غریب کی کون سنے گا؟

گھر سے دفتر آنے کے راستے میں ایک دن میری نظر ایک ایسی عمارت پر پڑی جس پر بڑا سا بورڈ لگا ہواتھا اور اس پرخوش نما ہرے اور لال رنگوں میں ’’پناہ گاہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔اس سے پہلے شاید اس عمارت میں کوئی رہتا نہیں تھا۔اس لیے یہاں ’’پناہ گاہ‘‘ بنادی گئی تھی۔ حکومت کی طرف سے بنائی گئی ان پناہ گاہوں میں جہاں غریب عوام کو مفت روٹی مفت رہائش دی جاتی ہے بہت اچھا اقدام کہا جاسکتاہے، لیکن جو عوام سفید پوش ہیں اور محنت کرکے اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں ان کے لیے اشیاء خورونوش کی چیزیں ان کی پہنچ سے دور کردی گئی ہیں۔ گھر کے راستے میں آنے والی اس’’ پناہ گاہ‘‘ کی عمارت اب بھی جوں کی توں کھڑی ہے، مگر اس پر سے حکومت کا مخصوص’’پناہ گاہ‘‘ کا بورڈ تین سال میں ہی اتر گیا ہے۔ اور جہاں غریب عوام کو ریاست کے خزانے سے مفت روٹی اورمفت رہائش دی جاتی تھی اب وہاں خالی عمارت غریب عوام کا منہ چڑارہی ہے۔

حکومت پناہ گاہوں کا تجربہ کرچکی ہے۔ اب مہنگائی ختم کرنے کا تجربہ کرے، تاکہ عوام کا جینا آسان ہو۔ ریاست مدینہ کے خوش نما نعرے لگانے والوں کو ریاست مدینہ کے خد وخال کا مطالعہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ریاست مدینہ میں غریب وامیر کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی فرق نہیں تھا۔ایسا نہیں تھا کہ چند چیزوں پر مقتدرہ کا قبضہ ہواور غریب ان چیزوں کے حصول کے لیے ایڑیاں رگڑتا پھرتاہو۔ ریاست مدینہ میں سب سے زیادہ غریب کی شنوائی ہوتی تھی اور یہاں سب سے زیادہ غریب کی رسوائی ہوتی ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سارا دن کما کر شام کو اگر دکان پر ایک وقت کی روٹی کا انتظام کرنے جائیں اور گھر میں سات آٹھ افراد کا ساتھ ہوتو غریب آدمی مہنگی اشیاء دیکھ اپنی خواہشات کی قبر کھود کر بہت سے ارمانوں کو اسی میں دفن کر دیتاہے۔بعض گھروں میں سالہا سال گوشت نہیں پکتا۔جس طرح سے حکومت توانائی کے شعبوں میں اضافہ کررہی ہے آنے والے وقت میں عوام کو مہنگائی کایہ اژدھام نگل جائے گا اور حکومت وقت کے لیے اس کو روکنا مشکل ہوجائے گا ۔اورہمیں تشویش ہے کہ کہیں ملک میں حالات لبنان جیسے نہ ہوجائیں؟

پینے کے صاف پانی کے مسئلے پرحکومت کی عدم توجہ سے بہت سے علاقوں میں اب یہ مسائل نجی زندگی میں دخیل ہوگئے ہیں ۔اور ان مسائل کی وجہ سے گھریلو جھگڑے سراٹھارہے ہیں۔ ایک واقعے کا تو راقم خو دگواہ ہے کہ آج دو سال بعدبھی اس بات کو لے کردونوں بھائیوں میں چپقلش ہوری ہے کہ پانی کی لائن تو تم نے لگوائی تھی۔اب دوسال ہوگئے ہیں سوائے ایک دو مرتبہ کے ،پانی نے آج تک اپنی شکل نہیں دکھائی۔ ٹھیکیدار پیسے گھاکر بھاگ گیاہے۔ اس پر چھوٹا بھائی کہتا ہے کہ آپ سب نے مل کر مجھ پر دباؤ ڈالاتھاکہ میں پانی کی لائن لگواؤں ، جبکہ میں اس حق میں نہیں تھا کہ پانی کی لائن لگوائی جائے۔ کیوں کہ اس ملک کے نظام کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔پانی عوامی ضروریات کی چیزیں ہیں جن کو عوام کی دلہیز پر مہیا کرنامنتخب عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے۔ مگر یہاں کرپشن پر بات کرنے کو کئی تیار نہیں ہوتا۔اور عوام کو تسلی کے میٹھے لالی پاپ دے کر چپ کروادیاجاتاہے۔دوسروں کا تو معلوم نہیں،لیکن راقم موجودہ حکومت سے ریاست مدینہ بنانے کی قطعی توقع نہیں رکھتا۔

