کراچی کی آہیں

"مدہوشی اور اقتدار کے بے جا نشہ نے ایک مرتبہ پھر کراچی کو تباہی کے دہانہ پر لاکھڑا کیا .
عاقبت نااندیش عناصر یہ نہ بھولیں کہ کراچی پر بین الاقوامی سازشی عناصر کی نظریں گڑی ہوئی ہیں"

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اپنے ایک جنونی کارکن، ذوالفقارمرزا، کو کھلا ہاتھ دیے رکھتی ہے، جسے وہ بزعم خود اپنے سیاسی مخالفین پر چھوڑدیتے ہیں۔ اور اگر اس میں کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ ان کی شعلہ بیانی کے زیراثر رہنے والی زبان پوری کردیتی ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نام نہاد سندھ کارڈ کا سہارا لینے کے لیے تمام تر شاطرانہ چالیں چلنا مرزاجی کے ہی سپردہے۔ اور اس امر کا انہیں مکمل کریڈٹ ملنا چاہیے کہ وہ اسے وقتاً فوقتاً استعمال کرکے سیاسی میدان میں بزم رزم جمائے رکھتے ہیں۔ تاہم، گزشتہ رات عوامی نیشنل پارٹی ، سندھ کی جانب سے دیے گئے ایک جشن کمشنری نظام، جو انگریزوں کے دور غلامی کی ایک تلخ یادگارہے، کے پرتکلف عشائیہ کے بعد ذوالفقار مرزا نے جو اپنا دل کھول کررکھ دیا تو گویا اس نے جولائی کی ابتداءمیں کراچی میں لگنے والی آگ کی سلگتی ہوئی راکھ کو کرید کر چنگاریوں کو پھونک کر رکھ دیا، اور جلتی پر ایسا تیل ڈالا کہ اب اس آگ کو بجھانا کم از کم ان کے بس میں نہ رہے گا۔ انہوں نے نہ صرف بانیان پاکستان کو ننگے بھوکے مہاجرکہا، بلکہ ان کے تسلیم شدہ رہنما الطاف حسین کو سب سے بڑا بدمعاش قراردے ڈالا۔ اور ایک اور قابل احترام رہنما ڈاکٹر عشرت العباد کو بھگوڑا قاتل قرار دے دیا۔ اس محفل ناﺅ نوش کے میزبان شاہی سید، اور پی پی پی کے کم از کم ایک اور رہنما سراج درّانی ان زہریلے تیروں کے چلنے کے بعد ذوالفقار مرزا کو بہلا پھسلا کر اسٹیج سے لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ تاہم اس وقت تک ایک بڑاسیاسی نقصان رونما ہوچکا تھا۔

متحدہ قومی موومنٹ، اپنے قیام سے اب تک مقامی سیاست سے قومی سیاست تک کا ایک طویل سفر کرچکی ہے۔ تاہم، آج بھی متحدہ ہندوستان سے ہجرت کرکے سابقہ ہندوستان، اور موجودہ پاکستان کے ان حصوں میں ہجرت کرکے آنے والوں کے لیے ایم کیو ایم ہی روشنی کی ایک کرن ہے۔ اور اس کی وجہ لسانیت نہیں، بلکہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس کی وجہ اب کچھ اور بھی ہے ۔آپ اگر ذرا بھی غوروفکر سے کام لیں تویہ جان جائیں گے کہ ایک جمہوری پاکستان کے لیے ایک غریب کی سیاست صرف ایم کیو ایم ہی کررہی ہے۔ دیگر جماعتیں لسانیت، برادری، جاگیردارانہ، اور سرمایہ دارانہ مفادات پر مبنی سیاست کررہی ہیں۔ اگر پی پی پی سے کسی عظیم جمہوری روایت کے تسلسل یا نئے سنگ میل کی امید تھی تو وہ گزشتہ آئینی ترمیم کے ذریعہ پارٹی عہدہ داروں کے الیکشن کی شرط کو حذف کرنے سے ختم ہوگئی۔ اس طرح پی پی پی نے ایک نہایت ہی شاطرانہ انداز میں اپنا وہ ہدف حاصل کرلیا جو کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس سے بھٹو اور زرداری خاندان کے پی پی پی پر مسلسل اور ایک مافیا نماقبضہ کی راہیں ہموار ہوگئیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ جیسی بڑی جماعت سے اگر کوئی امیدیں وابستہ تھیں تو وہ بھی دم توڑ گئیں، کیونکہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اعلیٰ ترین عہدوں کے لیے خود ہی بندربانٹ کرکے ریوڑیاں گھر ہی میں بانٹ لیں۔ دوسری جانب چوہدری برادران نے مونس الٰہی کے قانونی شکنجہ میں آتے ہی ہتھیار ڈال دیے اور پی پی پی کی ڈوبتی کشتی کو طوفان سے نکال لیا۔ عوامی نیشنل پارٹی پر بھی ایک غیرمنتخب رہنما کا قبضہ ہے۔ بلوچستان میں بھی زیادہ تر پارٹیاں لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر ہی سیاست اور جدوجہد کررہی ہیں۔ جون 2011 میں پاکستان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ برسراقتدار پارٹی، پی پی پی، کے ممبران اسمبلی خود اپنے ہی وزیرخزانہ کی زرعی ٹیکس کی تجاویز پر برافروختہ ہوکراسمبلی سے فرارہوگئے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ پی پی پی کس حد تک نہایت ہی ضروری ٹیکس، زرعی محصولات، کے بارے میں سنجیدہ ہے۔ جب کہ یہ تمام ممبران اسمبلی کوئی بھی قابل ذکر ٹیکس خود ادا نہیں کرتے، اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کی تعلیمی قابلیت،دنیاوی امور کا مطالعہ، پاکستانی تاریخ، اور ذہنی استعداد بھی قابل بحث ہے۔ ان افراد کی بالخصوص پاکستان کی تاریخ آزادی سے عدم واقفیت ہی زبان درازی کا سبب ہے۔ چنانچہ، آج صرف ایم کیو ایم ہی ایسی ایک پارٹی ایسی نظرآتی ہے جو اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور منتخب نمائندوں کے ساتھ پاکستانیت کا پرچم بلند کرکے غریب عوام کے لیے سیاست کے نئے چراغ روشن کررہی ہے، اور اقرباءپروری سے اب تک بچتی رہی ہے۔

