طالبان انہیں اگلے
جہان پہنچا دے اس لئے اب افغان حکام نے ایسے تمام مشکوک سرکاری ملازمین کی
نگرانی و سکروٹنی کا فیصلہ کیا ہے جو ان کیلئے مستقبل میں خطرہ بن سکتے ہوں
لیکن ایسا ہونا ناممکن ہے۔ اس سارے منظر نامے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ
احمد ولی کے قتل کے بعد امریکہ کو افغانستان سے بھاگ نکلنے کیلئے ایک بار
پھر اسی پاکستان کی مدد درکار ہو گی جس کی ''لاجسٹک سپورٹ' 'نے امریکہ کو
افغانستان کی راہ دکھائی تھی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان
امریکی حسرتوں کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھانے پر تیار ہو جائے گا ؟یقیناََ
ہمیں یہاں انتہائی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا کہ یہ مستقبل میں ہمارے
لئے انتہائی دُوررس اثرات کا حامل ہو گا۔ |