ریاست مدینہ والے تو ایسے تھے کہ جب وہ مفتوحہ علاقوں میں جاتے تو اپنے وہی ساز وسامان کے ساتھ جاتے جو ان کی کل متاع ہوتی۔ ان کی ظاہری حالت بھی ویسی ہی رہتی تھی ۔ بعض مرتبہ تو باہر سے آنے والے پہچان ہی نہ سکتے کہ عام آدمی کون ہے اور خلیفہ وقت کون ہے۔بائیس لاکھ مربع میل کے حکمران بھی اپنی سی معمولی حالت میں بیت المقدس میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں کے عیسائی،پادری مسلمانوں کے خلیفہ کو ایسی عاجزی میں دیکھ کر حیران وپریشان کھڑے ہوتے ہیں۔عام مسلمانوں اور افسروں کے درمیان تفریق کی شکایت لے کر ایک دن بلال رضی اﷲ عنہ آئے اورعرض کی:’’امیرالمؤمنین!افسران تو پرندوں کا گوشت اور میدہ کی روٹی کھاتے ہیں اور عام مسلمانوں کومعمولی کھانابھی نصیب نہیں ،امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے افسروں سے جواب طلب کرکے مکمل وضاحت مانگی اور جب تک قلبی تشفی نہ کرلی معاملے کو ڈھیلا نہ چھوڑا۔‘‘ مساوات مثالی ہو تو فتوحات بھی بے نظیر مقدر ٹھرتی ہیں۔ صرف دعوؤوں سے کچھ نہیں ہوتا۔عوام کے دکھوں پر جو تڑپ اٹھتے ہیں اور کچھ عملی کام کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو اﷲ بھی ان کی مدد و نصر ت کی راہیں ہموار کردیتاہے۔لیکن ہمیں یہاں عملی کام زیرو سے آگے ہوتاہوا نظر نہیں آیا۔ عوام کی چیخیں ہیں جو ہرطرف سنائی دے رہی ہیں۔

یہاں دونوں بھائیوں میں ایک ایسے مسئلے پر بحث ہورہی تھی جس کا حاصل کچھ نہیں تھا۔ واردات کرنے والے اپنا کام کرکے چلے گئے تھے۔ پچھلے چوبیس مہینوں سے اگر پانی نہیں آرہا، تو اس میں اس گھر کے مکینوں کا کوئی دوش نہیں ۔ اشرافیہ نے ہمارے ہاں ایک مخصوص لگابندھا نظام رائج کرکے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی ہے کہ ایسے ہی چلناہے۔ کوئی پانی کی لائن لگانے والے ٹھیکیدار سے یہ نہیں پوچھتا کہ بھائی! پانی کی لائن کہاں سے آئے گی؟ پانی کتنے دن آئے گا؟ ٹھیکیدار کو لائنیں لگانے کاٹھیکا کس نے دیا ہے اوراس مد میں محلے والوں کو کن اصول وضوابط کے تحت پانی ملے گا۔ جیسے آپریشن تھیٹر میں مریض کے رشتہ داروں کواندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح ہمارا نظا م بھی آپریشن تھیٹر سے کم نہیں ہے۔

یہ تو ایک گھر کی کہانی ہے۔ ناجانے ایسی کئی کہانیاں اس ملک کی گلی کوچوں میں برسر عام مل جائیں گی ۔ بس تلاشنے کی ضرورت ہے۔پھر آپ کو ان مسائل پر اشک شوئی کرنے والا کوئی نہیں ملے گا۔ ایک عام آدمی جتنے مسائل میں جکڑا ہوا ہے اس کا اندازہ لگانے پر آئیں تو سانسیں رک جاتی ہیں۔لیکن راقم یہ حقیقت کبھی نہیں لکھے گا کہ جس مذکورہ علاقے میں پینے کے صاف پانی کی لائن کی نوحہ لکھا ہے ، وہاں کے دولاکھ مکینوں کو دوسال سے صاف پانی نہیں مل رہا،باوجود اس کے کہ دیگرعلاقوں کی لائنوں میں پانی آرہاہے۔پانی نہ ملنے کے پیچھے وہاں کے بااثرعوامی نمائندے کا ہاتھ ہے، جس کا تعلق بھی موجودہ حکومت سے ہے۔
 

Ansar Usmani
About the Author: Ansar Usmani Read More Articles by Ansar Usmani: 32 Articles with 24549 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.