سندھ میں حال ہی میں ایک نئے وزیرداخلہ کا تقرر کیا گیا۔ انہوں نے آتے ہی یہ بیان داغ دیا کہ کراچی چارکروڑ کی آبادی کاشہرہے۔ انہوں نے چشم زدن میں ہی کراچی کی آبادی کے تخمینہ کو دگنا قراردے دیا۔ آپ اس امر سے ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ کراچی کے مسائل حل کرنے میں کس قدر علم سے آراستہ ہیں۔ کراچی کی ایک بڑی مہاجر آبادی میں چار روز تک جدید اسلحہ سے قتل عام جاری رہا۔ دورمار بندوقوں سے مسلح افراد قریبی پہاڑیوں پر مورچہ زن ہوکر نہتے اور بے بس شہریوں پر بلادریغ نشانہ وار ماہرانہ فائرنگ کرتے رہے۔ چند کیمروں نے ان مجرمانہ کاروائیوں کو فلم بند کرلیا، اور حقائق کو جھٹلانا ممکن نہ رہا۔ یہ بالکل اسی طرح کی کاروائی تھی، جیسے کہ 1986 میں ان ہی علاقوں میں کی گئی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ اخبارات میں اس وقت چھپنے والے انٹرویوز میں متائژین نے بتایا کہ ہمارے بچوں کو آگ میں پھینک کر جلانے والے اورگھروں کو لوٹنے والے وہی افراد تھے جو مسجدوں میں ان کے ساتھ پنج وقتہ نمازیں اداکیا کرتے۔ آج ربع صدی بعد ایک مرتبہ پھر وہی منظر درپیش تھا، مسجدوں سے یہ اعلانات کیے جارہے تھے کہ اردو بولنے والے یہودیوں کی اولاد ہیں، اور واجب القتل ہیں۔ تاہم آج اسلحہ کسی مخصوص گروہ کی اجارہ داری نہیں رہا، 1986 کے واقعات نے کراچی کی آنکھیں کھول دی تھیں جس میں ایک غیر مسلح آبادی کو مسلح افراد نے باآسانی بہمیت کا نشانہ بنالیا تھا۔ چنانچہ اب دوسری جانب سے بھی مزاحمت کی گئی، اور اس تمام لڑائی کے نتائج دردناک اور رنجیدہ رہے، تاہم اونچے مقامات پر قبضہ جمائے رہنے کی وجہ سے ایک گروہ کو اس لڑائی میں سبقت حاصل رہی۔ اور انہوں نے نیچے آکر گھروں کو آگ بھی لگائی، لوٹ مار کی اور دہشت پھیلاتے رہے۔ کراچی میں متعین،مگر سرفراز شاہ مقتول کے واقعہ کے بعد سے روٹھے ہوئے، رینجرز اور سیاسی آلہءکار پولیس اعلیٰ حکام کے احکامات کا انتظار ہی کرتی رہی، اور اپنے فرائض سے غفلت برتتی رہی۔ اور اس کے بعد جب بعد از خرابیءبسیار انہیں اپنی کاہلی سے نکل کر باہر آنا پڑا تو فی الفور تمام جرائم پیشہ روپوش ہونے میں کامیاب ہوگئے، کیونکہ وہ کراچی کو جو سزادینے کے لیے متعین کیے گئے تھے وہ بخوبی پوری کی جاچکی تھی۔ اور بعد میں اسی تعیناتی کے دوران لیاری میں گینگ وار شروع کردی گئی، اور وہاں کی کئی عمارتوں پر جرائم پیشہ مسلح افراد نے قبضہ کرلیا، جو تاحال برقرار ہے۔ موجودہ حکومت کا کراچی کے بارے میں تجزیہ کس قدر کھوکھلا ہے اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بیان داغا ہے کہ کراچی میں ہونے والے زیادہ تر قتل رومان میں ناکامی اور گھریلو جھگڑوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ شیخ چلی نما بات کیا ہوسکتی ہے۔ کیا لیاری میں گولیاں اس لیے برس رہی ہیں کہ وہاں ہر دوسرے گھر میں ناچاقی ہے!۔

حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے وسائل پر قبضہ کی جنگ، کرپشن کی زیادتی، پولیس اور عدالتی نااہلیوں، پی پی پی اور عوامی نیشنل پارٹی کے گٹھ جوڑ، اور ایم کیو ایم کی جانب سے اس کی مزاحمت نے آئے دن فسادات کو کراچی کا مقدربنادیا ہے۔ آپ یقیناً یہ جان کر حیران ہوں گے کہ فرشتہ صفت صوفی عبدالستار ایدھی کے ایک بڑے سنٹر کو اے این پی کے مسلح دہشت گردوں نے گزشتہ دنوں ایک غلط فہمی کی بنیاد پر کئی گھنٹے یرغمال بنائے رکھا تھا، جب کہ جون میں کراچی کے ایک بڑے ہسپتال کو دن بھر یرغمال بنایا،ا ور ڈاکٹروں اور مریضوں اور تیمارداروں کو زدوکوب کرنے اور اپنی مذموم کاروائیوں کے بعد باآسانی ہسپتال کے عقب میں واقع پہاڑی کو عبور کرکے اپنے محفوظ دفاتر اور پناہ گاہوں میں داخل ہوگئے، اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے منہ دیکھتے رہ گئے۔ ان عاقبت نااندیش عناصر کو یہ علم نہیں کہ اب یہ خطرناک کھیل مقامی نہیں رہا۔ بین الاقوامی صورت حال یہ بتارہی ہے کہ تیونس، مصر، لیبیا، شام، جیسے ممالک میں شہریوں پر کیے جانے والے مظالم کو بہانہ بنا کر غیرملکی مداخلت شروع کردی گئی۔ اور آج ان کا حال آپ کے سامنے ہے۔ گزشتہ روز ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو بہانہ بنا کر ہندوستان بھی پاکستان کے خلاف کاروائیاں شروع کرسکتا ہے، اور اس بارے میں ان کی مدد کرنے کا عندیہ بجلی کی تیزی سے امریکی صدر اوباما نے بھی دے دیا ہے۔ جو بذات خود پاکستانیوں کے لیے ایک باعث حیرت ہے، کیونکہ پاکستان خود روزانہ ہی دہشت گردوں کی کاروائیوں کا نشانہ بن رہا ہے، مگر اس بارے میں خبر دینا تو کیا، ان ہی افراد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ چنانچہ پی پی پی اور اس کے اتحادی عناصر کی جانب سے کسی قسم کی بھی مہم جوئی 1992 کی طرز پر کی گئی تو اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوسکتے ہیں۔

حالیہ واقعات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پی پی پی اور اس کے دیگر مہم جو اتحادیوں نے کراچی کے باسیوں کو ایک علیحدہ صوبہ کے بارے میں سوچنے پر مجبورکردیاہے۔ کراچی کے سیاسی مسائل، اس کی آبادی اور اس کی جغرافیائی وسعت اور بندرگاہی اہمیت ایک آزادانہ انتظامی یونٹ کا جواز بن سکتی ہے۔ چنانچہ سندھ کی وحدت برقراررکھنے کے لیے برسراقتدار طبقہ کو زبانی اور عملی مہم جوئیوں سے باز رہنا ہوگا، ورنہ اس کھیل کی امپائرنگ پاکستان دشمنوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ چنانچہ ایم کیو ایم سے بھی یہ توقع کی جانی چاہیے کہ ایک محب وطن اور باشعور سیاسی جماعت ہونے کا ثبوت دے، اور سندھ کو نفرت کی اس آگ سے بچانے کے اقدامات کرے جوکسی بھی شدید ردعمل کے باعث اے این پی کے حامیوں کے ساتھ ساتھ پی پی پی کے سندھی حمایتیوں کو بھی اس میں جھونک سکتی ہے، جنہیں ذوالفقار مرزا خود اپنے ایک بیان کے مطابق دل کھول کر مسلح کرچکے ہیں۔ خدا پاکستان کا حامی و ناصرہو،آمین۔
JustujuTv
About the Author: JustujuTv Read More Articles by JustujuTv: 3 Articles with 2326 views A student of life, for many, many, year... View More